مزے تو گنڈا پور صاحب کے ہیں

گنڈا پور صاحب پر رشک آتا ہے کیا قسمت پائی ہے۔ کارکردگی کا کوئی مطالبہ ہے نہ جواب دہی کا کوئی خوف۔

پاکستان تحریک انصاف کے نامزد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور 10 مارچ، 2024 کو پشاور میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج سے خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

گنڈا پور صاحب پر رشک آتا ہے کیا قسمت پائی ہے۔ کارکردگی کا کوئی مطالبہ ہے نہ جواب دہی کا کوئی خوف۔ آندھی کی طرح آتے ہیں، بادل بن کر گرجتے ہیں، بجلی کی مانند کڑکتے ہیں اور سرسوں کی طرح لہلہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں۔ غالب ہوتے تو ایک تازہ قصیدہ لکھتے کہ فرماں روائے کشورِ ’کے پی‘، تجھے سلام ۔

وہ اور ہوں گے جن کا خیال تھا اقتدار پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کی مالا ہے، گنڈا پور صاحب تو موسمِ گل کی پنکھڑی ہیں، ان کے لیے ہر خارِ بستر ، تارِ بستر ہے۔

وہ اس قافلہِ انقلاب کے ماہِ تمام ہیں، جو کارکردگی کا سوال ہی نہیں اٹھاتا۔ یہ گروہِ ناز اس بات سے بے نیاز ہے کہ حکومت کس چیز کا نام ہے اور اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ یہ اسی بات پر آسودہ ہو جاتا ہے کہ کوئی جنگجو زباں بکف آئے اور اس شان سے آئے کہ اس کے رجز حریفوں کے دامن اور دستاروں سے لپٹ جائیں۔

گنڈا پور قافلہ انقلاب کے ذوق کے شناسا ہیں، وہ یہی کر رہے ہیں۔ کارِ حکومت کی نزاکتیں انہوں نے طاق نسیاں پر رکھ چھوڑی ہیں، ہجرِ مجنوں میں  ’یا محبت‘ کہہ کر وہ آبلے تھوکتے ہیں تو محفلِ ناز پکار اُٹھتی ہے: مکرر مکرر۔

ان کے مقابل پنجاب اور سندھ  کو دیکھیے۔ پنجاب میں متعدد نئے منصوبے سامنے آ چکے ہیں، کام ہو رہا ہے۔ اس کام کی سندھ میں تحسین ہوتی ہے تو بلاول پریشان ہو کر وہاں پہنچتے ہیں کہ آپ کو کوئی شکایت ہے تو ہم سے کہیں، دوسروں سے شکایت نہ لگائیں۔

گنڈا پور حکومت لیکن نہ ڈھنگ کا کام کر رہی ہے نہ اس بات پر  پریشان ہو رہی ہے۔ وہ جنگی ترانہ پڑھ پڑھ کر سرخرو ہو رہی ہے: یا محبت! تھُو، تھُو، تھُو۔

تحریک انصاف کے اندر سے بھی کوئی آواز نہیں اٹھ رہی کہ بطور حکومت ہماری کارکردگی کیا ہے۔ حساسیت صرف اس بات پر ہے کہ احتجاج میں ہماری کارکردگی کیا ہے۔ علی امین گنڈا پور کی وزارت اعلیٰ پر عدم اعتماد نہیں کیا گیا، ان کی صوبائی صدارت پر عدم اعتماد کیا گیا۔

چنانچہ پارٹی نے وزیر اعلیٰ سے استعفی نہیں لیا، صوبائی صدر سے استعفی لیا۔

نئے صدر کی ترجیح بھی حکومت کی کارکردگی نہیں، ان کی ترجیح بھی احتجاج کی کارکردگی ہے۔ ایک امید تھی کہ شاید اب جنید اکبر احتجاج کو دیکھیں گے اور گنڈا پور سے کہا جائے گا وہ اپنی حکومت پر توجہ دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

صوابی کے جلسے میں جناب گنڈا پور وہی رجز  پڑھ رہے تھے: یا محبت ! تھُو، تھُو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبائی حکومت امور حکومت سے بے نیاز ہے۔ امن عامہ کی صورت اس کے آرام میں خلل نہیں ڈالتی۔ گڈ گورننس کا کوئی جھنجھٹ اسے پریشان نہیں کرتا۔ گندم کی مد میں حکومت 36 ارب کی مقروض ہو جائے پرواہ نہیں، اس کا بیرونی قرضہ 680 ارب ہو جائے اس کی جانے بلا، اس قرض میں صرف ایک سال میں 28 فی صد اضافہ ہو جائے وہ سکون میں ہے۔

مالی بے ضابطگیاں اربوں تک جا پہنچیں، پرواہ نہیں۔ باقیوں کا حال بھی کوئی مثالی نہیں لیکن کم از کم اتنا تو ہے کہ باقی سب سے معیشت اور گڈ گورننس کے سوالات ہوتے ہیں۔ ان سے لیکن کوئی سوال نہیں ہوتا۔ یہ بغیر کھیلے ہی ورلڈ کپ کےفاتح ہیں۔ یہ بغیر تک بندی کے ملک الشعرا ہیں۔

ان کے کارکنان بھی درویش کا تصرف ہیں، گاہے محسوس ہوتا ہے حکومت ان کے نزدیک کسی ذمہ داری کا نہیں، ہمہ وقت تفنن طبع کا نام ہے۔ یہ پنجابی فلموں کے دور عروج کا رومان ہیں۔ کوئی آئے اور  گنڈاسے کی صورت لہرائے، یہ پکارا ٹھتے ہیں: یا قربان۔ کیفیت کا موسم ان پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔

یہ خوش ہوں یا پریشان، ہر دو صورتوں میں یہ سراپا رقص ہوتے ہیں۔

ایسے کارکنان ہر ایک کو نہیں ملتے، معلوم انسانی تاریخ کا یہ حیرت کدہ ہیں جو اقتدار کا دورانیہ بھی حزب اختلاف بن کر گزار دیتے ہیں اور ان کے حلقہ ارباب ذوق میں کوئی پریشان نہیں ہوتا۔ خوش نصیبی کی ان جیسی ایک ہی مثال ہے، گرامی قدر عثمان بزدار کی، جو حیرت کی مانند آئے اور خواب کی صورت تحلیل ہو گئے۔

کسی کو کچھ خبر نہیں آج کل کہاں اور کیوں پائے جاتے ہیں۔

یہ سارا المیہ اب سیاست کا موضوع نہیں، سیاست اپنی کم مائیگی کے اعتراف میں ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ یہ سماجیات کی بحث ہے کہ کیا اب اس ملک میں کارکردگی اور گڈ گورنس کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے یا یہ ایک غیر ضروری چیز ہے اور میدان اب اسی کے نام رہے گا جو پوسٹ ٹروتھ کے ملبے کو تاج محل قرار دینے پر قدرت رکھتا ہو؟

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ