بےنظیر بھٹو کو جب 1988 میں کسی بھی مسلمان ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز ملا اس وقت مریم نواز شریف کی عمر 15 سال تھی۔
تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ بچی جسے ڈاکٹر بننے کا شوق ہے وہ ایک دن سیاست میں قدم رکھے گی اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل کر لے گی۔
شاید بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ جدید جمہوری تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی کسی مغربی ملک کے پاس نہیں بلکہ ایک جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا کے پاس ہے جہاں 1960 میں سریماو بندرانائیکے پانچ سال کے لیے وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق دسمبر 2023 تک اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 13 کی سربراہانِ حکومت خواتین ہیں جن میں سے سات ملک یورپ کے ہیں۔
اس کے علاوہ 1960 سے 2023 تک 59 ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین سربراہِ حکومت رہ چکی ہیں۔ وہ ممالک جہاں عورتوں نے سب سے زیادہ حکمرانی کی ہے ان میں بنگلہ دیش سر فہرست ہے جہاں عورتوں کی حکمرانی کا عرصہ 29 سال ہے جبکہ سری لنکا 22 سال کے ساتھ دوسرے، ناروے 18 سال کے ساتھ تیسرے، انڈیا، نیوزی لینڈ اور جرمنی 16,16 سال کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔
مریم نواز کو قیام پاکستان کے بعد پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننے کا اعزاز ضرور نصیب ہوا ہے اور اس حوالے سے یہ اعزاز یکتا بھی ہے کہ لگ بھگ پونے 13 کروڑ کی آبادی والے صوبے میں جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہو کر وہ اس منصب تک پہنچی ہیں۔ لیکن مریم نواز سے پہلے بھی پنجاب کی تاریخ میں ایسے خواتین سامنے آتی رہی ہیں جو اپنی اپنی راجدھانیوں پر حکومت کرنے کا اعزاز پا چکی ہیں۔ ان میں رانی منگلا، رانی منگھو اور مہارانی جند کور شامل ہیں۔
رانی منگلا جو پنجاب کی پہلی خاتون حکمران بنیں
یہ مئی 326 ق م کا سال تھا جب دریائے جہلم کے کنارے فاتح عالم سکندر مقدونی کا مقابلہ پنجاب کے حکمران راجہ پورس سے ہوا۔ تاریخ کا کوئی دوسرا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یونانی مؤرخین کے بقول سکندر فاتح رہا۔ اس جنگ میں پورس کی شجاعت سے سکندر اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے پورس کی حکمرانی بحال کر دی۔ اس کے بعد پورس کا کیا ہوا؟ ڈاکٹر بدھا پرکاش کی کتاب ’مہاراجہ پورس‘ میں لکھا ہے وہ پورس جو سکندر سے بچ گیا تھا اسے کوٹلیہ چانکیہ نے ایک سازش سے مروا دیا۔
سکندر اور پورس کی لڑائی میں پورس کا داماد راجہ اجے دت بھی مارا گیا جو جموں کے علاقے کا حکمران بتایا جاتا ہے۔ جس کے بعد پورس کی بیٹی منگلا رانی نے اپنے باپ اور خاوند کی سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ منگلا ایک خوبصورت، جنگجو اور اعلی ٰ اوصاف کی مالک رانی تھی۔ اس کی راجدھانی منگلا ڈیم کے کنارے قلعہ منگلا میں تھی جو آج بھی موجود ہے۔
رانی منگلا نے کاروبار حکومت احسن طریقے سے چلایا، لیکن پھر اس کی زندگی کا رخ بدل گیا اور اس نے ایک جوگن کا روپ اختیار کر لیا۔ ذہنی سکون کے متلاشی لوگ دور دراز سے اس کے ہاں آتے اور دل کی تسکین پاتے۔ وہ روحانی نغمے گاتی اور لوگ وجد میں رقص کناں ہوتے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس نے منگل کا دن درشن کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اسی نسبت سے وہ منگلا دیوی کہلائی۔ آج بھی اس قلعے میں تین مندر موجود ہیں۔
البیرونی نے لکھا ہے کہ اس نے رانی منگلا کی مورتی اس قلعے میں موجود مندر میں دیکھی تھی۔ لیکن شاید لوگ منگلا رانی اور منگلا دیوی کو ایک ہی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دو مختلف کردار ہیں۔ منگلا دیوی جس کا ذکر مہا بھارت میں بھی ہے اس کا تعلق مالابار سے تھا اور ا س کا اصل نام پریمالا تھا، جو جوگن بنی اور ہندو مت میں اسے دیوی کا درجہ ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی منگلا دیوی کے نام پر بھارت کا شہر منگلورو (سابق نام بنگلور) ہے۔
منگلا رانی جو راجہ پورس کی بیٹی تھی اس نے اپنے باپ اور خاوند کے مرنے پر عنانِ حکومت سنبھالی اور اسے احسن طریقے سے چلا یا۔ حتیٰ کہ آج کم و بیش 2350 سال گزرنے کے باوجود بھی اس کا نام تاریخ سے محو نہیں ہوا اور اسے پنجاب کی معلوم تاریخ میں پہلی خاتون حکمران ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
رانی منگھو ایک گکھڑ رانی
پوٹھوہار جس کی سرحدیں دریائے سندھ سے جہلم کے درمیان سمجھی جاتی ہیں وہ تاریخ میں ایک قبائلی سماج رہا ہے جہاں پر 1008 سے 1765 تک گکھڑ قبیلے کی حکمرانی رہی ہے۔
بعض ادوار میں تو ایسے گکھڑ حکمران بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی سلطنت لاہور تک پھیلا دی تھی۔ گکھڑ خود کو کیان ایران کے شاہی خاندان سے موسوم کرتے ہیں جو سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہمرکاب آئے تھے اور پھر یہیں رچ بس گئے۔
دوسری جانب تاریخ فرشتہ سمیت کئی مورخین انہیں مقامی قبیلہ سمجھتے ہیں جو پورس کے ساتھ سکندر کے خلاف لڑنے کے لیے ہمالیہ کے اوپر کے علاقوں سے آیا تھا اور پھر یہیں رچ بس گیا۔
کگھڑ مقامی ہیں یا باہر سے آئے ہیں اس پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ جس نے بھی تختِ دہلی پر قبضہ کیا اسے گکھڑوں کی فوجی مدد حاصل رہی۔ انہی گکھڑوں میں ایک سلطان راجڑ خان تھے جنہوں نے دریائے جہلم کے کنارے دان گلی کے مقام پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر قلعہ بنایا تھا جس کے آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی راجڑ خان کی اولاد میں سلطان اللہ داد خان گزرے ہیں جن کی شادی ریاست مکھیالہ کے جنجوعہ سردار کی بیٹی رانی منگھو سے ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں بہت زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کی وجہ سے راجہ اللہ داد خان کا جی حکمرانی سے اچاٹ ہو گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سلطان دلاور خان کے نابالغ ہونے کی وجہ سے عنانِ اقتدار اپنی بیوی رانی منگھو کے سپرد کر دیا اور خود جنگلوں میں نکل گئے۔
رانی منگھو نے خوش اسلوبی سے کاروبار ِحکومت چلایا اور رعایا کے لیے کئی فلاحی منصوبے شروع کیے، زراعت کے فروغ کے لیے چھوٹے چھوٹے بند اور نہریں تعمیر کروائیں، پانی کے کنویں کھدوائے، دان گلی اور رام کوٹ قلعوں کی تعمیرِ نو کروائی اور اپنے زیر ِاثر علاقے میں امن و انصاف کو رواج دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کی ایک بیٹی کی شادی اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے اکبر ثانی کے ساتھ ہوئی تھی۔
ستی قوم کا ایک سردار ہیبت خان رانی منگھو کی مخالفت عورت ہونے کی وجہ سے کرتا تھا جس پر رانی منگھو نے اسے قلعے کی دیوار میں چنوا دیا۔ رانی منگھو اور ان کے خاوند سلطان اللہ داد خان سے کئی واقعات منسوب کیے جاتے ہیں جن کی تصدیق کے لیے گکھڑوں کی اپنی روایات کے علاوہ کوئی اور حوالہ دستیاب نہیں ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ گکھڑ رانی تھیں جنہوں نے شمالی پنجاب پر حکمرانی کی۔
مہارانی جند کور پنجاب میں مزاحمت کی علامت
مہارانی جند کور پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی بیوی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی سلطنت کی سرحدیں کابل سے دہلی تک تھیں انہوں نے 20 شادیاں کر رکھی تھیں۔ آخری شادی 55 سال کی عمر میں 1835 میں گوجرانوالہ کی 18 سالہ جند کور سے کی جو اپنی خوبصورتی اور ذہانت کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ 1838 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال سے ایک سال پہلے جند کور سے ان کا ایک بیٹا دلیپ سنگھ پیدا ہوا۔
1843 میں جب دلیپ سنگھ صرف پانچ سال کا تھا تو اسے تخت لاہور پر بٹھا دیا گیا یوں عملاً اقتدار مہارنی جند کور کے پا س آگیا۔ وہ دو سال تک پنجاب کی ایسی حکمران رہیں جن کا ذکر انگریز بھی ایک بہادر اور نڈر جنگجو کے طور پر کرتا تھا۔ مہارانی جند کورکو جب اقتدار ملا اس وقت پنجاب محلاتی سازشوں میں گھرا ہوا تھا۔ فوج شدید تنزلی کا شکار تھی اور خزانہ خالی ہو چکا تھا۔
عزیز الدین احمد اپنی کتاب ’پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘ میں لکھتے ہیں کہ مہارانی جند کور کو اس بحران کا ایک ہی حل نظر آیا کہ انگریزوں کے خلاف فوج کشی کرے تاکہ پنجابی فوج اور عوام ایک دشمن کے خلاف متحد ہو جائے جو اس کی سرحدوں پر کسی مناسب موقعے کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔
’مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی پر خالصہ فوج نے عہد کیا کہ وہ انگریز کو نیست و نابود کر کے دم لے گی۔ 11 دسمبر 1845 کو پنجاب کی فوج دریائے ستلج عبور کر کے انگریزی علاقے میں داخل ہو گئی۔ فوج کی اعلی ٰ قیادت انگریزوں سے ملی ہوئی تھی اس لیے شکست کے باوجود اس نے انگریزی فوج کے دو جرنیل مار دیے۔‘
پنجابی فوج کا دوسرا معرکہ فیروز پور میں ہوا جہاں لارڈ ہارڈنگ انگریزی فوج کی قیادت کر رہا تھا، اس نے لکھا کہ ’ہندوستان میں انگریزوں کا اس سے پہلے کسی نے اتنا سخت مقابلہ نہیں کیا۔‘
اس لڑائی میں بھی ایک بریگیڈیئر اور میجر مارے گئے۔ تیسرے معرکے میں میجر جنرل سر رابرٹ ڈک جان مارا گیا مگر جنرل تیجا سنگھ کی غداری کی وجہ سے پنجابی فوج کے آٹھ ہزار سپاہی مارے گئے اور انگریز فوج 12 فروری 1846 کو پنجاب میں داخل ہو گئی۔
آٹھ مارچ کو انگریز فوج اور لاہور دربار میں معاہدہ ہو گیا جس کے تحت ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان کے بدلے انگریز نے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو خود مختار حکمران، اس کی ماں مہارانی جند کور کو ایجنٹ اور لال سنگھ کو وزیر تسلیم کر لیا۔
پنجاب کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے تاوان کے طور پر انگریز نے ستلج اور بیاس کے درمیان کا دو آبہ اور کشمیر لے لیا اور کشمیر میں مہاراجہ گلاب سنگھ کو خود مختار حکمران بنا دیا۔
ادھر انگریز نے پنجاب میں قیام کی عبوری مدت میں توسیع کی غرض سے لاہور میں دربار منعقد کیا جس میں پنجاب کے 52 سرداروں نے دستخط کیے اور مہارانی جنداں کے اختیارات انگریز ریزیڈنٹ کو سونپ دیے گئے۔
طے پایا کہ جب مہاراجہ دلیپ سنگھ 1854 میں 16 سال کا ہو جائے گا تو اسے اقتدار سونپ دیا جائے گا۔
گورنر جنرل لارڈ ہارڈنگ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی راہ میں مہارانی جند کور کو خطرہ محسوس کرتے تھے اس لیے اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ انگریز سرکار کے خلاف سازش کر رہی ہے جس کی پاداش میں اسے قید کر لیا گیا۔
مہارانی جند کور پر ہونے والے مظالم کی وجہ سے پنجاب کے عوام مشتعل ہو گئے اور انہوں نے انگریز کے خلاف بغاوت کر دی جو ملتان، گجرات اور ہزارہ تک پھیل گئی۔ انگریز فوج کو چلیانوالہ میں شرمناک شکست ہوئی مگر گجرات میں انہیں فتح ملی۔ یوں انگریزوں کو پنجاب پر قبضے کا بہانہ مل گیا۔
پنجابی فوج کے آخری جرنیل شیر سنگھ نے 14 مارچ 1848 کو مانکیالہ راولپنڈی کے مقام پر ہتھیار پھینک دیے جس پر ایک بوڑھے سکھ سردار نے اپنی تلوار کو بوسہ دیتے ہوئے جنرل گلبرٹ کے قدموں میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ’رنجیت سنگھ اصل میں آج مرا ہے۔‘
مہارانی جند کور جیل سے فرار ہو کر 1849 میں نیپال پہنچ گئیں۔ انگریزوں نے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو تعلیم و تربیت کے لیے لندن بھیج دیا جہاں اس نے عیسائیت قبول کر لی۔
1861 میں دلیپ سنگھ واپس آ کر کلکتہ میں اپنی ماں سے ملا۔ اسے اپنی ماں کے ساتھ لندن واپسی کی اجازت مل گئی۔ لندن کے حکام مہارانی جندکور کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اسے خطرہ سمجھتے تھے اور واپس ہندوستان بھجوانا چاہتے تھے، جبکہ ہندوستان کی انگریز انتظامیہ چاہتی تھی کہ مہارانی لندن میں ہی رہے تاکہ یہاں وہ کسی نئی بغاوت کی وجہ نہ بن جائے۔ اسی کشمکش میں یکم اگست 1863 کو اس کا لندن میں انتقال ہو گیا۔
چار سال پہلے لندن میں مہارانی جندکور کے زیورات کی نیلامی ہوئی تھی۔
اسے ہندوستان کی تاریخ میں انگریز کے خلاف ایک باغی خاتون حکمران کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔