پنجاب اسمبلی کی پیر کی کارروائی کے دوران سبز ہلالی پرچم کے رنگ کا جوڑا زیب تن کیے مریم نواز کے ساتھ کی نشست پر مریم اورنگزیب بیٹھی تھیں۔ دونوں کے درمیان گفتگو کا تسلسل مسلسل برقرار رہا۔
سنی اتحاد کونسل کے ٹوکن واک آؤٹ کے بعد انہیں بلانے کے لیے حکومتی بینچوں سے کچھ اراکین اسمبلی گئے مگر وہ نہ مانے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی بھی کیا کرتے اسمبلی کی گھنٹیاں بھی بجوائیں مگر کوئی واپس نہ آیا تو انہوں نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی ووٹنگ شروع کروا دی۔
مسلم لیگ ن کے حمایتوں نے ایک طرف لمبی لائن بنائی تاکہ ان کے لیے مختص کی گئی لابی میں وہ ووٹ ڈال سکیں اور وہاں سے ایوان سے باہر کی لابی میں نکل جائیں۔
قطار چونکہ لمبی تھی اس لیے کچھ اراکین نے اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کے ساتھ تصاویر بنانے شروع کر دیں۔
بس پھر کیا تھا ایوان کے اندر ایک اور قطار بن گئی اور ایک ایک کر کے کئی ایم پی ایز مریم کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے رہے اور کیمروں کی کلکس سنائی دیتی رہیں۔
ووٹنگ اور گنتی کے بعد جب اراکین اسمبلی ایوان میں واپس آئے تو ایک بھگڈر سی مچ گئی اور اس بھاگم دوڑ میں خواتین اراکین بھی شامل تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوا کہ جیسے یہ سب مریم نواز کے بالکل پیچھے والی نشست تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
ایوان میں ویسے تو کوئی مہمان یا کوئی فون یا دیگر کوئی شے لانے کی اجازت نہیں تھی مگر پھر نہ جانے کیسے میاں نواز شریف کی تصویروں والے پلے کارڈز ایوان کے اندر پہنچ گئے جن میں ہر ایک چھوٹے سے ڈنڈے کے ساتھ منسلک تھا، ایک ڈھیر کی شکل میں ایوان کے ڈیسک پر پڑے تھے۔
یہاں تک کہ جن نشستوں پر مسلم لیگ ن اور ان کے حمایتی بیٹھے تھے ان ڈیسکوں پر بھی یہ تصاویر موجود تھیں۔
مریم نواز کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے پر ایوان مسلم لیگ ن کے حق میں نعروں سے گونج اٹھا اور مریم نواز نے ہاتھ ہلا اور جوڑ کر حمایتیوں کا شکریہ ادا کیا۔