اپنے چھوٹے بھائی گنتھر کے ساتھ غروب آفتاب کے وقت نانگا پربت کی چوٹی پر پہنچنے کی خوشی کے چند لمحوں بعد، رین ہولڈ میسنر کی مایوسی کا آغاز ہوا۔
8,126 میٹر کی بلندی پر، پاکستان میں شاندار روپل فیس کی جانب سے چوٹی پر پہنچ کر، جس میں انہیں کوئی اضافی آکسیجن دستیاب نہیں تھی، 24 سالہ گنتھر کم آکسیجن میں مشکل میں تھے اور اندھیرے میں حرکت کرنے سے قاصر تھے۔
چوٹی کے قریب رات بھر شدید سردی کی وجہ سے ان کی حالت بگڑ گئی، جس کی وجہ سے رین ہولڈ ایک فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ کیا وہ کم اونچی، لیکن نامعلوم دیامیر کی جانب سے اترنے کی کوشش کریں یا نہیں۔ غیریقینی برف کی بھول بھلیوں میں سے گنتھر کی اذیت ناک طور پر سست پیش رفت نے دوسری بظاہر نہ ختم ہونے والی رات کو جنم دیا۔
اگلے دن جب رین ہولڈ گلیشیئر سے گزر رہے تھے تو انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ ان کا بھائی غائب ہو گیا ہے۔ گنتھر بظاہر برفانی تودے کی زد میں آ کر برف کے نیچے دب گئے تھے۔ دو دن تک جاری رہنے والی تلاش کے بعد رین ہولڈ کے پیروں کی سات انگلیاں سردی (فراسٹ بائٹ) کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔
اس کے باوجود انہیں اس وقت الزامات کے ایک الگ پہاڑ کا سامنا کرنا پڑا، جب خود انہیں مقامی کسانوں نے گلیشیئر سے بچایا۔
اس مہم میں رین ہولڈ میسنر کے ساتھ شریک دیگر لوگ ان کے مخالف ہوگئے اور کہا کہ انہوں نے اپنے بھائی کی حفاظت کی پرواہ کیے بغیر گنتھر کو چوٹی پر چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ دیامیر فیس سے واپسی کر سکیں۔
ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے گنتھر کو اس دیکھے بھالے سمٹ (فیس) سے اترنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا جہاں سے وہ چڑھے تھے۔ متضاد بیانات، مقدمات اور میڈیا کا طوفان شروع ہوا جس نے رین ہولڈ کو افسردگی اور مایوسی کی جانب دھکیل دیا۔ یہ 1970 کی بات ہے۔
کئی بار وہ گنتھر کی لاش کو تلاش کرنے کے لیے نانگا پربت واپس آئے تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ دیامیر کی جانب نیچے اترتے وقت ایک ساتھ تھے۔
2005 میں گلیشیئر میں بالآخر باقیات کا انکشاف ہوا – چمڑے کے بوٹ میں جسم کا ایک نچلا حصہ اور بغیر سر کے سڑا ہوا دھڑ – جس نے سبھی تو نہیں لیکن زیادہ تر ناقدین کو خاموش کر دیا۔
چھوٹے بھائی کی موت نے رین ہولڈ پر اَنمٹ اثر چھوڑا۔ انہوں نے اپنی کتاب دی بگ والز میں لکھا: ’اس مہم کے دوران میں مر گیا تھا۔۔۔ یہ میرا جسم نہیں بلکہ میری روح، میری خواہش اور میری تمام امیدیں تھیں جو مر گئیں۔ میں اکیلے اور ایک مختلف شخص کی حیثیت سے گھر آیا تھا۔‘
رین ہولڈ نے گذشتہ دنوں خود کو ایک نئے تنازعے کا مرکز پایا۔ گنیز ورلڈ ریکارڈز کے ججز نے جرمن ایبرہارڈ جرگالسکی کی نئی تحقیق کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ رین ہولڈ 1985 میں اناپورنا اول کی ’حقیقی چوٹی‘ سے کئی میٹر پیچھے رہ گئے تھے جس کی وجہ سے وہ دو گنیز ریکارڈز سے محروم ہوگئے تھے۔ وہ آٹھ ہزار میٹر بلند تمام 14 چوٹیوں کو سر کرنے اور آکسیجن کے بغیر ایسا کرنے والے پہلے شخص تھے۔
یہ وہ کارنامے ہیں، جو ان کے کوہ پیمائی کے کیریئر اور حیثیت کو واضح کرنے میں مدد کرتے تھے۔
اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ پیچیدہ چوٹیوں کے سب سے اونچے مقام کا آنکھ سے تعین کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اگرچہ جرگالسکی کی ٹیم نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک درست ’جغرافیائی سچائی‘ تلاش کی لیکن ناقدین نے ان کے کام کو تکنیکی بنیاد پر ایک ’نِٹ پکنگ یا بال کی کھال اتارنے‘ کی مشق قرار دیا، جو کوہ پیمائی کی تاریخ کی کتابوں میں کچھ بلندیوں اور ریکارڈوں کی وضاحت کرسکتا ہے۔
اس خبر نے ایک فلسفیانہ بحث کو بھی جنم دیا کہ کیا صحیح مقام تک پہنچنا واقعی اہمیت رکھتا ہے اور کیا کوہ پیمائی کے ریکارڈز کی کوئی اہمیت ہے۔ رین ہولڈ نے خود عوامی طور پر ثبوتوں کو متنازع قرار دیا ہے جبکہ ریکارڈ کی پرواہ نہ کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
79 سالہ رین ہولڈ کے لیے یہ تضادات کچھ نئے نہیں ہیں، انہوں نے اپنی پوری زندگی سکینڈل اور ’ڈراموں‘ کا سامنا کیا ہے۔
رین ہولڈ 1944 میں اٹلی کے شمال میں واقع خود مختار صوبے ساؤتھ ٹائرول میں پیدا ہوئے، جو 1919 تک آسٹریا کا حصہ تھا۔ وہ ڈولومائٹ پہاڑوں میں آٹھ بہن بھائیوں کے ساتھ پلے بڑھے۔ ان کی والدہ ماریہ ’دوسروں کی زیادہ پروا نہیں‘ کرتی تھیں اور وہ گھریلو خلا پُر کرتی تھیں، جو ان کے والد سے رہ جاتے تھے۔
ان کے والد جوزف میسنر، ایک استاد اور نازی ہمدرد تھے، جنہیں ہٹلر کے مشرقی محاذ پر آپریشن باربروسا میں جرمنوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دینے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ جنگ کے بعد وہ اکثر گھر میں اکیلے رہتے اور بدسلوکی کرتے تھے۔ رین ہولڈ نے اپنی یادداشت ’دی نیکیڈ ماؤنٹین‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک بار گنتھر کو کتوں کے رکھنے کی جگہ پر پایا، جب ان کے والد نے انہیں کوڑے مارے تھے۔
لیکن اپنے ہلکے پھلکے لمحات میں جوزف نے اپنے بیٹوں کو پہاڑوں کی آزادی سے بھی متعارف کروایا۔
اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رین ہولڈ نے اپنے آبائی ڈولومائٹ پہاڑ کی بلند و بالا چوٹیوں سے نمٹنے کے لیے الپائن اپرنٹس شپ کا آغاز کیا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو تیز اور موثر چڑھائی کی غرض سے کم سے کم آلات کا استعمال کرتے ہوئے یورپ کے مغربی الپس میں برفانی راستوں کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد رین ہولڈ نے اس ہلکے پھلکے ’الپائن سٹائل‘ کو آٹھ ہزار فٹ اونچی چوٹیوں کو اضافی آکسیجن، فکسڈ رسیوں، بڑے کیمپوں اور معاون ٹیموں کے بغیر سر کرنے کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جاری رہنے والی قوم پرستانہ ’محاصرے کے سٹائل‘ کی مہمات کو مسترد کردیا اور ان سیاسی نظریات کو بھی ترک کردیا جو ان کے والد اور نانگا پربت پر آسٹریا نژاد جرمن ساتھیوں نے اختیار کیے تھے۔
رین ہولڈ اس کی بجائے ماضی کے بانیوں کے واقعات سے مدد لیتے ہوئے کوہ پیمائی کے فلسفے کو تشکیل دینے میں مشغول تھے۔
1971 میں انہوں نے ’دی مرڈر آف دی امپوسیبل‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا، جس میں انہوں نے جدید دور کے کوہ پیماؤں کو آسانی کی خاطر بولٹ اور پیگ جیسے فکسڈ آلات استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے سوال کیا: ’کوہ پیمائی کے خالص چشمے کو کس نے آلودہ کیا؟‘
کبھی کبھار رین ہولڈ کا غیر متزلزل رویہ ضرورت سے زیادہ سخت ثابت ہوا۔ جب وہ 1973 میں ’الپائن سٹائل‘ کی چڑھائی کے لیے اپنے بھائی کی برفیلی قبر یعنی نانگا پربت لوٹے، تو وہ نفسیاتی طور پر 6500 میٹر کی بلندی پر ہار گئے۔
انہوں نے ’دی نیکیڈ ماؤنٹین‘ میں لکھا کہ ’میں اتنا کھویا ہوا اور اکیلا محسوس کر رہا تھا کہ میں واپس مڑ گیا۔ میں اپنے طور پر اس درجے کے تجربے کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا۔ میں اب واضح طور پر سوچ نہیں سکتا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہوں۔‘
1978 میں رین ہولڈ نے آسٹریا کے پیٹر ہیبیلر کے ساتھ مل کر اضافی آکسیجن کے بغیر ایورسٹ پہلی مرتبہ سر کرکے ڈاکٹروں کو غلط ثابت کر دیا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک الپس اور جنوبی امریکہ میں متعدد کامیاب مشترکہ مہمات کے باوجود، پیٹر ہیبیلر کی مہم کے بارے میں ایک کتاب ’دی لونلی وکٹری‘ کی اشاعت کے بعد ڈرامائی اختلاف پیدا ہوا۔
پیٹر نے رین ہولڈ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے چڑھائی کے بارے میں اپنی قیادت کو بڑھا چڑھا کر پیش اور مشترکہ کامیابی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان الزامات کو رین ہولڈ مسترد کرتے ہیں۔
رین ہولڈ کی کٹر انفرادیت بالآخر رنگ لے آئی۔ اسی سال انہوں نے بیس کیمپ سے نانگا پربت کی دیامیر کی جانب سے چڑھنے اور اترنے کے نئے راستوں کے ذریعے پہلی تنہا چڑھائی کی۔ یہ وہی سمت تھی جس پر وہ بڑی محنت سے گنتھر کے ساتھ اترے تھے اور جس کے نیچے بالآخر آگے چل کر ان کے بھائی کی لاش مل جائے گی۔
یہ آٹھ ہزار میٹر بلند چوٹی پر اکیلے چڑھنے کا پہلا موقع تھا۔ حیرت انگیز طور پر جیسے کہ یہ کارنامہ شاید اتنا غیرمعمولی نہیں تھا، رین ہولڈ کوہ پیمائی کے دوران زلزلے سے بھی بچ گئے۔ ان کا منتخب راستہ اب تک کسی نے استعمال نہیں کیا ہے۔
1980 میں ان کی منطقی پیش رفت یہ تھی کہ وہ اضافی آکسیجن کے بغیر ماؤنٹ ایورسٹ پر اکیلے اترنے والے پہلے شخص بن گئے تھے، یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جسے امریکی کوہ پیما کونراڈ اینکر نے ’چاند پر اترنے‘ سے تشبیہ دی تھی۔
رین ہولڈ نے پپہلے ہی دن ایک گڑھے میں گرنے کے بعد مہم تقریباً چھوڑ دی تھی لیکن مون سون کے دوران اگلے تین دن تک، جزوی طور پر ایک نئے راستے کے ذریعے، انہوں نے چڑھنے کا ارادہ کیا۔
اس کے باوجود رین ہولڈ کی اکیلے کوہ پیمائی کی دلچسپ مجبوری تیزی سے دائمی تنہائی کی علامت بنتی جا رہی تھی، جو ممکنہ طور پر 1977 میں ان کی پہلی طلاق کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’دی کرسٹل ہورائزن‘ میں ایورسٹ پر سولو چڑھنے کے بعد لکھا: ’میں ایک احمق ہوں، جو محبت اور نرمی کی خواہش کے ساتھ ٹھنڈے پہاڑوں پر دوڑتا ہے۔‘
اگرچہ رین ہولڈ کے کوہ پیمائی کے پیشرو چوٹیوں تک پہنچنے کی کوشش میں مصروف تھے، انہوں نے غیر معمولی اطراف سے جنہیں پہلے استعمال نہیں کیا گیا تھا، اضافی آکسیجن کے بغیر اور اکثر اکیلے ان کو دہرانے کا کیریئر بنایا۔
1986 میں وہ آٹھ ہزار میٹر اونچی تمام 14 چوٹیوں کو سر کرنے کا دعویٰ کرنے والے پہلے شخص بن گئے۔ وہ اضافی آکسیجن کے بغیر ایسا کرنے والے بھی پہلے شخص بن گئے۔ ان کی آخری 8000 میٹر اونچی چوٹی لوٹسے (8526 میٹر) تھی۔
’ایک بچے کو لیجنڈ کی ضرورت نہیں‘
1986 میں 42 سالہ رین ہولڈ نے فیصلہ کیا کہ وہ اب بلند ترین پہاڑوں پر نہیں چڑھنا چاہتے۔ اس کے بعد کے برسوں میں انہوں نے بے شمار اور بےتحاشا دیگر دلچسپیوں کی طرف ہاتھ بڑھایا، جن میں مویشیوں کی دیکھ بھال، یاک کا ریورڑ پالنا، یٹی کا (ناکام) شکار (اور اس کے بارے میں لکھنا)، سیاست میں پانچ سال کا دور (اطالوی گرین پارٹی کے ایم ای پی کے طور پر)، ریگستانی کراسنگ (گوبی ریگستان، سولو)، برف کے میدانوں کا سفر (گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا میں وہ پیدل سفر کرنے والے پہلے شخص بن گئے تھے)، ایورسٹ پر جارج میلوری کی موت پر تحقیق کرنا (ایک اور کتاب کا موضوع) اور ڈولومائٹس میں چھ پہاڑی ورثے کے عجائب گھروں کا افتتاح شامل ہیں۔
اب 79 سال کی عمر میں اور جنوبی ٹیرول میں دو قلعوں کے درمیان رہنے والے رین ہولڈ اپنے آپ کو مقامی پہاڑوں کے درمیان چہل قدمی کے ذریعے مصروف رکھتے ہیں۔
اپنے کوہ پیمائی کے کارناموں کی یاد دلاتے ہوئے رین ہولڈ کی نجی زندگی نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ وہ تین شادیاں کر چکے ہیں اور دو بار طلاق لے چکے ہیں۔ ان کے نانگا پربت مہم کے ایک ساتھی کی بیوی کے ساتھ تعلقات تھے جس سے انہوں نے آخر کار شادی کی اور پھر طلاق دے دی۔
ان کے چار بچے ہیں، جن میں سے ایک سائمن میسنر، جو اب 33 سال کے ہیں، کوہ پیمائی کرتے ہیں اور انہوں نے ڈولومائٹس اور پاکستان میں چھ ہزار میٹر کی چوٹیاں پہلی بار سر کیں۔ سائمن نے گذشتہ سال ایک اطالوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ رین ہولڈ ایک ’سخت اور غیر حاضر‘ والد تھے۔
سائمن نے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے کوہ پیما بننے کے لیے اپنے والد کے نقش قدم پر نہیں چلنا تھا بلکہ انہوں نے 17 سال کی عمر میں اپنی مرضی سے اسے اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کبھی ان کے ساتھ نہیں گیا اور نہ ہی انہوں نے مجھے کبھی اپنی مہم جوئی میں ساتھ لیا۔
’میں ایک ایسے والد کے یہاں پلا بڑھا ہوں جو سپاٹ لائٹ میں رہے‘ انہوں نے کہا۔ ’جب میں نے ان کے بارے میں کچھ جاننا چاہا تو مجھے ’داس بلڈ‘ پڑھنی پڑی۔ وہ ہر وقت حرکت میں رہتے تھے۔ ان کا سر سنگ مرمر کی طرح سخت تھا اور وہ بہت پھرتیلے تھے۔ لیجنڈ کا بیٹا بننا آسان نہیں تھا۔ ہر کوئی اسے ایک افسانے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن ایک بچے کو افسانوی کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ایک باپ کی ضرورت ہے، اور [رین ہولڈ] وہ کبھی نہیں تھے۔
بہرحال، دونوں نے مل کر میسنر ماؤنٹین مووی پروڈکشن کمپنی کی بنیاد رکھی ہے اور انسٹاگرام بائیو میں سائمن نے خود کو ’روایتی الپنسٹ‘ کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ یہ اصطلاح ان کے والد نے بنائی اور اکثر استعمال کی تھی۔
2021 میں رین ہولڈ نے لکسمبرگ سے تعلق رکھنے والی سبین شوماکر سے شادی کی جو ان سے 36 سال چھوٹی ہیں۔ سائمن کو یہ شادی پسند نہیں آئی۔ انہوں نے اطالوی میڈیا کو بتایا کہ ’میں یہ قبول نہیں کرتا کہ ان کی بیوی میری بہن کی عمر کی ہو، لیکن وہ رین ہولڈ ہیں۔ اگر ان کے ذہن میں کچھ ہے، تو وہ اسے کر کے رہتے ہیں۔‘
گذشتہ برسوں کے دوران صحافیوں، فوٹوگرافروں اور مداحوں نے رین ہولڈ کو کسی طرح ’پکڑائی نہ دینے والا‘ اور ’ضدی‘ پایا ہے۔ کوہ پیما کی داڑھی اور جنگلی بالوں کے ساتھ ان کی دلفریب شکل اور شخصیت خوفناک ہو سکتی ہے۔
فوٹوگرافر جم ہیرنگٹن نے ’دا کلائمبرز‘ میں ایک فوٹو شوٹ کے بارے میں لکھا کہ ’رین ہولڈ کو آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے لیکن مجھے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ کمرے میں کوئی باقی نہیں بچا تھا۔‘
ہیرنگٹن نے کہا: ’رین ہولڈ، آپ ہم سب کو ڈرا رہے ہیں۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، سانس لینے کے لیے ہوا تھی اور آخر کار ہم بات کر سکتے تھے، لیکن میں اب بھی اسے ماؤنٹ ایورسٹ کے دور دراز شمالی فیس سے بہتر نہیں جانتا۔‘
رین ہولڈ کا مزاج ان کی کوہ پیمائی کی طرح خنجر کی دھار کی طرح خطروں سے بھرا ہو سکتا ہے۔ انہیں دلکش، چمکدار اور مغرور قرار دیا گیا ہے۔ ایک معمے کی طرح وہ دوغلے پن سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر تجارتی ہمالیائی مہمات پر تنقید کی ہے، تاہم سیاحت کی حمایت اور آٹھ ہزار سپیڈ ریکارڈ کی لاجسٹکس کی تعریف کی ہے۔
ماؤنٹ ایورسٹ کو اضافی آکسیجن کے بغیر سر کرنے والے پہلے برطانوی سٹیفن وینبلز کا کہنا ہے کہ اب وہ چوٹیوں یا ریکارڈز کی پروا نہیں کرتے، حالانکہ انہوں نے ان تک پہنچنے اور انہیں سر کر کے صحت مند زندگی بسر کی تھی، حالانکہ وہ ’حادثاتی طور پر اس جانب گئے تھے۔‘
’بے کاروں کے فاتح‘
کوہ پیمائی کے مرکز میں ’سفر‘ کے فلسفیانہ تصورات اور ریکارڈ قائم کرنے، پیسہ کمانے، چوٹیوں کے بارے میں انا کو چھونے کے جنون کے درمیان تناؤ ہے۔
گنیز ورلڈ ریکارڈ کے تازہ ترین ’تنازع‘ کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس سے پوچھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک پہاڑ کی (ازسر نو وضاحت شدہ) پیمائش کوہ پیما یا انسان والی پیمائش کرتی ہے؟
2021 میں رین ہولڈ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’اگر وہ کہیں کہ میں شاید اناپورنا میں چوٹی سے پانچ میٹر نیچے، اس طویل پہاڑی کونے پر کہیں گیا ہوں، تو میں بالکل ٹھیک محسوس کرتا ہوں، میں اپنا دفاع بھی نہیں کروں گا۔ اگر کوئی آئے اور کہے کہ تم نے کیا کیا یہ سب تو بکواس ہیں؟ سوچیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔‘
اس کے برعکس، رین ہولڈ نے گذشتہ ہفتے جرمن پریس کے سامنے دفاعی موقف اپنایا اور جورگالسکی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جنہوں نے 8000 کی حقیقی چوٹیوں کی دوبارہ تحقیقات کی قیادت کی۔
’انہیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ وہ ماہر نہیں ہیں۔ انہوں نے بس پہاڑ کو الجھن میں ڈال دیا۔ یقیناً ہم چوٹی پر پہنچے ہیں۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ میرا نام گنیز بک میں ہے یا نہیں۔ ایک ایسا ریکارڈ جس کا میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا، مجھ سے چھینا بھی نہیں جا سکتا۔‘
اناپورنا اول پر رین ہولڈ کے اطالوی پارٹنر ہانس کمرلینڈر نے اس منصوبے کو پریس میں ’ایک تھیوریسٹ کی طرف سے بال کی کھال اتارنا‘ قرار دیا۔
رین ہولڈ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کوہ پیما کو ایک ’تھیوریسٹ‘ نے بتایا کہ ’ممکن ہے کہ وہ چوٹی تک نہیں پہنچا۔ لیکن بہترین کوہ پیمائی کی پیمائش صرف میٹر میں نہیں کی جاتی ہے۔ وژن اہم ہے، سٹائل اہم ہے۔ اور سفر بھی۔‘
رین ہولڈ نے انسٹاگرام پر لکھا: ’الپنزم میں کبھی بھی کوئی (ریکارڈ) نہیں ہوگا! میں ہر الپنسٹ کی تعریف کرتا ہوں، ہر الپنسٹ کی جو اس دنیا کی بڑی دیواروں پر اپنے تجربات کرتا ہے۔ یہ سب زندگی کے بارے میں ہے۔ میں بے کاروں کا فاتح ہوں اور رہوں گا لیکن میں نے اپنی زندگی میں اتنا کچھ حاصل کیا ہے کہ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ آج میں ایک خوش انسان ہوں!‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چوٹی نہیں بلکہ راستہ مقصد ہے۔ میری الپنزم کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے!‘
یہاں ان کا نقطہ نظر ماقبل کے نقطہ نظر سے مختلف ہے جو انہوں نے کتاب ’مائی لائف ایٹ دی لِمٹ‘ میں بیان کیا ہے۔ ’جب میں کوئی مقصد واضح کر رہا ہوں تو سمٹ ہی سب کچھ ہے۔‘ ’میں اسے دوسری طرح ظاہر نہیں کروں گا، میں ایک سپرمین نہیں ہوں؛ میں صرف ذہنی طور پر اس کے اختتام پر توجہ مرکوز رکھ سکتا ہوں۔‘
لیکن رین ہولڈ کی توجہ صرف چوٹیوں پر ہی مرکوز نہیں تھی۔ وینبلز کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک شاندار اور تصوراتی کوہ پیما تھے، جو ہمیشہ جغرافیائی اور نفسیاتی دونوں طرح کے نئے میدانوں کی تلاش میں دلچسپی رکھتے تھے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کیا ممکن ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بے عقل‘ پیک بیگنگ کو رین ہولڈ کی چڑھائی کی فنکارانہ مہارت کے ساتھ الجھنا نہیں چاہیے۔
ایک بات واضح ہے کہ رین ہولڈ عوامی رائے عامہ کی عدالت کے مقابلے میں اونچے پہاڑوں اور نایاب ہوا کے وحشی میدان میں لامحدود حد تک زیادہ آرام دہ ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بیک وقت بہت سے متضاد خیالات کو اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، جس سے اس شخص کی پیمائش کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
رین ہولڈ اکثر کہتے ہیں اور یہ بات انہوں نے دا انڈپینڈنٹ کو بتائی کہ ’عظیم چیزیں اس وقت ہوتی ہیں جب انسان اور پہاڑ ملتے ہیں۔ ’یہ وہی ہے جو ولیم بلیک نے ایک بار لکھا تھا۔ یہ سچ ہے۔ بہت اچھی چیزیں ہوتی ہیں۔‘
رین ہولڈ کو شاید معلوم ہے کہ بلیک نے بھی ایک پیارے چھوٹے بھائی کی موت کا سامنا کیا ہے، جو 1787 میں گنتھر کی ہی عمر میں چل بسے، وہ زندگی بھر کے لیے شدید صدمے میں تھے۔ اس سے بھی زیادہ یقینی بات یہ ہے کہ اس پیچیدہ شخص نے ایک بھائی، کچھ مداحوں، سات انگلیوں اور شاید ایک ’حقیقی چوٹی‘ کو کھونے کے باوجود پہاڑوں میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اگر وہ ایک کوہ پیمائی کی مہم میں پیچھے رہ جاتے تو وہ دوسروں سے آگے نکل جاتے، کبھی کبھی بڑی ذاتی قیمت ادا کرنے کے بعد۔
چوٹی کب سمٹ نہیں ہوتی؟
چند پہاڑوں کی ایک منفرد، نوک دار چوٹی ہوتی ہے۔ مانسلو، دھولاگری اول یا اناپورنا اول جیسے پہاڑوں کی ایسی اونچی چوٹیاں ہیں۔ کوہ پیماؤں کے لیے ’ابھاروں‘ کی نسبتاً اونچائی کا اندازہ لگانا مشکل ہوسکتا ہے، خاص طور پر تھکاوٹ، ہائپوکسک حالت اور کم نظر آنے کی حالت میں۔ برف کی سطح میں بھی اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، جس سے موازنہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
جب رین ہولڈ اور ابتدائی کوہ پیماؤں نے اپنی تاریخی چڑھائی کی تو ان کے پاس نہ تو جی پی ایس اور نقشہ سازی کی ٹیکنالوجی تک رسائی تھی اور نہ ہی انٹرنیٹ تک یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ آیا وہ ’چوٹی‘ تک پہنچ گئے ہیں یا نہیں۔
جرگالسکی 8000ers.com ڈیٹا بیس چلاتے ہیں۔ وہ کوہ پیما نہیں ہیں لیکن وہ ایک محتاط تاریخ دان ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویر، جی پی ایس کوآرڈینیٹس، تصاویر، ویڈیوز اور کوہ پیماؤں کی تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے جرگالسکی اور ان کی ٹیم نے ہر پہاڑ کی ’حقیقی چوٹی‘ اور یہ تعین کرنے کی کوشش کی کہ کون ان تک پہنچا تھا یا نہیں۔
سمٹ کرنے والوں کی اکثریت جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ’حقیقی‘ اونچے مقام تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں، انہوں نے نادانستہ طور پر ایسا کیا تھا۔ ایک اقلیت نے جان بوجھ کر سمٹ سے گریز کیا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ نامکمل کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس آ گئے ہیں۔
چند میٹر سے کیا فرق پڑتا ہے؟
جرگالسکی کے ساتھ تحقیق کرنے والے کوہ پیما ڈیمیئن گلڈیا کا کہنا ہے کہ ’یہ رین ہولڈ سے متعلق نہیں ہے۔ ہمارا کام پہاڑوں کے بارے میں تھا۔ مجھے بنیادی طور پر سمٹ کی حقیقی نوعیت میں دلچسپی تھی اور اس حقیقت میں کہ بہت سے لوگ سہولت اور تجارت کے نام پر مانسلو کو دھوکہ دے رہے تھے (رین ہولڈ نہیں)۔ میں جغرافیائی سچائی پر توجہ مرکوز کر رہا تھا اور اس بات پر کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کیوں اہم ہے۔‘
وینبلز کا کہنا ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے ریکارڈ کے تعاقب میں چوٹی کو ’واحد کامیابی کے طور پر دیکھنے‘ اور اسے ایک مہم جوئی کا ایک بامعنی جزو سمجھنے کے درمیان فرق موجود ہے۔
جرگالسکی نے نتیجہ اخذ کیا کہ رین ہولڈ اناپورنا اول کی اصل چوٹی سے 65 میٹر دور اور اس سے پانچ میٹر نیچے رک گئے تھے۔ رین ہولڈ نے بیس کیمپ کو اپنی مبینہ ’چوٹی‘ سے دیکھنے کی وضاحت کی لیکن جرگالسکی کے حساب سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حقیقی چوٹی سے نظر نہیں آئے گی۔
گنیز ورلڈ ریکارڈز نے ان کی تحقیق کو تسلیم کیا اور اس کے بعد سے دونوں ریکارڈز کو ایک امریکی ایڈ ویسٹرز کو دے دیئے ہیں۔ گنیز ورلڈ ریکارڈز نے اس وقت کہا تھا کہ ’اس سے گذشتہ 50 برسوں کے دوران چند اہم ترین کوہ پیماؤں کی ناقابل یقین کامیابیوں میں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔‘
زیادہ تر کوہ پیما اس بات پر متفق ہوں گے کہ اس نئے علم کا اطلاق مستقبل میں کوہ پیمائی سے متعلق تاریخ کی کتابوں میں کیا جانا چاہیے لیکن ماضی کی تاریخی کوہ پیمائی پر نہیں۔
ویسٹرز نے انسٹاگرام پر لکھا: ’مجھے واقعی یقین ہے کہ رین ہولڈ میسنر تمام 14 آٹھ ہزار سے اوپر چوٹیوں پر چڑھنے والے پہلے شخص تھے اور اب بھی انہیں ایسا کرنے کے لیے تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے نہ صرف اپنے انداز میں بلکہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بھی اضافی آکسیجن کے بغیر چڑھ کر راستہ دکھایا۔۔۔ پہاڑوں پر چڑھنا ایک ذاتی سفر ہے اور اسے کسی فہرست میں شامل ہونے یا ریکارڈ قائم کرنے کے بارے میں نہیں ہونا چاہیے۔‘
جم ہیرنگٹن نے 20 ویں صدی کے بہت سے بڑے ناموں کی تصاویر بنائی ہیں۔ ان کا کام یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
© The Independent