ٹرمپ کی طاقتور دکھنے کی کوشش، مگر فیصلے کوئی اور کر رہا ہے

کیا ٹرمپ واقعی بااختیار ہیں یا انہیں وہ لوگ قابو کر رہے ہیں جو ’ڈیل کے ماہر‘ کہلانے والے ٹرمپ کو ان ہی کے انداز میں چیلنج کر رہے ہیں؟

ٹیسلا اور سپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک اپنے بیٹے X Æ A-Xii کے ساتھ 11 فروری، 2025 کو وائٹ ہاؤس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ موجود ہیں، جہاں ٹرمپ ایگزیکٹیو آرڈرز پر دستخط کر رہے ہیں (اے ایف پی)

آٹھ سال پہلے واشنگٹن میں یہ ایک عام فقرہ بن گیا تھا کہ صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کو بدل دے گی، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کو نہیں بدلیں گے۔

اب، ان گنت اعلانات کے تناظر میں یہ کہنا آسان ہو گا کہ معاملہ بالکل الٹ ہو چکا ہے۔ لیکن شاید اس سے بات مکمل وضاحت نہیں ہوتی — کیا یہ ممکن ہے کہ حالیہ دنوں میں کیے گئے انتہائی اہم اعلانات کے پیش نظر ٹرمپ کی بجائے ان کے ارد گرد موجود افراد صدارت کو بدل رہے ہیں؟ آیے ایک بنیادی نکتے پر متفق ہو جاتے ہیں جسے ہر کوئی تسلیم کرے گا: ڈونلڈ ٹرمپ ’روایتی سیاست‘ سے بالکل ایک الگ شخصیت ہیں۔

اس کا ایک بصری مظہر یقینی طور پر وہ منظر تھا جب ٹرمپ اوول آفس میں ’ریزولوٹ ڈیسک‘ کے پیچھے بیٹھے تھے، ایلون مسک ان کے ساتھ تھے، اور ان کے سر پر ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ان کی کالی ’میگا (ایم اے جی اے)‘ ٹوپی کو ان کی آنکھوں پر ڈال رہا تھا، جبکہ والد یہ وضاحت کر رہے تھے کہ انہوں نے

’لاکھوں کنڈومز حماس کے جنگجوؤں کو بھیجے جانے‘ کے معاملے میں غلطی کر دی تھی۔

درحقیقت وہ موزمبیق بھیجے گئے تھے تاکہ ایڈز سے نمٹا جا سکے۔ میرا خیال ہے یہ ایک عام غلطی تھی، شاید۔

ہم ایکس پر بعد میں واپس آئیں گے— نہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ مسک کے سر پر بیٹھے بچے کی بات ہو رہی ہے۔ اس کا نام بھی ایکس ہے۔ براہ کرم توجہ دیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔

لیکن یہاں ایلون مسک کچھ ایسا کر رہے تھے جو بہت کم لوگوں کو کرنے کی اجازت ہے۔

وہ ٹرمپ سے زیادہ توجہ حاصل کر رہے تھے۔ کیمرے مسک پر تھے جب وہ اپنی نام نہاد ’محکمہ برائے سرکاری استعداد کاری (ڈی او جی ای) کی وضاحت کر رہے تھے۔ 

جب وہ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ یہ سب جمہوری جواب دہی کے بارے میں ہے، مجھے انتہا درجے کی ستم ظریفی محسوس ہوئی۔

مسک، جنہیں کسی نے منتخب نہیں کیا، جنہیں کسی توثیقی سماعت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ان کا عہدہ کوئی کابینہ کا منصب نہیں، اور جن کی تنظیم کسی بھی رسمی حکومتی ادارے کے تابع نہیں، اس طرح کانگریس کی جانچ پڑتال سے باہر ہے—وہ جمہوری احتساب پر لیکچر دے رہے تھے۔

مسک کا کہنا تھا کہ ان کا خوف یہ ہے کہ امریکہ اب جمہوریت نہیں بلکہ ایک بیوروکریسی بن چکا ہے، جو ایک ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے زیر انتظام ہے جس کا واحد مقصد خود کو قائم رکھنا ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے مسک امریکی محکمہ خزانہ یا پینٹاگون میں جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ کن کمپنیوں کو سرکاری ٹھیکے دیے گئے ہیں۔ 

لیکن خود ان کی کمپنی ’سپیس ایکس‘ کے پاس امریکی حکومت کے اربوں ڈالر کے معاہدے ہیں۔ ان کے حریفوں کے پاس بھی ایسے ہی معاہدے ہیں۔ 

تو کیا وہ واقعی یہ فیصلہ کرنے کے لیے موزوں شخص ہیں کہ سرکاری اخراجات کہاں منصفانہ ہیں اور کہاں نہیں؟

گذشتہ ہفتے کے اختتام پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سے پوچھا گیا کہ مسک کے ذاتی کاروباری مفادات اور ڈو او جی ای میں ان کے کردار کے درمیان ممکنہ مفادات کے تصادم کی نگرانی کون کرے گا۔ 

آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جواب کیا تھا؟ بالکل، مسک خود ہی اس کی نگرانی کریں گے۔ کیا ٹرمپ کو اندازہ ہے کہ وہ کیا چیز جنم دے چکے ہیں؟

یا پھر گذشتہ ہفتے کا ایک اور اہم اعلان لے لیجیے—اور میں کاغذی سٹراز کی بجائے پلاسٹک کے سٹراز کی واپسی کی بات نہیں کر رہا۔ 

میں غزہ کے مستقبل کے بارے میں اس ’معمولی‘ خارجہ پالیسی مداخلت کی بات کر رہا ہوں، جس کے تحت اسے ’مشرق وسطیٰ کا رویرا‘ بنانے کی تجویز دی گئی۔

یہ دیکھنے کے لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں تھی کہ بن یامین نتن یاہو کی حیرت انگیز کھلی ہوئی آنکھیں یہ بتا رہی تھیں کہ وہ کتنے حیران تھے، جب ٹرمپ نے غزہ کے بارے میں اپنا منصوبہ پیش کیا۔ 

کیا انتظامیہ میں کسی کو علم تھا کہ یہ ہونے والا ہے؟ ایسا نہیں لگتا۔ اور پھر بھی، ٹرمپ نے ایک ایسا خیال پیش کیا جو مکمل طور پر ان کے داماد جیرڈ کشنر کا تھا۔ کشنر نے کچھ ماہ قبل اس کا ذکر کیا تھا۔ 

ٹرمپ کی طرح ان کا پس منظر بھی رئیل سٹیٹ میں ہے، یہ تمام ترقیاتی منصوبوں میں سب سے بڑا منصوبہ ہو سکتا ہے —غزہ کو مسمار کر دینا، 18 لاکھ فلسطینیوں کو کہیں اور بھیج دینا، اور اس قیمتی زمین کو دوبارہ ترقی دینا۔ ’رویرا سے سمندر تک؟‘

اگر سیدھی بات کی جائے تو شاید یہ منصوبہ پوری طرح سوچا سمجھا نہیں تھا یا ان اہم فریقین کی حمایت حاصل نہیں تھی جن کی شرکت اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھی۔

اور پھر یوکرین کی بات آتی ہے، جہاں ’عظیم مذاکرات کار‘ نے بظاہر روس کو وہ سب کچھ دے دیا جو وہ چاہتا تھا، بغیر اس کے کہ مذاکرات کا آغاز بھی ہوا ہو۔

یوکرین کو زمین چھوڑنی پڑے گی اور نیٹو میں شمولیت کی اجازت نہیں ہو گی۔ ولادی میر (پوتن) کو شاید اس سے بہتر ویلنٹائن کا تحفہ کبھی نہیں ملا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تینوں مثالوں میں ٹرمپ ایک پُرعزم پیامبر بنے نظر آتے ہیں—لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ اپنا ہی پیغام دے رہے ہیں۔

مسک، کشنر، اور پوتن سب یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے ٹرمپ پر بخوبی قابو کر لیا ہے۔

2018 میں، میں نے ہیلسنکی میں ٹرمپ اور پوتن کی مشترکہ پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ پوتن نے ٹرمپ کے بیٹے بیرن کے لیے ایک فٹ بال دیا؛ اور ٹرمپ نے پوتن کو سب کچھ دے دیا (دوبارہ)۔ 

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے روسی صدر کا یہ دعویٰ قبول کر لیا کہ انہوں نے 2016 کے امریکی انتخابات میں مداخلت نہیں کی— یہ دعویٰ ہر امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی متفقہ رائے کے بالکل برعکس تھا۔

یہ قول مختلف اوقات میں ڈیوڈ لائیڈ جارج اور پہلی جنگ عظیم کے جنرل فیلڈ مارشل ڈگلس ہیگ سے منسوب کیا جاتا رہا ہے، اور وہ یہ ہے: ’وہ آخری شخص کے اثرات قبول کر لیتا ہے جو اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘

یہ تصور مکمل طور پر اس مضبوطی اور عزم کے برعکس ہے جس کا تاثر ٹرمپ دینا چاہتے ہیں۔ وہ خود کو ایک سخت گیر شخصیت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں – بالکل پوتن، اردوغان، شی، اور بان کی طرح – لیکن کیا وہ درحقیقت زیادہ تابع فرمان ہیں – اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو پالیسی پر اثر انداز ہونے کی حد سے زیادہ اجازت دے رہے ہیں۔

یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ دوسرے لوگ انہیں احمق بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

جو ہمیں واپس ایکس کی طرف لے آتا ہے، جو اپنے انمول اوول آفس کیمیو میں نظر آیا۔ اب وہ اپنے والد کے کندھے سے اتر چکا تھا، اور ’ریزولوٹ ڈیسک‘ کے قریب بے چینی سے ہل جل رہا تھا جبکہ ٹرمپ کا چہرہ اور زیادہ سخت ہوتا جا رہا تھا۔ 

مسک کی گفتگو کے دوران چھوٹا ایکس ٹرمپ کی طرف دیکھ کر بظاہر کہہ رہا تھا: ’آپ صدر نہیں ہو۔ آپ کو یہاں سے چلے جانا چاہیے۔‘ بس یہی سوچا جا سکتا ہے کہ اس نے یہ کہاں سے سیکھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ