انڈیا کی شمالی مشرقی ریاست منی پور میں تشدد کے واقعے کے بعد پیر کو ریاستی وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں بتایا کہ 40 عسکریت پسند باغیوں کو مار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب ’کوکی نیشنل آرگنائزیشن‘ نامی مقامی تنظیم نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ’کوکی لینڈ‘ نامی خطے کا مطالبہ انڈیا، میانمار اور بنگلہ دیش کے ان علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جہاں ’کوکی زومی‘ قبائل آباد ہیں۔
منی پور میں لڑائی کی تاریخ
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق منی پورکو انڈیا میں قدیم ترین باغی تحریکوں کا سامنا رہا ہے۔
1950 کی دہائی میں ناگا قومی تحریک اور ریاستی آزادی کی لڑائی منی پور تک پھیل چکی تھی۔
نیشنل سوشلسٹ کونسل۔ آئی ایم (این ایس سی این۔ آئی ایم) نے 1997 میں انڈین حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ جس وقت یہ تحریک چل رہی تھی منی پور میں نسلی گروہ میتی بھی منی پوری بادشاہ مہاراجہ بودھا چندر اور انڈین حکومت کے درمیان ریاست کے انضمام کے معاہدے کی مخالفت کر رہا تھا۔
1964 میں یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ (یو این ایل ایف) کا قیام عمل میں آیا جس نے انڈیا سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد متعدد میتی باغی گروہ، یا وادی کے دوسرے باغی گروہس وجود میں آئے جن میں پیپلز ریولیوشنری پارٹی آف کنگلی پک (پی آر ای پی اے کے) اور پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) شامل ہیں جنہوں نے چین سے اسلحہ اور تربیت حاصل کی۔ وادی کے یہ گروہ دوہرے مقصد کے ساتھ کام کرتے تھے یعنی انڈیا سے آزادی اور ناگا باغی گروہوں کو روکنا۔
کوکی زومی گروہس درحقیقت کوکی گروہ کے خلاف ناگا جارحیت کا ردعمل تھے۔ 1993میں این ایس سی این۔ آئی ایم کی طرف سے کوکیوں کے قتل عام نے ہزاروں کوکیوں کو بے گھر کر دیا۔ کوکی زومی قبائل نے اس کے بعد مختلف مسلح گروہوں کو منظم کیا۔
تقریباً ایک ہی وقت میں اسی طرح کی جھڑپیں میتیوں اور میتی پنگلوں (مسلمانوں) کے درمیان ہو رہی تھیں۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ اسلام پسند گروہ پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ کی تشکیل ہوئی۔ یہ گروہ اب خطے میں سرگرم نہیں ہیں۔
حکومت کا ردعمل
انڈیا کی حکومت نے ناگا علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کے رد عمل میں 1958 میں آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ نافذ کیا۔ ابتدائی طور پر اسے ناگالینڈ اور منی پور کے کچھ حصوں میں نافذ کیا گیا۔ وادی میں تحریک کی بڑھتی سرگرمیوں کے پیش نظر اس ایکٹ دائرہ ریاست تک بڑھا دیا گیا۔
1980 کی دہائی میں منی پور کو شورش زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد سے امن مذاکرات کے مختلف ادوار کے نتیجے میں 2008 میں مرکز، ریاست اور کوکی زومی گروہوں کے درمیان آپریشن روکنے کا سہ فریقی معاہدہ ہو گیا۔
صورت حال میں بہتری کے بعد فوج کے خصوصی اختیارات کا ایکٹ منسوخ کر دیا گیا تاہم وادی کے باغی گروہ مرکزی حکومت کے ساتھ معاہدے میں شامل نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے امن کے لیے ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا۔ اس طرح تکنیکی اعتبار سے وہ اب بھی سرگرم ہیں۔
کوکی زومی باغی گروہ
کوکی زومی تحریک دوسرے گروہوں کی جارحیت کے خلاف دفاع کے طور پر شروع ہوئی، لیکن جلد ہی کولی لینڈ کے قیام کے مطالبے میں تبدیل ہو گئی۔ کوکی لینڈ ایک فرضی ملک ہے جو انڈیا، میانمار اور بنگلہ دیش کے ان علاقوں تک پھیلا ہوا ہے جہاں کوکی زومی آباد ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علیحدہ ریاست صرف قیام کے مطالبے تک رہ گئی۔
منی پور میں سب سے زیادہ باغی گروہ چوراچند پور ضلع میں ہیں جن میں 24 گروہ فعال ہیں۔
علاقے کے بنیادی گروہوں میں کوکی نیشنل آرگنائزیشن اور اس کے مسلح ونگ کوکی ریولوشنری آرمی، زومی ری یونیفیکیشن آرگنائزیشن، زومی ریوولیوشنری آرمی، کوکی نیشنل فرنٹ، کوکی نیشنل لبریشن فرنٹ، یونائیٹڈ کوکی لبریشن فرنٹ اور کوکی نیشنل آرمی شامل ہیں۔
غالب گروہ
وادی کے باغی گروہوں میں سے یو این ایل ایف جسے تمام میتی باغی گروہوں کی ماں سمجھا جاتا ہے، آج کل سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔
وادی کے گروہوں نے سکیورٹی فورسز کے خلاف وقفے وقفے سے گھات لگا کر حملے کیے اور دیسی ساختہ بم نصب کیے۔ مانا جاتا ہے کہ یو این ایل ایف نے ابتدائی تربیت این ایس سی این۔ آئی ایم سے لی۔
باغی گروہ اور سیاست
باغی گروہ منی پور میں پیچیدہ طریقے سے اپنی بقا جاری رکھتے ہیں۔
خود ارادیت کے بلند اہداف سے ان کا کردار گذشتہ برسوں کے دوران عسکریت پسندی تک محدود ہو گیا ہے اور ان کی خدمات عام طور پر ڈرانے دھمکانے کے لیے حاصل کی جاتی ہیں۔
وادی کے گروہوں، خاص طور پر یو این ایل ایف، نے وقتاً فوقتاً 15 اگست یا 26 جنوری کی طرح ہڑتالوں کی کال دی ہے۔ میتی گروہوں نے ہندی فلموں پر پابندی جیسے ’ضوابط ‘ کے ذریعے وادی کے اخلاقی ضابطوں کو پختہ کیا۔ موسیقی، انڈین لباس اور شراب پر پابندی لگا دی گئی۔ باغی گروہوں نے لوگوں پر ٹیکس بھی لگا رکھے ہیں۔
آج ریاست کی سیاسی زندگی میں یہ گروہ سب سے زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کےامیدوار پارٹی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باغیوں کی پشت پناہی کے ساتھ انتخابات میں کھڑے ہوتے ہیں۔ باغی گروہ ووٹروں کو حکم دیتے ہیں کہ کون سے امیدوار کو جتوانا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویب سائٹ ایچ آر ڈبلیو ڈاٹ او آر جی کے مطابق انڈیا کا شمال مشرقی حصہ مغربی بنگال کی ریاست کے پہاڑی اضلاع کے ذریعے ایک تنگ راہداری کے ذریعے ملک کے باقی حصوں سے منسلک ہے۔ بھوٹان، بنگلہ دیش، برما اور چین کے تبتی علاقوں میں گھرا یہ علاقہ سٹریٹیجک اعتبار سے حساس ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں فوج طویل عرصے سے یہاں تعینات ہے۔
سمندر سے محروم یہ خطہ کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں وسیع پیمانے پر بدعنوانی ہوتی ہے۔ یکے بہ دیگرے بدلنے والی حکومتیں علاقے کی اقتصادی ترقی میں ناکام رہیں۔
ان حالات میں ناگا قبائل کے علیحدگی پسند مسلح گروہوں نے سب سے پہلے 1950 کے وسط میں انڈیا کے ساتھ انضمام کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ منی پور 1891 میں برطانیہ کے ہاتھوں شکست تک ایک آزاد مملکت تھی۔ منی پور کا رسمی طور پر 15 اکتوبر 1949 کو انڈیا کے ساتھ الحاق ہوا۔ ریاست میں بہت باشندوں کا ماننا ہے کہ 1949 میں ان کے حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کی گئی۔
منی پور میں جو کچھ ہوا وہ حقوق سے انکار تھا۔ لوگوں نے وہ حقوق اور سہولتیں چھیننے کی کوشش کی جو ان کے باپ دادا نے ان کے لیے چھوڑی تھیں۔ حقوق لینے کے لیے اگر آپ کے پاس بندوقیں ہیں تو آپ انہیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس چاقو ہیں تو آپ چاقو استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس صرف ایک بیلچہ ہے تو آپ وہی استعمال کریں گے۔
لوگ رات کو سو نہیں سکتے کیوں کہ وہ دروازے پر دستک سے ڈرتے ہیں۔ سب ذمہ دار ہیں صرف فوج نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ماؤں سے بیٹے چھین لیتے ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے۔