گذشتہ چند سالوں میں، ہائپر کنیکٹی وٹی اور معلومات کے غیر مرکزی بہاؤ نے دنیا میں فیک نیوز اور سازشی نظریات کو مرکزی حیثیت دی ہے۔
کووڈ19 کی وبا نے فیک نیوز اور سازشی نظریات کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
مثال کے طور پر، نیولڈائٹس نے یورپ میں فائیو جی ٹاورز کی شعاعوں کو کرونا وائرس کا سبب قرار دے کر کر ان پر حملے کیے۔
اسی طرح اینٹی ویکسر تحریک نے کووڈ19 کی ویکسین کے بارے میں فیک نیوز کی بنیاد پر شکوک و شبہات جنم دیے۔
جنوبی ایشیا کے متنوع اور کثیر الجہتی خطرات کے منظر نامے میں، فیک نیوز اور سازشی نظریات انتہا پسند گروپوں کے نظریاتی بیانیے اور پروپیگنڈا مہمات کا ایک لازمی حصہ رہے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں فیک نیوز کے ذریعے بڑھائے گئے سازشی نظریات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
اقلیتوں کے خلاف سازشی بیانیہ، سپر پاورز کی مداخلت اور خطے میں ان کی مداخلت کے بارے میں افواہیں اور اینٹی ویکسین جذبات پیدا بھڑکانا۔
جب بھی ان مسائل کے گرد غلط معلومات سوشل میڈیا پر پھیلتی ہیں، یہ ہنگامے، فرقہ وارانہ جھڑپیں، توڑ پھوڑ اور تشدد کی دیگر اقسام کو بھڑکاتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں انتہا پسند گروہوں نے ان مواقعوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریات کی توثیق کرتے ہیں اور بھرتی، انتہا پسندی اور تشدد کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
اسی کی دہائی میں افغان جہاد کے بعد سے، سپر پاورز کی فوجی مداخلت کے بارے میں سازشی نظریات جنوبی ایشیا میں جہادی گروپوں کی بھرتی، انتہا پسندی اور فنڈنگ مہمات کا ایک مستقل عنصر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد، اینٹی امریکی جذبات نے نہ صرف جہادی بھرتی، فنڈنگ اور تشدد کو بڑھایا، بلکہ سازشی نظریات کی ایک کثیر تعداد کو بھی جنم دیا۔
ان سازشی نظریات کا مختلف تنازعات میں ریاستی اور غیر ریاستی کرداروں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے فائدہ اٹھایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مثال کے طور پر، طالبان اور القاعدہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلام پر حملے کے طور پر پیش کیا جس سے انہوں نے اپنے عسکری کارروائیوں کے لیے ہمدردیاں، بھرتی اور فنڈز حاصل کیں۔
اگست2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد، چین بھی کچھ جہادی اور نسلی گروہوں کے سازشی پروپیگنڈے کا نشانہ بنا۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے ذریعے اقتصادی اثر و رسوخ کو داعش خراسان جیسے گروہوں نے نشانہ بنایا۔
مثال کے طور پر، ستمبر 2022 کے ماہانہ انگریزی زبان کے جریدے ’وائس آف خراسان‘ میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’چین کا امپیریل ازم کا خواب‘ جس میں چین کے عالمی عروج پر تنقید کرتے ہوئے مختلف سازشی نظریات کو پروان چڑھایا گیا جیسا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو روڈ کی آڑ میں چین مسلمان ممالک کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں پولیو ویکسینیشن کے بارے میں شکوک وشبہات 2011 میں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد سے موجود ہیں۔
اس کے بعد، طالبان کے پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈے نے افغانستان اور پاکستان میں پولیو وائرس کے خاتمے کی راہوں میں رکاوٹ ڈالی۔
اگرچہ طالبان نے حالیہ برسوں میں پولیو ویکسین کے خلاف اپنی مخالفت کو کم کر دیا ہے لیکن داعش-خراسان نے پولیو کی ویکسینیشن کو پروپیگنڈے اور عسکری حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔
2024 میں، پاکستان میں پولیو ویکسینیٹرز اور ان کی حفاظت کرنے والی پولیس ٹیموں کے خلاف 27 دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2012 سے اب تک، تقریباً 70 محکمہ صحت کے کارکنان پولیو ویکسین کے مہم کے دوران دہشت گرد حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
جولائی 2011 میں، اسامہ بن لادن کے قتل کے دو ماہ بعد، برطانوی اخبار گارڈین نے ایک خبر شائع کی جس میں سی آئی اے کے ڈاکٹر شکیل افریدی کے ساتھ مل کر جعلی ہیپاٹائٹس بی ویکسینیشن مہم چلانے کی تفصیلات بتائی گئی جس میں بن لادن کے رہائشی کمپاؤنڈ میں رہنے والے بچوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس خبر کے بعد، طالبان نے پولیو ویکسینیشن پر پابندی عائد کر دی اور پولیو پروگراموں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک کر دیا۔
طالبان کی جانب سے جون 2012 میں جاری کردہ ایک فتوے میں کہا گیا کہ ’پولیو اہلکار جاسوس بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہم نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے میں پایا۔‘
اسی طرح، ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ نے اپنے ایک ریڈیو بیان کے ذریعے کہا تھا کہ پولیو کے خاتمے کی مہم ’یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کی افزائش نسل کو روکا جاسکے۔‘
ٹی ٹی پی کے پروپیگنڈے نے پولیو کی ویکسینیشن کے بارے میں تین افواہیں پھیلائیں۔
- گروپ نے صحت کے کارکنوں کو سی آئی اے کے ایجنٹ قرار دیا۔
- یہ الزام لگایا کہ پولیو ویکسینیشن مسلمانوں کی آبادی کو بے اولاد کرنے کا ایک ڈھونگ ہے۔
- گروپ نے دعویٰ کیا کہ پولیو ویکسینیشن سور کی چربی سے بنی ہے اور اس لیے یہ حلال نہیں ہے۔
اسی طرح، بھارت میں ’لو جہاد‘ کا سازشی تصور یہ ہے کہ مسلم مردوں کی جانب سے ہندو خواتین کو محبت کی چھال میں پھنسا کر رومانوی تعلقات کے ذریعے ان کی مذہب کی تبدیلی مقصد ہے۔
’لو جہاد‘ 2000 اور 2010 کی دہائی میں خاص طور پر کیرالہ اور کرناٹک کی ریاستوں میں نمایاں تھے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور حکومت میں، 28 میں سے 11 بھارتی ریاستوں نے مبینہ لو جہاد کو روکنے کے لیے تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین منظور کیے ہیں۔
جنوبی ایشیا دنیا میں نوجوانوں کا سب سے کم عمر علاقوں میں سے ایک ہے لیکن یہ انتہا پسند گروپوں کی ایک بڑی تعداد کا بھی مسکن ہے جو مختلف حکمت عملیوں کے ذریعے، بشمول فیک نیوز کی مہم کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ مبذول کرنے کی مُسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے ایک اندازے کے مطابق، ایک خدشہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے تقریباً 54 فیصد نوجوان 2030 تک ملازمت کے لیے ضروری مہارتوں کے بغیر اسکول چھوڑ دیں گے۔
یہ خطہ دنیا کو سب سے بڑی لیبر فورس فراہم کرتا ہے، جس میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ نوجوان ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کی حکومتیں اگر اس نوجوان نسل سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو انتہا پسند نیٹ ورکس ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواسکتے ہیں۔
مصنف: ایس۔ راجا رتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔