مجھے پتہ نہیں تھا آس پاس فسادات ہو رہے ہیں: منی پور کی متاثرہ خاتون

انڈین ریاست منی پور میں مئی سے جاری فسادات میں دو برادریاں ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہی ہیں۔

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں پرتشدد نسلی فسادات کا سلسلہ جاری ہے، جن میں اب تک درجنوں اموات اور ہزاروں افراد کے بے گھر ہونے کی اطلاعات ہیں۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق منی پور میں مئی کے اوائل میں نسلی گروہوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بعد سے کم از کم 80 اموات اور 40 ہزار سے زیادہ لوگ گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔

منی پور میں فسادات کی وجہ اقلیتی برادری ’کوکی‘ اور اکثریتی برادری ’میتی‘ کے درمیان اختلاف ہیں، جو بڑھتے بڑھتے اس حد تک خونی ہوئے کہ پوری ریاست میں قتل و غارت گری جاری ہے۔

انڈین آرمی کے مورچے سنبھال کے باوجود جھڑپیں اور قتل و غارت اور آگ لگانے کے واقعات اب بھی سامنے آ رہے ہیں۔

کوکی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد کی بڑی تعداد دہلی میں سیاست دانوں سے مدد سے مدد مانگ رہی ہے۔ 

منی پور میں بی جے پی حکومت پر ووٹ کے حصول کی غرض سے کوکی اور میتی کمیونٹیز کے درمیان دیرینہ اختلافات بھڑکانے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔  

حزب اختلاف کانگریس کے رہنما اور سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے انڈین ایکسپریس میں چھپنے والے ایک مضمون میں لکھا کہ ’گذشتہ تین مئی سے جب سے فسادات بھڑکے ہیں تب سے وزیراعظم نریندر مودی نے منی پور پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

’انہوں نے امن قائم رکھنے تک کی اپیل نہیں کی اور نہ ہی منی پور کا دورہ کرنے کو اہم سمجھا جبکہ اب تک 120 افراد سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔‘

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ منی پور فسادات کے دوران ہی وزیراعظم کا امریکہ دورہ ہوا، جس نے عالمی اور ملکی میڈیا میں خوب دھوم مچائی اور اس شور میں منی پور کی فریاد کہیں دب کر رہ گئی۔

اسی وجہ سے منی پور کی دونوں متاثرہ برادریاں وزیراعظم مودی کے خلاف غصے کا اظہار کر رہی ہیں اور انہیں منی پور میں تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھراتی ہیں۔  

امپھال سے جان بچا کر دہلی پہنچنے والی کوکی برادری سے تعلق رکھنے والی 49 سالہ ایس لینگبائے ہاکپ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، میں سرکاری ریڈیو میں کام کرتی ہوں، آفس سے واپس لوٹ کر بازار سے سودا خریدنے کے دوران بہت شور سنائی دیا۔ پولیس والوں نے ہمیں پہچان کر کہا گھر جاؤ، دنگا بھڑک گیا ہے۔

’بھگوان کی قسم مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے آس پاس فسادات بھڑکے ہوئے ہیں۔ میں جیسے ہی گھر پہنچی تو دیکھا کہ تقریباً ایک ہزار کی بھیڑ ہے، جو نعرہ بازی کر رہے تھے کہ سب کوکی جنگلی لوگوں کو مارو۔ ان کو یہاں سے نکالو۔ یہ رفیوجیز ہیں۔ میں گھبرا گئی۔ وہاں پولیس بہت ساری تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاکپ بتاتی ہیں کہ شکل و شباہت میں کوکی اور میتی دونوں ایک جیسے ہیں صرف زبان کا فرق ہے۔

’ان کا الزام ہے کہ میتی برادری کے لوگ کوکی کو برے ناموں سے بلاتے ہیں جیسے غیر قانونی مہاجر وغیرہ۔‘

دوسری طرف دہلی میتی متاثرین کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر سوریم روجیس منی پور میں فسادات شروع کرنے کا الزام کوکی برادری پر لگایا۔

ان کا کہنا تھا: ’ان لوگوں (کوکی ) نے مختلف مقامات جیسے چانڈیل کانپوکی اور چچانچو میں حملہ کیا خاص طور پر جہاں میتی اقلیت میں ہیں۔

’ان لوگوں نے حملے کی شروعات کیں اور میتی برادری کو بھگانے کی کوشش کی، جس کے بعد تشدد بھڑک اٹھا اور امپھال تک پھیل گیا۔ بعد ازاں میتی اکثریتی علاقوں میں کوکی لوگوں پر حملے ہوئے اور انہیں بھگایا گیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی بھی منی پور جل رہا ہے۔ اس وقت منی پور کو امن کی ضرورت ہے۔ امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے انڈین حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ مداخلت کرنا چاہیے اور کسی بھی پارٹی کی طرف داری نہیں کرنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا