ہم انڈین ریاست منی پور کے دارالحکومت امپھال واپس جا رہے تھے کہ پائپ اور اینٹوں سے لیس لوگوں کے ایک بڑے گروہ نے باہر نکل کر سڑک کو بند کر دیا۔ ہجوم نے اس وقت تک ہمیں جانے نہیں دیا جب تک انہیں یقین نہیں ہوگیا کہ ہم ان کے دشمن نہیں۔
ڈھائی ماہ پہلے یہاں اچانک نسلی تشدد پھوٹنے سے قبل کوکی برادری، اکثریت رکھنے والے میتی لوگوں کے ساتھ دہائیوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہی تھی۔
انڈیا کے شمال مشرقی کونے میں دہلی سے 15 سو اور میانمار کی سرحد سے 70 میل دور واقع یہ ریاست چند ہی دنوں میں دونوں برادریوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں تقسیم ہو گئی، جہاں ہر برادری کے مردوں نے ہتھیار اٹھا کر نجی ملیشیا بنالی، اہم سڑکوں پر خندقیں کھودیں اور چوکیاں اور بنکرز بنا کر مسلح گشت کرتے رہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لڑائی میں اب تک کم از کم 142 افراد مارے جاچکے ہیں اور اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس دوران مکانوں اور عبادت گاہوں کو آگ لگا دی گئی۔ اس سارے معاملے کی صحیح صورت حال کی تصدیق کرنا مشکل ہے، کیونکہ انڈین حکومت نے غیرملکی میڈیا کو اس علاقے میں جانے سے روک دیا ہے اور جزوی طور پر انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے معلومات تک رسائی بھی محدود ہے۔
حکومت نے نظم و نسق کو بحال کرنے کی کوشش کے لیے انڈین فوج اور نیم فوجی دستوں آسام رائفلز کے تقریباً 10 ہزار اضافی فوجی تعینات کیے، لیکن وہ 40 ہزار سے زیادہ لوگوں کی نقل مکانی روکنے میں ناکام رہے۔ یہ لوگ اب تقریباً 350 ریلیف کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔
تشدد کے دوران جن ہولناکیوں کے بارے میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا گیا، وہ درج ذیل ہیں:
انٹرنیٹ کی عدم دستیابی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ دو کوکی خواتین کو برہنہ حالت میں سڑکوں پر گھمانے کی ایک تکلیف دہ ویڈیو منظر عام پر آنے میں دو مہینے کا وقت کیوں لگا۔
اس سے مختلف سیاسی حلقوں میں قومی سطح پرغم و غصہ پیدا ہوا، جس نے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر کنٹرول ریاست میں پیدا ہونے والے بحران پر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کیا۔
حزب اختلاف کی جماعتیں اب پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کے پاس واضح اکثریت ہے، اس لیے تحریک ناکام ہو جائے گی، لیکن اس کا مقصد منی پور میں تشدد کے متعلق بحث کو یقینی بنانا ہے۔
منی پور تشدد پر راہل گاندھی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’یہ ایک خوفناک سانحہ ہے۔‘
یہ جھڑپیں سب سے پہلے اس وقت شروع ہوئیں، جب کوکی سمیت متعدد پہاڑی قبائل کے ارکان نے، جنہیں اقلیت ہونے کی حیثیت سے ایک تحفظ حاصل ہے، میتی برادری کو یہ درجہ دینے کے منصوبے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ منی پور کی تقریباً 53 فیصد آبادی میتی برادری پر مشتمل ہے۔
یہ درجہ ملنے سے میتی برادری کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں وہی فوائد اور کوٹہ مل جاتا، جو اقلیتی قبائل کو ملتا ہے۔
کوکیوں کے مظاہروں کے نتیجے میں مئی کے اوائل میں امپھال سے تقریباً 40 میل (63 کلومیٹر) دور ضلع چورا چند پور کے گاؤں میں جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد تشدد کی ایسی لہر پوری ریاست میں پھیل گئی، جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ایک 24 سالہ میتی شخص ہوبیجم سومن کمار نے کوکیوں کے خلاف لڑنے کے لیے نو تشکیل شدہ ’فرنٹ لائن‘ میں جانے کے لیے اپنی ماں سے اجازت مانگی۔ انہوں نے یہ فیصلہ اس وقت کیا، جب یہ سنا کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے گاؤں میں سے ایک میں ان کی بہن کا گھر ہے۔
ان کی ماں 42 سالہ ماں ہوبیجم اومبی اچاٹومبی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ ان کے پاس یہ کہتے ہوئے آئے: ’کوکی گاؤں پر حملہ کر رہے ہیں۔ میں جانا چاہتا ہوں۔‘
انہوں نے اسے خیریت کی دعا دیتے ہوئے جانے دیا کہ ’کسی کو تو مادروطن کی حفاظت کرنی ہوگی۔‘
یہ آخری بار تھا جب انہوں نے اسے زندہ دیکھا تھا۔ سومن کمار کھمینلوک گاؤں چلے گئے، جہاں 13 جون کو وہ دیگر نو میتی کوکی جنگجوؤں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔
ان کے چھوٹے بھائی ہوبیجم سورج کمار نے اس رات کو یاد کرتے ہوئے بتایا: ’چونکہ ان کے پاس خوراک ختم تھی تو انہوں نے ہمیں ملنے اور کھانے پینے کے لیے اضافی سامان لانے کا کہا تھا۔
’میں اور میری ماں سامان چھوڑنے اور انہیں واپس لانے کے لیے ایک ساتھ گئے تھے، کیوں کہ وہاں گولہ باری تیز ہو گئی تھی اور ہم فکرمند تھے، لیکن جب ہم وہاں پہنچے، تو ہم ان سے فون پر رابطہ نہیں کر سکے۔ گاؤں کی سرحد پر بم حملے ہو رہے تھے، جب ہم دوسری طرف انتظار کر رہے تھے کہ جلد ہی زخمی ہونے والے پہلے شخص کو ایمبولینس لے گئی۔‘
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سومن کمار کو رات نو بجے سے صبح تین بجے تک تلاش کیا۔
سورج کمار کے مطابق: ’میں نے جاکر مردہ خانہ دیکھا، ہسپتال سے رابطہ کیا، لیکن کوئی بھی اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔‘
ان کی ماں کھمینلوک (گاؤں) میں اس امید کے ساتھ انتظار کر رہی تھیں کہ سومن کمار واپس آئیں گے تو وہ وہیں موجود رہیں۔
والدہ کے مطابق: ’اچانک میرے بیٹے کے نمبر سے ایک فون کال آئی۔ جب میں نے اٹھائی تو دوسری طرف سے کسی نے پوچھا کہ یہ آپ بیٹے کا فون ہے؟‘
حیران ہوکر انہوں نے اپنے بڑے بیٹے کا ٹھکانہ پوچھا۔
اومبی اچاتومبی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتایا: ’میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اسے قتل نہ کریں، لیکن انہوں نے کہا کہ ہم نے (پہلے ہی) ایسا کر دیا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت گولی لگنے سے نہیں بلکہ تشدد سے ہوئی ہے۔
اومبی اچاتومبی واحد نہیں تھیں، جنہیں اس رات سومن کمار کے قاتلوں کا فون آیا۔ ان کی بیوی کو، جو امپھال میں ہی رکی ہوئی تھیں، کو بھی اسی طرح کی کال موصول ہوئی۔
پانچ برس کے بیٹے کو گود میں اٹھائے ہوئے 26 سالہ خاتون نے بتایا: ’انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں بیوی ہوں یا ماں؟ میں نے کہا کہ میں ان کی بیوی ہوں۔
’جب میں نے ان سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کی درخواست کرنی شروع کی، تو انہوں نے کہا: ’فکر نہ کریں، آپ کی دیکھ بھال کے لیے ہم ہیں۔‘
ان کی ماں نے بتایا: ’کوکی عسکریت پسند نے جواب دیا: 'ہم نے اسے اوپر (خدا کے پاس) بھیج دیا ہے۔‘
حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست کی تقسیم سے پہلے منی پور میں امن بحال کیا جائے۔
کچھ کوکی رہنماؤں نے اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوکیوں کو امپھال وادی سے باہر نکالا جارہا ہے اور میتیوں نے ’ان کی کالونیوں، بستیوں اور گرجا گھروں کو جلا دیا ہے۔‘
وزیر داخلہ امت شاہ نے، جو مودی کے سب سے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے ایک ہیں، مئی کے آخر میں منی پور کا دورہ کیا تھا تاکہ سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لیا جا سکے، لیکن اس کے بعد سے وہ دوبارہ نہیں گئے۔
انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے میں انڈیا کے دنیا میں دوسرے نمبر پر آنے پر ہونے والی تنقید کے دوران، براڈ بینڈ کنکشن اس ہفتے بحال کر دیے گئے تھے، لیکن منی پور میں موبائل ڈیٹا ابھی بھی بند ہے۔
منی پور میں مختصر فاصلے تک سفر کرنا اب ایک چیلنج بن چکا ہے، جہاں گاؤں اور قصبوں کا کنٹرول دونوں گروہوں کے درمیان تقسیم ہے اور ہر فریق کی اپنی سرحدیں ہیں، جو بفر زون سے الگ ہیں۔
پہاڑیوں اور امپھال وادی کو ملانے والی سڑکوں پر باقاعدہ رکاوٹیں اور دونوں طرف مسلح ملیشیا کی چیک پوسٹیں لگی ہوئی ہیں، ساتھ ہی سکیورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے ذریعے چلائی جانے والی چیک پوسٹیں بھی ہیں، جو صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
میتی اکثریت والے ریاستی دارالحکومت امپھال سے براستہ بشنو پور 63 کلومیٹر کے فاصلے پر کوکی اکثریتی علاقے چوراچند پور جائیں تو اس طرح کی کئی رکاوٹیں آئیں گی جو خاردار تاروں، بڑے پائپوں اور مٹی کے ڈھیروں سے بنی ہیں۔
جلی ہوئی گاڑیوں، ملبے اور جلے ہوئے مکانات کی باقیات سے بھری سڑکیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ یہ تنازع کتنی تیزی سے اور کس حد تک پھیل چکا ہے۔
بندوقوں اور ڈبل بیرل والی شاٹ گنوں سے لیس گاؤں والے چورا چند پور شہر کی نام نہاد سرحد پر تیار کھڑے ہیں، جہاں سے یہ بحران شروع ہوا تھا اور ریت سے بنے اپنے بنکروں کے پیچھے سے آنے والی ہر گاڑی کو دیکھتے ہیں۔
’ڈیوٹی پر موجود‘ شہریوں سے کہا گہا ہے کہ وہ دستاویزات کی جانچ پڑتال کریں اور ہر سیاح کی شناخت اور پس منظر کے ساتھ ساتھ ان کے دورے کے مقصد کے بارے میں سوالات پوچھیں اور بعد میں انہیں ’اپنے علاقے‘ میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔
اگرچہ باہر سے آنے والے لوگوں کو عام طور پر خطرہ نہیں، لیکن کوکی یا میتی برادریوں کے لوگ مخالفین کے زیر کنٹرول علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے اور جانتے ہیں کہ اگر وہ کوشش کریں گے تو وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالیں گے۔
میتیوں کا خیال تھا کہ فوج ان کے علاقے سے دو کوکی خواتین کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس واقعے کے نتیجے میں مشتعل مظاہرین کی تعداد میں اضافے کے بعد کئی گھنٹوں تک کشیدگی جاری رہی۔
آخر کار فوج کی جانب سے کمک طلب کی گئی اور ٹرک وہاں سے نکالنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی گئی۔
امپھال اور چوراچند پور کو براہ راست ملانے والی سڑک کو بند کرنے کے مقام پر جمع ہونے والے میتی مردوں میں سے ایک ایل پریو کمار سنگھ نے کہا: ’فوج نے کوکی خواتین کو مکمل کیموفلاج لباس پہنایا ہوا تھا اور وہ ان کی حفاظت کے لیے انہیں لے جا رہی تھی لیکن انہوں نے انہیں کیموفلاج کیوں پہنایا؟
’اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہم شناخت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور جب ہم نے ان سے اپنا شناختی کارڈ دکھانے کو کہا، تو وہ (اسے) نہیں دیکھا سکے۔‘
یہاں تک کہ مسلح افواج بھی آزادانہ طور پر نقل و حرکت نہیں کر سکتیں۔ امپھال واپس جاتے ہوئے ہمیں نیچے اتارنے کا واقعہ اس وقت پیش آیا، جب مقامی لوگوں نے دیکھا کہ کیموفلاج میں ملبوس دو خواتین کو اندر چھپا کر لے جایا جا رہا ہے تو بشنوپور کے علاقے نامبول میں انڈین فوج کے ایک ٹرک کو ہزاروں میتیوں کے ایک گروپ نے روک لیا۔
دی انڈپینڈنٹ نے اس واقعے کے پیش نظر امپھال پولیس سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا کسی ایسے شخص کے خلاف کارروائی کی جائے گی جس پر سکیورٹی فورسز کے ارکان کو ان کے فرائض کی انجام دہی سے روکنے کا شبہ ہو۔
ہمیں بتایا گیا کہ پولیس عہدیداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ میڈیا کے ساتھ مخصوص واقعات پر تبادلہ خیال نہ کریں۔
ایک سینیئر افسر نے مزید معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا: ’ہم اس طرح کے تمام واقعات میں شکایات درج کرتے ہیں۔‘
سومن کمار کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ امن برقرار رکھنے کے لیے سکیورٹی فورسز پر اعتماد کی کمی کے باعث سومن کمار کو کھمینلوک جانا پڑا اور دونوں طرف کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اسی وجہ سے اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔
سومن کمار کی طرح ڈیوڈ تھیک بھی میتیوں کی جانب سے آتش زنی کی اطلاعات کے باعث سرحد کی حفاظت کے لیے اپنے کوکی اکثریتی آبائی شہر لانگزا گئے تھے۔
یکم جولائی کی رات ڈیوڈ اور ان کے ساتھ موجود کئی دیگر کوکیوں کو اطلاع ملی کہ میتیوں کا ایک بڑا گروہ آ رہا ہے۔ ان کے 31 سالہ بھائی ابراہام تھیک کا کہنا تھا کہ ’ڈیوڈ اس رات وہاں پھنس گئے اور فرار نہیں ہو سکے۔‘
ڈیوڈ نے اس خطرے کے باعث وہیں رہنے اور صبح جانے کا فیصلہ کیا کہ کہیں وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ جائیں۔ اس فیصلے کی وجہ سے وہ مارے گئے۔
اہل خانہ کو آخری بار صبح چار بج کر 47 منٹ پران کا فون آیا تھا، جب انہوں نے میتی حملے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ ابراہام نے بتایا کہ اس کے بعد ان سے رابطہ نہیں ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگلی صبح ابراہام کو ان کے ہمسایوں کی فون کالیں موصول ہوئیں، جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ڈیوڈ کا سر قلم کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس کے بعد ابراہام کو سر قلم کیے جانے کی ایک ویڈیو بھیجی گئی، جس سے ان کے بدترین خوف کی تصدیق ہوئی۔
کوئی نہیں جانتا کہ انہیں کیسے پکڑا گیا۔ ’گاؤں میں میرے پڑوسیوں نے ہمیں بلایا اور کہا کہ یہ ڈیوڈ تھا۔‘
اہل خانہ ان کی لاش لینے کے لیے گاؤں گئے، لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں صرف ان کی جلی ہوئی باقیات ملیں۔
’انہوں نے لاش اور سر کو جلا دیا تھا۔ جو کچھ بچا تھا وہ ان کی جلی ہوئی ہڈیاں تھیں۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی ایسا کچھ ہوگا۔ اگر وہ انہیں اذیت دینے کی بجائے گولی مار کر قتل کر دیتے تو اچھا تھا، مجھے تکلیف ہے، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔‘
جیسے جیسے اس طرح کے وحشیانہ تشدد کی خبریں پھیل رہی ہیں، دونوں برادریوں کے نوجوان حملوں کا بہتر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے آتشیں اسلحے کے استعمال کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
امپھال سے 18 کلومیٹر دور واقع کڈانگ بند میں، جہاں سے پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں، 52 سالہ ریٹائرڈ کانسٹیبل این بوبی سنگھ گاؤں کے نوجوانوں کو متحرک اور تربیت دے رہے ہیں اور بھرتی ہونے والوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے سنگڈا گاؤں کی ’حفاظت‘ کریں۔
وہ بتاتے ہیں کہ گاؤں کے 165 مکانات کے 96 مرد ان کے ماتحت تربیت حاصل کر رہے ہیں، جو ہر روز 20 منٹ کے وقفے سے تین گروپوں میں آتے ہیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں انہیں سکھاتا ہوں کہ ہتھیار کیسے سنبھالنا ہے، جب وہ دشمن کو دوسری طرف دیکھتے ہیں تو کب اور کیسے فائرنگ کرنی ہے، جانی نقصان سے بچنے کے لیے انہیں کیا پوزیشن لینی چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے: ’مجھے انہیں یہ سکھانا پڑا کہ ہر کسی کو ایک ہدف پر گولی نہیں چلانی چاہیے یا جب دوسرا فریق جواب نہ دے رہا ہو، تو لگاتار گولی نہ چلائیں، کیوں کہ اس سے گولہ بارود ضائع ہوگا۔‘
سنگھ کہتے ہیں: ’ہمارے اور ان کے (کوکی) گاؤں کے درمیان فاصلہ صرف 30 فٹ ہے۔ یہ سب سے قریبی علاقوں میں سے ایک ہے اور فائرنگ دن اور رات کے دوران کسی بھی وقت ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’گاؤں کے مرد باری باری بنکر میں رہتے ہیں تاکہ علاقے اپنے زیر قبضہ رکھ سکیں۔ ہم نے ذمہ داریوں کو عمر کے حساب سے تقسیم کیا ہے۔ اس لیے 18 سے 45 سال کی عمر کے لوگ فرنٹ لائن پر ہیں اور 45 سے 55 سال کی عمر کے لوگ گشت کی ڈیوٹی کرتے ہیں۔‘
ہتھیاروں کے ذرائع کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کے زیراستعمال تمام بندوقیں لائسنس یافتہ ہیں اور وہ گذشتہ چھ برسوں سے یہ لے رہے ہیں۔
’ہمیں یہ اپنے دفاع کے لیے چاہییں۔ ہم ایک کمیٹی ڈال کر یہ خرید رہے ہیں، جس میں ہتھیار حاصل کرنے میں دلچسپی رکھنے والے تمام لوگ ماہانہ بنیاد پر تقریباً 500 روپے سے 800 روپے کا حصہ ڈالتے ہیں۔‘
تاہم سابق ملازم کو ہتھیاروں کے معیار اور گولہ بارود کی کمی پر افسوس ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ہم بنیادی طور پر زراعت سے وابستہ ہیں، لہذا ہر کسی کے پاس آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ نہیں ہے، اس لیے ہمارا انحصار پینشن لینے اور کل وقتی نوکریاں کرنے والوں کے تعاون پر ہے، کیوں کہ تنازع کی وجہ سے کھیتی باڑی اور دیگر کاروبار بند ہیں۔‘
چیف منسٹر این بیرین سنگھ کی قیادت میں منی پور نے گذشتہ سات برسوں میں دوسری ریاست کے مقابلے میں سب سے زیادہ اسلحہ لائسنس فراہم کیے ہیں۔
انڈین ویب سائٹ ’دی وائر‘ کی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2016 میں ریاست کے پاس 26 ہزار 836 بندوق لائسنس تھے، جو مارچ 2017 میں این بیرین سنگھ کے اقتدار میں آنے کے بعد آٹھ ہزار اضافے کے ساتھ 35 ہزار 117 ہوگئے ہیں۔
کڈانگ بند کے علاقے میں عوام کے پیسوں سے ہتھیار خریدنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے 28 مئی کو امپھال میں پولیس کے اسلحہ خانوں سے تین ہزار سے زیادہ ہتھیار لوٹ لیے گئے تھے، جس کے بعد وزیراعلیٰ نے لوگوں سے ہتھیار واپس کرنے کی اپیل کی تھی۔
وزیراعظم نریندر مودی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ نے جون میں ایک بیان میں کہا تھا: ’میں مسلح میتی لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کسی بھی چیز پر حملہ نہ کریں اور امن اور ہم آہنگی برقرار رکھیں تاکہ ہم ریاست منی پور میں معمول کی صورت حال کو بحال کر سکیں۔‘
نیوز پلیٹ فارم ’ایسٹ موجو‘ کے مطابق درمیانی مشین گنیں اور اے کے 47 اسالٹ رائفلیں، کاربن، انساس لائٹ مشین گنز، انساس رائفلز، ایم 16 اور ایم پی فائیو رائفلز چوری کی گئیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریباً چار ہزار 537 بندوقیں اور گولہ بارود کے ہزاروں راؤنڈز چوری ہوئے ہیں۔
کڈنگ بند میں ’فرنٹ لائن‘ بنکرز انڈین مسلح افواج کے بنکروں سے 500 میٹر سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ نے ریت کے بنے ہوئے ایسے کم از کم تین بنکر دیکھے جو پانچ فٹ گہری کھائی کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے تھے، سنگھ بتاتے ہیں کہ انہیں آدمی رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’آپ دیکھیں، ہم نسبتاً نقصان میں ہیں کیونکہ گولہ باری زیادہ اونچائی سے ہوتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فائرنگ مختلف سمتوں سے آسکتی ہے اور بنکر میں موجود مردوں کو کبھی کبھی بیک اپ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
بنکر میں شفٹ پر موجود 47 سالہ سندیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ماہ پہلے ہی بندوق چلانا سیکھی تھی۔
انہوں نے کہا: ’میں نے ابھی تک بندوق سے گولی نہیں چلائی۔ مجھے کبھی کبھی ڈر لگتا ہے، بالخصوص جب دوسری طرف عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت ہو۔‘
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ گولی چلانے سے ڈرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ’یہ میری زمین ہے۔ یہ میرا گاؤں ہے۔ مجھے اس کی حفاظت کرنی ہے۔‘
© The Independent