پاکستان کو لاحق گلوبل وارمنگ اور بیربل کا جواب

دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والے اسباب کو پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم جبکہ اس سے پیدا ہونے والی تباہی کا شکار ہونے والے ٹاپ سات ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔

26 جون 2023 کو لاہور میں شدید بارش کے بعد سیلابی پانی میں ڈوبا ایک بازار (اے ایف پی)

گلوبل وارمنگ مضامین کے سلسلے کی اگلی کڑی میں خوش آمدید۔

جیسا کہ ہم نے اپنے گذشتہ تمام مضامین میں بالعموم دنیا بھر کے ان تمام ممالک کا تذکرہ کیا جو عالمی حدت میں اضافے کی یا تو وجہ بن رہے ہیں یا پھر اس عفریت کا شکار ہو رہے ہیں اور ان مضامین میں پاکستان کا تذکرہ بالخصوص اس ضمن میں ہوا کہ ہمارا ملک کیسے اپنے بھول پن (خود ساختہ) کی وجہ سے کئی دہائیوں سے یہ عذاب جھیل رہا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتیریش کے پرانے بیانات کو پھر سے دہرائیں، یہاں اکبر بادشاہ اور بیربل کے اس قصے کو رقم کرنا چاہتے ہیں جسے پڑھ کر آپ کو ہمارے سیاسی ایوانوں میں بیٹھے ہمارے ہی منتخب کردہ پالیسی سازوں کی ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں ٹامک ٹوئیاں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

ایک دن اکبر بادشاہ اور بیربل شاہی باغات میں چہل قدمی کر رہے  تھے کہ بادشاہ کو کوؤں کا ایک گروہ درخت پر نظر آیا، جسے دیکھ کر اکبر بادشاہ بولے: ’حیرت ہے کہ مملکت میں کتنے کوے ہیں، تمہارے خیال میں ان کی تعداد کیا ہوگی بیربل؟‘

بیربل متانت کے ساتھ گویا ہوئے: ’حضور ہماری مملکت میں پچانوے ہزار چار سو تریسٹھ کوے ہیں۔‘

اکبر نے حیرت سے بیربل کی طرف  دیکھتے ہوئے کہا: ’تمہیں کیسے معلوم؟‘ بیربل نے اعتماد سے جواب دیا: ’مجھے آپ کی عظمت کا پورا یقین ہے۔ آپ چاہیں تو کوؤں کی گنتی کروا سکتے ہیں جہاں پناہ۔‘ 

بادشاہ نے ماتھے پر تیوری جماتے ہوئے کہا: ’اگر ان کی تعداد کم نکلی تو؟‘ بیربل نے اپنی ازلی حاضر جوابی کو بروئے کار لاتے ہوئے جواب دیا: ’جہاں پناہ، اس کا مطلب یہ ہو گا  کہ کوے پڑوسی ریاستوں میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے ہیں۔‘

اکبر بادشاہ نے سوچتے ہوئے کہا: ’لیکن بیربل اگر ان کی تعداد تمھاری بتائی ہوئی تعداد سے زیادہ نکلی تو؟‘

بیربل نے انتہائی اطمینان اور خوداعتمادی کے ساتھ جواب دیا: ’حضور ایسی صورت میں، دوسری ریاستوں کے کوے ہماری مملکت میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے  ہوں گے۔‘

اس واقعے میں بیربل اور ہمارے ایوانوں میں بیٹھے فیصلہ سازوں کے رویے کس حد تک مماثل ہیں، اس کا فیصلہ ہم اپنے قاری پر چھوڑتے ہوئے براہِ راست چلتے ہیں سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ انتونیو گوتیریش کے حالیہ بیانات کی طرف۔۔۔  

انہوں نے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی حالیہ تباہی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس تباہی کا گلوبل وارمنگ سے براہِ راست تعلق ہے، جس کی وجہ سے صدیوں سے ایستادہ پہاڑوں پر جمی برف پگھل رہی ہے اور اس پگھلاؤ کے ذمے دار جی ایٹ ممالک ہیں کیونکہ فضا کو آلودہ کرنے والی کاربن کے اخراج کا 80 فیصد حصہ انہی بڑے ممالک کی صنعتوں سے جڑے دھویں کے طفیل پیدا ہوتا ہے جبکہ اس میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔

اس میں غور طلب جملہ ہے ’گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔‘ اور یہ  بات کون کہہ رہا ہے، اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل!

دنیا بھر میں عالمی حدت میں اضافے کا باعث بننے والے اسباب کو پیدا کرنے میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم جبکہ اس سے پیدا ہونے والی تباہی کا شکار ہونے والے ٹاپ سات ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ہر ذی فہم انسان کو اس کے سدِباب میں جت جانا چاہیے۔

اس کا کیا کیا جائے کہ ہم ایک ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں اجتماعی فائدے کو ذاتی اور ذاتی تباہی کو اجتماعی تباہی پر فوقیت دی جاتی ہے۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان بھی اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگرچہ عالمی حدت میں اضافے میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر سیلاب سے ہمارے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں انسانوں سمیت دنیا بھر کے ماحولیاتی نظاموں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔

پاکستان کی قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے ابتدائی حصے میں اس کے ذریعے حاصل کیے جانے والے مقاصد کے حوالے سے درج ہے کہ ’اس بات کو یقینی بنانا کہ موسمیاتی تبدیلی کو معیشت کے معاشی اور سماجی طور پر کمزور شعبے میں مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے اور پاکستان کو موسمی حالات کے موافق ترقی کی طرف لے جایا جائے۔‘

اب یہاں تک تو سب درست ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عالمی حدت میں اضافے میں ہمارا حصہ تو نہ ہونے کے برابر ہے اور اس سے ہونے والی تباہی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک میں ہم شامل ہیں تو کیا اپنے ملک میں عالمی حدت میں اضافہ کرنے والے اسباب کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے یا گلوبل وارمنگ سے ہونے والی تباہی سے بچنے کے لیے اپنے انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے ملک میں پانی کے ذخیرے میں کمی آ رہی ہے، زیرِ زمین پانی کی سطح بھی گر رہی ہے، پاکستان کا واٹر ٹینک کہلانے والے گلیشیئرز عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث نہ صرف سیلاب تباہی مچا رہے ہیں بلکہ مستقبل میں ہمیں پانی کی شدید قلت کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس لیے پانی کو بچانے اور اسے آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا ہمیں بہتر اور نتیجہ خیز پلاننگ کی ضرورت نہیں ہے؟

ہمارے پاس نکاسیِ آب کا مناسب نظام موجود نہیں، سیوریج کا پانی براہِ راست دریاؤں اور سمندروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کارخانوں اور صنعتوں کا زہریلا فضلہ اور پانی بنا کسی ٹریٹمنٹ کے جھیلوں، نہروں، دریاؤں اورسمندر میں جھونک دیا جاتا ہے، جو نہ صرف صاف پانی کو آلودہ کرتا ہے بلکہ سمندری حیات کے لیے بھی خطرے کا باعث بن جاتا ہے۔ پاکستان کے ساحلوں پر مچھلیوں کی افزائش میں کمی سے ماہی گیروں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔

سیلاب سے متعلق ’پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز اسیسمنٹ‘ رپورٹ کے مطابق حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب سے براہ راست نقصانات کا تخمینہ 14.9 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جب کہ مجموعی معاشی خسارہ 15.2ارب ڈالر کا ہوا ہے۔

یہ پاکستانی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے جانے والا نقصان ہے کیونکہ پاکستان پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔ ورلڈ بینک کی ’کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ‘ میں پاکستان کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیرنو پر کم سے کم 16.3 ارب ڈالر کے اخراجات ہوں گے، پاکستان میں غربت کی شرح میں 3.7 تا 4.0 فیصد اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مزید 84 سے 91 لاکھ افراد غربت کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے، یہ اور ایسے ہی بہت سے مسائل فوری حکومتی توجہ کے مستحق ہیں۔

اگلے مضامین میں ہم چیدہ چیدہ ان ایریاز کا ذکر کریں گے جہاں نہ صرف حکومت بلکہ عوام کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ حالیہ برسوں میں ہم عالمی حدت میں اضافے سے جن مسائل کا شکار ہوئے، اگر ان کا سدِباب نہ کرکے پھر سے انہی صعوبتوں کو جھیلنا پڑا تو پھر اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر شبہ ہونے لگے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ