ان دنوں اتفاقاً ’ایڈوینچرز آف نانگا پربت‘ نامی کتاب ہاتھ لگ گئی ہے۔ اس میں 1934 میں جرمنی کی اس کوہ پیما ٹیم کی روداد رقم ہے، جس نے مہم کے دوران دو جانیں گنوائیں مگر نانگا پربت کی چوٹی پھر بھی ان کی پہنچ سے دور رہی۔
فرٹز بیختولز مہم کے ایک اہم رکن تھے اور انہوں نے ساری روداد جرمن زبان میں لکھی ہے، جسے انگریزی کے قالب میں ایچ ای جی ٹنڈیل نے ڈھالا ہے۔ اس میں کئی شاندار بلیک اینڈ وائٹ تصاویر موجود ہیں۔
یہ مہم جرمنی کے شہر میونخ سے شروع ہوئی۔ ٹیم نے بمبئی تک بحری جہاز میں سفر کیا اور وہاں سے راولپنڈی تک ریل میں چلے۔ پھر ٹیم سری نگر پہنچی اور وہیں سے ایک طویل فاصلہ بانڈی پور، تراگبل پاس، برزل پاس، چلم چوکی، استور اور پھر رائیکوٹ سے نانگا پربت بیس کیمپ تک کی اور ان تمام منزلوں کو پیدل سفر کر کے طے کیا۔
اس مہم کے لیے 500 سے زائد پورٹر لیے گئے تھے، جن کی اکثریت بلتستان سے تھی اور تمام سازو سامان کا بوجھ بانڈی پورہ کشمیر سے نانگا پربت بیس کیمپ تک ان پورٹروں کی پشت اور کاندھوں پر رہا۔
گو کہ مہم ایک لحاظ سے ناکام رہی لیکن ارکان نے نانگا پربت کے ہمسائے میں موجود دوسری چوٹی کو ضرور سر کر لیا۔
یہ جنگ عظیم اول سے پہلے نانگا پربت کی طرف ایک زبردست مہم تھی۔
1953 میں ہرمین بول نے نانگا پربت کو تن تنہا سر کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ مقامی زبان میں نانگا پربت کو ’دیامیر‘ یا ’شل مکھی‘ کہتے ہیں، جبکہ نانگا پربت سنسکرت زبان کا دیا گیا نام ہے۔
ہرمن بول کا یہ کارنامہ ان کی اپنی کتاب Nanga Parbat Pilgrimage: The Lonely Challenge میں تفصیل سے درج ہے۔
نانگا پربت پر تیسرا اہم واقعہ 1970 کا ہے جب دو بھائی رائن ہولڈ میسنر اور گنتھر میسنر اٹلی سے چلے اور روپل فیس سے نانگا پربت پہاڑ سر کرنے بعد بھٹک کر دیامیر فیس کی جانب اترے۔ اسی دوران راستے میں وہ ٹریجڈی ہوئی، جس پر کئی مضامین لکھے گئے اور 1970 کے واقعات پر مشہور زمانہ فلم ’نانگا پربت‘ ڈائریکٹر جوزف ولسمائر نے 2010 میں ریلیز کی۔
اس مہم میں گنتھر برفانی تودے کا شکار ہوئے اور میسنر انتہائی خستہ حالت میں مقامی لوگوں کو ملے اور یوں بڑی مشکل سے ان کی جان بچی مگر ان کے دونوں پاؤں کے پنجے برف میں جل کر ضائع ہو گئے۔ اس مہم کے ٹھیک 35 سال بعد 2005 میں گنتھر کی لاش ملی اور انہیں وہیں فیری میڈو سائیڈ پر جنگلی پھولوں کے بیچوں بیچ دفنا دیا گیا۔
اس جان سوزی اور جانفشانی والی مہم کی داستان میسنر نے اطالوی زبان میں لکھی ہے، جس کا انگریزی میں ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس مہم اور میسنر کی دیگر کوہ پیمائی کے کارناموں کا تفصیلی تذکرہ نیشنل جیوگرافک میگزین کے ایک شمارے میں بھی کیا گیا ہے۔
غرض 1934 سے لے کر 2022 تک نانگا پربت کی طرف جانے والی اکثر مہمات کے دوران کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور پیش آیا اور اسی لیے یہ ’قاتل پہاڑ‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔
لیکن 2023 کی ابتدا کچھ زیادہ ہی اچھے انداز میں ہوئی ہے۔ قراقرم اور مغربی ہمالیہ کے اس حصے پر کوہ پیمائی کا سیزن شروع ہو چکا ہے اور دنیا بھر سے سیاحوں نے یہاں کا رخ کر لیا ہے۔ محمکہ ٹورازم کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال نانگا پربت سر کرنے کے لیے درجنوں کوہ پیماؤں نے عرضیاں دے رکھی ہیں اور انہیں منظوری بھی ملی ہے۔
ولایت سے آنے والے کوہ پیما تو 2023 میں آخری سیزن تک اس خونی پہاڑ سے اپنے اپنے انداز میں پنجہ آزمائی کریں گے، مگر گلگت بلتستان کی ایک خاتون اور چند نوجوانوں نے سیزن کے آغاز میں ہی کچھ انوکھا کر ڈالا۔
پورٹر جیسا مشقت والا کام ہو یا ہائی پورٹرینگ کا چیلنج، گائیڈ بن کر چلنا ہو یا بطور ٹور آپریٹر کے ذمہ داری اور پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر بلند عمودی پہاڑوں کو سر کرنے کی جان لیوا مہم سامنے ہو تو بھی سدپارہ، ہنزہ، ہوشے اور شمشال کے جوان مقابلے میں سب سے آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
کوہ پیمائی سے متعلق درجنوں کتابوں میں ان متذکرہ بالا گاؤں کے نوجوانوں کی بہادری اور مہارتوں کی کہانیاں بیان ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
سال 2023 میں ماہ جون کے آخری دنوں میں یکدم بڑی خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ ثمینہ بیگ، سجاد سدپارہ، واجد نگری، یوسف علی ہوشے، محمد مراد سدپارہ، علی درانی ہوشے، غلام عباس سمیت کئی مقامی افراد نے نانگا پربت بغیر کسی حادثے کے الگ الگ ٹیموں کے ہمراہ سر کر لیا ہے۔
لاہور کی ایک اور باہمت خاتون نائلہ کیانی نے بھی نانگا پربت سر کرنے کا معرکہ جیت لیا، اس طرح انہوں نے اپنے سر پر ایک اور تاج کا اضافہ کیا۔ نائلہ کیانی اور ساجد سدپارہ نے حال ہی میں نیپال جا کر ماؤنٹ ایورسٹ اور ایناپورہ پہاڑ کو بھی بغیر آکسیجن کے سر کر ڈالا تھا۔
گلگت بلتستان کے وہ جانباز جنہوں نے 2023 میں نانگا پربت سر کی، میں سے چند ایک کی پروفائل پر ذرا سرسری نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے۔ پسماندہ اور دورافتادہ دیہات اور گاؤں سے تعلق رکھنے والے ان باہمت افراد نے نہ صرف اپنا نام روشن کیا ہے بلکہ دنیا بھر میں اپنے ملک کے لیے بھی خوب عزت کمائی۔
ثمینہ بیگ کا تعلق شمشال سے ہے۔ وہ 2009 سے باقاعدہ اس جان جوکھوں والی فیلڈ میں آئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے گلگت بلتستان کی تمام خواتین کے لیے حوصلہ اور جرات کا نشان بن گئی ہیں۔ ثمینہ نے 21 سال کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کر لی تھی اور وہ پہلی پاکستانی خاتون تھیں جس نے یہ معرکہ سر انجام دیا۔
ثمینہ بیگ نے 2022 میں کے ٹو اور 2023 میں نانگا پربت سر کی اور خواتین کے لیے ایک مثال بن گئیں۔ انہیں یو این ڈی پی نے اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کوہ پیمائی کی اس فیلڈ میں ان کی ہمت بندھانے میں ان کے بھائی کا بڑا حصہ ہے۔
ساجد سدپارہ کا نام تو اس وقت شہرت کی بلندیوں پر ہے اور اس کم عمری میں یہ نام ایسے ہی نہیں بنا بلکہ اس کے پیچھے سخت بہادری اور محنت شامل ہے۔ ابھی عمر 33 سال کے آس پاس ہے اور اب تک دنیا کی آٹھ ہزار سے بلند تقریباً سب پہاڑ سر کر چکے ہیں۔
ساجد سدپارہ کی کامیابی کے پیچھے ایک اور بلند نام جڑا ہوا ہے، جس نے کوہ پیمائی کی دنیا میں نہ صرف بہت نام کمایا بلکہ ساجد کے ساتھ مل کر موسم سرما میں ایک محیر العقول کارنامہ سر انجام دینے کے لیے اپنی جان کی بازی لگائی اور کے ٹو کی بلندیوں پر برف ہی میں دفن ہو گئے۔
ان کے لیے دنیا ابھی تک اشک بار ہے۔ یہ محمد علی سدپارہ تھے اور ساجد ان کے منجھلے بیٹے ہیں۔ ساجد سدپارہ نے مئی 2023 میں اکیلے بغیر آکسیجن کے ماؤنٹ ایورسٹ اور ایناپورہ کو بھی سر کیا ہے۔
واجد کا تعلق ضلع نگر سے ہے اس لیے واجد نگری کے نام سے مشہور ہیں۔ نگر سے کوہ پیمائی کے حوالے سے کوئی سابقہ اتنی بڑی روایت موجود نہیں جس طرح کی شمشال، ہنزہ، سدپارہ اور ہوشے میں ہے۔
واجد نگری ایک لحاظ سے یہاں کے لیے ٹرینڈ سیٹر ہیں کہ انہوں نے نگر کے نوجوانوں کو اس پر کشش مہماتی دنیا کی طرف بھی متوجہ ہونے کا راستہ ہموار کیا ہے۔
نانگا پربت سر کرنے سے پہلے واجد نگری نے اس سے پہلے کے ٹو، براڈ پیک اور راکاپوشی اور کئی اور پہاڑ سر کر رکھے ہیں اور وہ ’راکا پوشی کا سلطان‘ کہلاتے ہیں کیونکہ یہی علاقہ ان کی جنم بھومی ہے۔
یوسف علی کا تعلق ضلع گانچھے کی ہوشے وادی سے ہے۔ مشہ بروم پہاڑ کے دامن میں واقع گاؤں ہوشے کوہ پیمائی کی دنیا میں جادوئی مقام رکھتا ہے۔
اسی گاؤں سے یکتائے زمانہ غلام علی، روزی علی، روزی کریم پا، علی درانی اور سب سے بڑھ کر لٹل کریم جیسے جواں مرد نکلے اور پوری دنیا میں ان کی دھوم مچ گئی اور ان پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی روایت کو برقرار رکھنے ہوئے اب یوسف علی نے نانگا پربت کو زیر کر دیا ہے اور اب وہ دیگر پہاڑوں اور چوٹیوں پر کمند ڈال رہے ہیں۔ گو کہ 55 سال کے ہو گئے ہیں مگر ہمت اب بھی جوان اور معرکوں پر تلی ہوئی ہے۔
یوسف نے اس سے پہلے کے ٹو، براڈ پیک سمیت کئی بلند پہاڑوں کو سر کر لیا ہے اور یہ آبلہ بائی اب بھی اسی تمکنت کے ساتھ جاری ہے۔
محمد مراد سدپارہ جواں سال منفرد کوہ پیما ہیں جو ایک الگ دنیا بنا رہے ہیں۔ ان کے رستے جدا اور منفرد ہیں۔ 2022 میں انہوں نے کے ٹو کی چوٹی پر اپنا سوٹ اتار کر خطرناک ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اب جون 2023 میں انہوں نے ایک ہفتے میں دو دفعہ نانگا پربت سر کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آٹھ ہزار بلند ایک پہاڑ کو سر کرنے بعد بندہ کافی دنوں کے لیے نڈھال ہو جاتا ہے مگر نہ جانے محمد مراد سدہارہ میں کیا پارہ بھرا ہوا ہے کہ ان سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا ہے۔ ان کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنے منفرد اور جان لیوا ریکارڈز کی وجہ سے الگ پہچان بنائیں گے۔
گو کہ جون 2023 میں گلگت بلتستان کے 10 کے قریب افراد نے نانگا پربت سر کیا ہے، سب کے سب ہیرو ہیں اور قابل ستائش ہیں، لیکن تنگ دامانی کالم کی وجہ سے صرف چند ایک کا تمثیلی پیرائے میں ذکر کیا ہے جو درحقیقت ان سب کی اجتماعی داستان ہے۔
سب کی کہانیاں یکساں ہے، سب دورافتادہ اور پس ماندہ دیہات اور گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں، اکثر نے پورٹر بن کر اس فیلڈ کا آغاز کیا ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی کوہ پیمائی کے کسی سکول کا دروازہ دیکھا ہے اور نہ ہی ایڈونچر ٹوارزم کے کسی ادارے سے کوئی باضابطہ تربیت حاصل کی ہے اور جاتے بھی کہاں؟ خیر سے گلگت بلتستان بلکہ پاکستان میں بھی ایسا کوئی پریکٹیکل تربیت دینے کا ادارہ کہاں موجود ہے۔
ان مقامی جانبازوں میں سے کسی کو بھی قومی سطح کی کوئی قابل ذکر پشت پناہی بھی حاصل نہیں رہی ہے لیکن ان سب نے اپنی ہمت، حوصلے اور بلند عزم کی بدولت نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے اور کامیابی کا یہ سفر جاری ہے۔ ؎
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی