انڈیا میں فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ شورش زدہ خطے منی پور میں خواتین سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر راستے بند کر رہی ہیں۔
انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق انڈین فوج کا یہ بیان جو پیر کی شب ٹوئٹر پر جاری کیا گیا، تشدد سے متاثرہ شمال مشرقی ریاست میں بڑھتے ہوئے اس نئے رجحان کی پہلی سرکاری تصدیق ہے۔
فوج نے ٹوئٹر پر دو منٹ 12 سیکنڈ کی طویل ویڈیو بھی جاری کی، جس میں سنگین الزامات لگائے گئے کچھ خواتین کارکنان شدت پسندوں کو بھاگنے میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔
فوج کے بیان میں کہا گیا: ’منی پور میں خواتین کارکن جان بوجھ کر راستے بند کر رہی ہیں اور انڈین سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں مداخلت کر رہی ہیں۔ اس طرح کی غیر ضروری مداخلت جانوں اور املاک کو بچانے کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے بروقت ردعمل کے لیے نقصان دہ ہے۔
Women activists in #Manipur are deliberately blocking routes and interfering in Operations of Security Forces. Such unwarranted interference is detrimental to the timely response by Security Forces during critical situations to save lives and property.
Indian Army appeals to… pic.twitter.com/Md9nw6h7Fx
— SpearCorps.IndianArmy (@Spearcorps) June 26, 2023
یہ ٹویٹ امپھال ایسٹ میں خواتین کی زیر قیادت احتجاج کے دو دن بعد سامنے آئی، جب ڈیڑھ ہزار مظاہرین نے سکیورٹی فورسز کو میتی علیحدگی پسند گروپ کانگلی یاول کنا لوپ (کے وائی کے ایل) کے 12 ارکان کو رہا کرا لیا۔
یہ تعطل اسی وقت حل ہوا جب ان باغیوں کو ہجوم کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں جانے کی اجازت دی گئی۔
اسی ویڈیو میں ہفتے کو امپھال ایسٹ کے ایتھم گاؤں میں خواتین کی جانب سے کی گئی ناکہ بندی کے مناظر بھی دکھائے گئے۔
ویڈیو میں 23 جون کو اورگپت اور یایگن پوکپی واقعات کو بھی دکھایا گیا جہاں گولیاں چلائی گئیں اور الزام لگایا گیا کہ خواتین ’مسلح شدت پسندوں‘ کے ساتھ تھیں۔
ویڈیو کے ایک اور فریم میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایمبولینسوں کو ’شدت پسندوں‘ کو لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ویڈیو کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ’خواتین مسلح شدت پسندوں کا ساتھ دے رہے تھیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کلپ میں 13 جون کے مناظر بھی شامل تھے، جب چھ ہفتے قبل تشدد شروع ہونے کے بعد سے ایک ہی دن میں نو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ویڈیو اور کیپشنز میں کسی بھی خاتون کارکن یا ان کی برادریوں کی شناخت نہیں کی گئی۔
اس کلپ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ خواتین دن اور رات کے وقت فوجی کارروائیوں میں مداخلت ڈال رہی تھیں اور انہوں نے فوجیوں کی تاخیر کے لیے آسام رائفلز کے فوجی کیمپ میں داخلے کو بھی روک دیا تھا۔
اخبار کے مطابق فورسز کی نقل و حرکت کو روکنا نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ امن و امان کی بحالی کے لیے ان کی کوششوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
ویڈیو کے آخر میں کہا گیا: ’انڈین فوج معاشرے کے تمام طبقات سے اپیل کرتی ہے کہ وہ منی پور میں امن اور استحکام لانے کے لیے دن رات کام کرنے والی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کریں۔‘
شورش زدہ ریاست میں تین مئی سے میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان نسلی جھڑپوں میں 115 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ قبائلی اور غیر قبائلی دونوں گروپ احتجاج کر رہے تھے اور فوج کارروائیوں میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔