ایک ایسے وقت میں جبکہ گلوبل وارمنگ کو انسانیت کے لیے خطرے کا انتہائی نشان‘ یعنی ’کوڈ ریڈ‘ قرار دیا گیا ہے، ماہرین نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تغیر اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دنیا میں صحت کے مسائل بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق عالمی طبی جریدے ’لینسیٹ‘ کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹس میں صحت کے 44 مسائل کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا گیا ہے، جن میں گرمی سے ہونے والی اموات، متعدی امراض اور بھوک شامل ہیں۔
’لینسیٹ کاؤنٹ ڈاون‘ پروجیکٹ کی ریسرچ ڈائریکٹر اور بائیو کیمسٹ مرینا رومینیلو نے کہا کہ ان میں سے ہر ایک مرض سنگین ہو رہا ہے۔
رپورٹ کی شریک مصنف اور یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انوائرمنٹل ہیلتھ کی پروفیسر کرسٹی ایبی نے کہا: ’یہ سب بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتائج ہیں۔‘
اس سال کی رپورٹس، جن میں ایک عالمی اور دوسری صرف امریکہ کے لیے ہے، میں ان خطرناک رجحانات کو اجاگر کیا گیا ہے، جس میں ’کوڈ ریڈ فار ہیلدھی فیوچر‘ نامی ایک رپورٹ کے مطابق خطرے سے دوچار (زائد العمر اور نوجوان) افراد گذشتہ سال زیادہ خطرناک درجہ حرارت کا شکار بنے۔
محققین نے شمار کیا کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے 1986 سے 2005 کی اوسط کے مقابلے میں تین ارب زیادہ افراد انتہائی گرمی کا شکار تھے۔
ان میں زیادہ تر افراد ان جگہوں پر تھے جہاں آب و ہوا سے حساس بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ گذشتہ دہائی میں بالٹک یعنی امریکہ کے شمال مشرق اور بحرالکاہل کے شمال مغربی ساحلی علاقے وبریو بیکٹیریا کے لیے کافی گرم ہیں، جہاں ان کی تعداد بڑھی ہے۔
کچھ غریب ممالک میں ملیریا پھیلانے والے مچھروں کا موسم 1950 کی دہائی کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں ٹروپیکل میڈیسن کی پروفیسر ڈاکٹر مشیل بیری نے کہا کہ ’آخری لینسیٹ رپورٹ کے مقابلے میں یہ ایک سنجیدہ اور حساس مسٔلہ ہے، جس کے مطابق ہم مکمل طور پر غلط سمت میں جا رہے ہیں۔‘
دنیا بھر میں شدید گرم موسم، آتشزدگی اور خشک سالی نے سب سے زیادہ مسائل پیدا کیے۔ رواں موسم گرما میں بحر الکاہل اور کینیڈا میں گرمی کی لہر آئی اور پچھلے مطالعے کے مطابق اس کی وجہ انسانوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واشنگٹن یونیورسٹی میں ماحولیاتی صحت اور ایمرجنسی میڈیسن کے پروفیسر اور اس مطالعے کے شریک مصنف ڈاکٹر جیریمی ہیس نے کہا کہ انہوں نے گرمی کے دوران سیئٹل کی ایمرجنسی میں کام کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دیکھے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے پیرا میڈیکس کو دیکھا جو ہیٹ سٹروک کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے خود بھی جھلس گئے تھے۔‘
بوسٹن میں ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ سائنس اب وہ دکھا رہی ہے جس کا وہ برسوں سے مشاہدہ کر رہی ہیں، یعنی الرجی کے باعث دمے کی بڑھتی ہو بیماری۔
رپورٹ کی شریک مصنف ڈاکٹر رینی سالاس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی صحت کے بحران کا باعث ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈین ڈاکٹر لن گولڈمین، جو اس پروجیکٹ کا حصہ نہیں تھے، نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے صحت کے مسائل ’بہت زیادہ تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 84 ممالک میں سے 65 میں فوسل ایندھن کے استعمال پر سبسڈی دی جا رہی ہے جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔
یو سی ایل اے کے پبلک ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر رچرڈ جیکسن نے کہا کہ ’اس کی مثال یوں ہے کہ کوئی شدید بیمار مریض کو اس کی دیکھ بھال کے لیے سگریٹ اور جنک فوڈ دے رہا ہو۔‘
رواں برس اگست میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ زمین کا ماحول اتنا گرم ہو رہا ہے کہ اگلے تقریباً 10 سال میں عالمی درجہ حرارت اس سطح سے کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے، جس سطح پر اسے روکنے کے لیے عالمی رہنما کوششوں میں مصروف ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس صورت حال کو ’انسانیت کے لیے خطرے کا انتہائی نشان‘ یعنی ’کوڈ ریڈ‘ قرار دیا جبکہ امریکہ کے قومی مرکز برائے ماحولیاتی تحقیق سے منسلک سینیئر سائنسدان اور رپورٹ کی شریک مصنفہ لِنڈا مرنزنے اس وقت کہا تھا: ’اس بات کی پکی ضمانت ہے کہ حالات مزید خراب ہونے جا رہے ہیں۔ فرار کے لیے کوئی جگہ ملے گی نہ چھپنے کے لیے۔‘