آئیے سب اکٹھے ہو جائیں، کیوں کہ ہم جدید تاریخ کی سب سے شرم ناک حلف برداری کی تقریب کا مشاہدہ کرنے والے ہیں۔ جو روگن اور لوگن پال کے ساتھ والی نشست سنبھال لیں۔ وین گریٹزکی اور ولیج پیپل کے قریب جگہ بنا لیں۔
یا پھر ایرک ٹرمپ کے پاس بیٹھ جائیں جو بس اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں آخر میں نہیں بٹھایا گیا۔
اگر آپ ایرک کی کرپٹو کے تازہ ترین منصوبے پر گفتگو (بلاک چین ہی مستقبل ہے، لوگو! لوگو؟) سننے کا ارادہ نہیں رکھتے تو شاید آپ ڈونلڈ جونیئر کے پاس بیٹھ جائیں۔
وہ بیٹا جس کے بارے میں 47ویں صدر کو شاید اس کی پیدائش سے پہلے ہی خدشہ تھا کہ وہ ناکام ہو جائے گا۔ ٹفنی حاملہ ہیں۔ (ان کے بچے کے دادا، صدر ٹرمپ کے عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر سینیئر مشیر ہوں گے۔ بہت اعلیٰ!) انہیں تنگ نہ کریں۔
وہ مزید پریشانی نہیں چاہتیں۔ بیرن بہت چھوٹے اور بہت لمبے ہیں، ان سے دور رہیں۔ ایوانکا؟ وہ اب یہاں کام نہیں کرتیں۔
ہاں، وہ کبھی اس سرکس کی رنگ ماسٹر ہوا کرتی تھیں، لیکن آج کل وہ آسکر ڈی لا رینٹا میں ایک نفیس سائیڈ شو تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، حالاں کہ باقی پوری کمپنی ابسرڈسٹ ہو چکی ہے۔ (ابسرڈزم ایک فلسفہ ہے جو انسانی زندگی میں معنی کی تلاش اور کائنات کے بظاہر بے معنی اور بے مقصد ہونے کے درمیان تصادم کا مطالعہ کرتا ہے۔)
وہ فسطائیت، ماحولیاتی تبدیلیوں سے انکار، یا تنوع، انصاف اور تمام فریقوں کی شمولیت سے متعلق اقدامات یا تارکین وطن کو پکڑنے کے چھاپوں کے بارے میں آپ کے سوالات نہیں چاہتیں۔
وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ یہ سب جس قدر جلد ممکن ہو سکے، ختم ہو جائے۔ اور میلانیا سے بات کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔
وہ اپنی بڑے ہیٹ کے نیچے سے کچھ دیکھ یا سن نہیں سکتیں اور نہ ہی وہ ایسا چاہتی ہیں۔
انہوں نے اپنے شوہر کو ہوائی بوسے کے لیے اپنا رخسار آگے بڑھایا، بغیر ہونٹ سکوڑے، حالاں کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس مقام پر ہیں۔
یہاں سب کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی نہیں، جن کے دماغ سے شرم کی چِپ تو کئی سال پہلے ہی نکل چکی۔
یقیناً ٹرمپ کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ اپنی حد سے زیادہ طویل، کم توانائی والی تقریر اور اپنی صاف طور پر خوف ناک سرکاری تصویر پر۔
درحقیقت جب وہ کھڑے ہو کر اسے ’آزادی کا دن‘ قرار دے رہے تھے، بغیر کسی جوش و جذبے کے، چہرے پر مکمل طور پر تیوریاں ڈالے، تو مجھے (ایک لمحے کے لیے) لگا کہ شاید وہ واقعی شرمندہ ہیں۔
جو بائیڈن کو بھی شرمندہ ہونا چاہیے۔ میں اتنا سخت نہیں بنوں گا جتنا ان کے خلاف بدترین میمز ہیں اور یہ نہیں کہوں گا کہ ہمارے ’میک اے وش‘ سابق صدر ان تمام باتوں کے ذمہ دار ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ’چلو پرانے دنوں کی بات کرتے ہیں‘ کی حکمت عملی 2024 میں واقعی بری طرح ناکام رہی، ہے نا؟
اس میں کچھ بنیادی طور پر انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ آپ لیموزین میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کی دوسری حلف برداری کے لیے سفر کر رہے ہوں۔
چند مہینے پہلے اس شخص کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دینے کے بعد اور ساتھ ہی اپنے خاندان کے پانچ ارکان کو عام معافی دے رہے ہوں۔ ہونہہ!
ایمی کلوبوشار کو بھی شرمندہ ہونا چاہیے۔ یہ ان کی غلطی نہیں، لیکن انہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی اس دن ’ہمارے عظیم امریکی تجربے‘ کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے شرمندہ ہو سکتا ہے جب ٹرمپ کی مہم یہ اعلان کرے کہ وہ پیدائش کی صورت میں ملنے والے شہریت کے حق کو ختم کرنے کے لیے صدارتی حکم نامہ جاری کرنے کی کوشش کریں گے۔
پیدائشی شہریت تو اسی ’عظیم امریکی تجربے‘ کی بنیاد تھی جس کے تحت کوئی بھی شخص جو اس ملک میں قدم جما سکے، اسے رہنے کی اجازت دیتی تھی۔
پناہ گزین کا درجہ، جسے معطل کرنے کا بھی اعلان کیا جا رہا ہے۔ بھی کافی اہم تھا (یاد ہے وہ جملہ کہ ’مجھے اپنے تھکے ہوئے، اپنے غریب، اپنے جھرمٹ میں سمٹے ہوئے، جو آزادی کی سانس لینے کو ترستے ہیں، دو؟‘ ہیں؟ اب بھول جاؤ۔)
یہ بنیادی طور پر شرم ناک ہے کہ صدر کی پہلی ترجیحات میں سے ایک یہ ہے کہ خلیج میکسیکو کا نام بدل کر ’گلف آف امریکہ‘ رکھا جائے، سرکاری سطح پر تنوع کی تربیت ختم کی جائے، اور یہ وضاحت کی جائے کہ حیاتیاتی طور پر انسان کی صرف دو اصناف ہیں۔
ایک ایسا شخص ہونے کے ناتے جس نے کل وال مارٹ سے آدھے پِنٹ دودھ کے لیے 12 ڈالر ادا کیے، میں اس قسم کی ثقافتی جنگوں سے زیادہ کی توقع کرتی ہوں۔
چاہے آپ پورے میکسیکو کو ’چھوٹا ٹرمپ ویل‘ کہنا شروع کر دیں، امریکہ کے اندر یا میکسیکو میں شاید ہی کسی کو پروا ہو۔
یہ حقیقت کہ صدر کو ان چیزوں کی اتنی فکر ہو کہ وہ اپنے عہدے کے پہلے ہی دن ان پر انتظامی حکم جاری کرے، پورے ملک کے لیے انتہائی شرم ناک ہے۔
ایلون مسک، معاف کیجیے گا۔ فرسٹ بڈی، کو یقیناً شرمندہ ہونا چاہیے۔ انہیں اس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ ان کا وائٹ ہاؤس کمپلیکس میں دفتر ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اتنے غیر سنجیدہ ہیں کہ انہوں نے ایک حکومتی منصوبے کا نام ڈوج (DOGE) رکھ دیا۔
انہیں اس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ قابلیت میں کم اور معاوضے میں زیادہ ہیں۔ انہیں اس بات پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک امریکہ میں تارک وطن ہیں اور اسی دوران ملک میں تارکین وطن پر چھاپوں جن کی مثال نہیں ملتی، اور کریک ڈاؤن کا دور شروع کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ شاید شرمندہ نہ ہوں، لیکن انہیں ہونا چاہیے۔ اس بات پر پہلے ہی بہت بات ہو چکی کہ انقلاب اب تاریخ کے سب سے بڑے ناکام افراد کی قیادت میں ہے۔
ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ امریکی کاروباروں کو زیادہ ’مردانہ توانائی‘ کی ضرورت ہے اور یہ کہ جنگلات میں آگ اس لیے لگتی ہے کیوں کہ آگ بجھانے والے عملے کے لوگوں میں ہم جنس پرست خواتین شامل ہیں۔
اور اب ٹرمپ کی حلف برداری کے موقعے پر تقریر اور اس تکلیف دہ، تکلیف دہ اختتام ہفتہ کے بعد، جو انتہائی دائیں بازو کے جشن حلف برداری کی خود ستائشی پر مبنی تقاریب سے بھرا ہوا تھا، ہمیں بخوبی معلوم ہو گیا ہے کہ یہ انقلاب کیسا نظر آئے گا۔
’ڈرِل، بے بی، ڈرِل!‘ الاسکا میں۔ (قدرتی وسائل بے دریغ نکالنے کے حق میں نعرہ)
’ہمارے شہروں میں امن وامان کی بحالی!‘
عوامی زندگی سے ’نسل اور جنس‘ کو نکالنا (اب خواتین، آپ صرف اپنی نجی زندگی میں سیاہ فام خاتون ہو سکتی ہیں!)۔
فوج کو ’امریکہ کے دشمنوں کو شکست دینے‘ پر واپس لے جانا، بجائے اس کے کہ وہ جو بھی کچھ اور کر رہی تھی جو کچھ خواجہ سرا افراد سے متعلق تھا!’پوری دنیا کے لیے حیرت اور تعریف کا مرکز بننا‘
’بائیڈن کی موسمیاتی انتہا پسند پالیسیوں کا خاتمہ۔ (تحفظ ماحول کے لیے پیرس معاہدہ؟ اس کی کسے ضرورت ہے؟)
اور ویسے اہم امریکی مقامات کو ’اس طرح کا نام دیا جائے گا کہ وہ ہماری قومی تاریخ کو درست انداز میں عزت دیں‘
مجھے نہیں معلوم کہ وہ لوگ جنہوں نے ٹرمپ کو معیشت کی فکر میں ووٹ دیا، خاص طور پر اس لیے کہ ان کے پاس اپنے خاندانوں کے لیے پیسے نہیں تھے، کیا وہ واقعی امریکی مقامات کے نام تبدیل کر کے انہیں کسی انتہائی دائیں بازو کے تصور کے مطابق ڈھالنے کو اتنی اہم ترجیح سمجھتے ہیں؟ لیکن ہاں، یہی ہونے جا رہا ہے۔
کتنا بے معنی۔ کتنا مایوس کن۔ اور ہم سب کے لیے کتنا شرم ناک۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent