شہباز شریف وزیراعظم اور مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب نامزد

پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔

عام انتخابات 2024 کے نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اتنی نشستیں نہیں ہیں کہ وہ اپنی حکومت بنا سکے لہذا مختلف سیاسی جماعتیں حکومت سازی کے لیے سیاسی رابطے کر رہی ہیں جبکہ دوسری جانب چند سیاسی جماعتوں نے ’مینڈیٹ چوری‘ کیے جانے کے الزامات عائد کیے ہیں اور احتجاج کر رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو رد کیا ہے۔ ملک کی سیاسی و سکیورٹی صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو کی لائیو اپ ڈیٹس۔


13 فروری رات 10 بجکر 45 منٹ

پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیر اعظم اور مریم نواز کو وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے منگل کی شب ایکس پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ’قائد جناب محمد نوازشریف نے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عہدے کے لیے جناب محمد شہباز شریف اور وزیراعلی پنجاب کے عہدے کے لیے محترمہ مریم نواز شریف کو نامزد کیا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’محمد نواز شریف نے پاکستان کے عوام اور سیاسی تعاون فراہم کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان معاشی خطرات، عوام مہنگائی سے نجات پائیں گے۔‘


13 فروری رات 10 بجکر 10 منٹ

پاکستان کی چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مل کر ملک میں حکومت بنائیں گے۔

اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ پر منگل کو ہونے والے اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سمیت ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، صادق سنجرانی اور علیم خان نے مشترکہ پریش کانفرنس کی ہے۔

اس مشترکہ پریس کانفرنس کا آغاز سابق صدر آصف زرداری نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’ہم میں فیصلہ کیا ہے کہ ہم مل کر حکومت بنائیں گے۔‘

آصف زرداری نے کہا کہ ’مصالحت کا عمل جاری رہے گا جس میں پاکستان تحریک انصاف کو بھی شامل ہونا چاہیے۔‘

ان کے بعد وہاں موجود تمام رہنماؤں نے باری باری پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایت کا اعلان کیا جس پر شہباز شریف نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

شہباز شریف نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیراعظم کے امیدوار کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ نواز شریف سے درخواست کریں گے کہ وہ ہی وزیراعظم کا عہدہ سنبھالیں۔

تاہم انہوں نے یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ ’مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب کی امیدوار ہیں جو ہمارا متفقہ فیصلہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’‏دھرنا اور لانگ مارچز والوں کو پیغام دیتا ہوں کہ یہ دھرنوں اور لانگ مارچز کا نہیں بلکہ غربت ختم کرنے کا وقت ہے۔‘

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’پاکستان سے زیادہ کوئی ترجیح نہیں ہے۔ شہباز شریف کا پہلے بھی ساتھ دیا اور اب بھی ساتھ دیں گے۔‘


13 فروری رات نو بجکر 52 منٹ

پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر حکومتوں میں گھس بیٹھنے والوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اس ’مس ایڈونچر‘ سے گریز کریں‘۔

عمران خان کا یہ پیغام ان کے ایکس اکاؤنٹ سے جاری کیا گیا ہے، جس پر لکھا گیا ہے کہ ’عمران خان نے یہ پیغام جیل سے اپنے اہلِ خانہ کے ذریعے بھجوایا ہے۔‘

اس پیغام میں عمران خان نے کہا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف کو بالکل واضح اور دوٹوک انداز میں دو تہائی اکثریت سونپنے پر میں پاکستان کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ عوام کا کثیر تعداد میں انتخابی عمل میں شرکت کے لیے نکلنا نہایت حوصلہ افزا تھا۔‘

’چونکہ پاکستان کے عوام نہایت واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں اس لیے اب پاکستان کو شفاف انتخابات اور جمہوریت کی اشد ضرورت ہے۔‘

اس پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عوام کے ووٹ پر دن دیہاڑے ایسے ڈاکے سے شہریوں کی توہین ہی نہیں ہوگی بلکہ ملکی معیشت تباہی کے گھڑے میں مزید گہرائیوں میں جا پڑے گی۔‘

’پاکستان تحریک انصاف عوام کی منشا پر کسی طور سمجھوتہ نہیں کرے گی اور میں نے اپنی جماعت کو واضح طور پر ہدایات دی ہیں کہ پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت کسی بھی ایسی سیاسی جماعت سے معاملہ سازی ممکن نہیں جس کے دامن پر عوام کا مینڈیٹ چرانے کے داغ ہوں۔‘


13 فروری شام 5 بجکر 12 منٹ

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو کہا ہے کہ وہ خود کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر پیش نہیں کر رہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔

پیپلز پارٹی کے اسلام آباد میں سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پیپلز پارٹی کے پاس حکومت بنانے کا منڈیٹ نہیں ہے۔ اس لیے میں خود کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر نہیں پیش کرتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جماعت وفاقی کابینہ میں شمولیت میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی۔ تاہم سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی سے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے اور مسلم لیگ ن واحد جماعت ہے جس نے ہم سے حکومت سازی کے لیے رابطہ کیا ہے۔‘

تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی جماعت وزارتیں بھی نہیں لے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے والد آصف علی زرداری کو ملک کا صدر ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ تمام فیصلے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کیے ہیں۔


13 فروری دوپہر 4 بجکر 45 منٹ

پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے منگل کو کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے مرکز میں اور پنجاب میں مجلس وحدت المسلمین سے اتحاد کی منظوری دے دی ہے۔

رؤف حسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے ہدایت کی ہے کہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں کے لیے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف کے بین الاقوامی میڈیا سیل کے مطابق پارٹی نے صوبہ پنجاب میں مجلس وحدت المسلمین جبکہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔


13 فروری دوپہر 3 بجکر 4 منٹ

علی امین گنڈا پور وزیراعلی خیبرپختونخوا نامزد

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ علی امین گنڈا پور کو وزیراعلی خیبر پختونخوا نامزد کیا جا رہا ہے۔ 

نو مئی کے کیسز کی سماعت کے بعد عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اڈیالہ جیل  کے کمرہ عدالت میں میڈیا نمائندگان سے غیر رسمی بات چیت کی۔ اس دوران 
عمران خان نے کہا کہ ’وزیراعظم کے لیے ابھی کسی نام پر اتفاق نہیں ہوا اس پر غور کروں گا۔‘

علی امین گنڈاپور 2018 میں مرکز میں پی ٹی آئی کی بننے والی حکومت میں وفاقی وزیر برائے امور کشمیر رہ چکے ہیں جبکہ 2013 میں جب پی ٹی آئی نے پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی تھی اس وقب علی امین گنڈاپور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔

عمران خان نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ انہوں نے پارٹی کے 
سیکرٹری اطلاعات روف حسن سے کہا ہے کہ وہ تین جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ سب سے بات کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے والی تمام جماعتوں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ عمران خان کہا کہ جیل میں کسی بھی اعلی سرکاری عہدے دار سے ان کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔


13 فروری دوپہر 1 بجکر 57 منٹ 

نواز شریف وزارت عظمٰی کی دوڑ سے دستبردار ہو جائیں: خورشید شاہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی پی پی نے نواز شریف کو وزارت عظمی کے عہدے سے دستبردار ہونے کا مشورہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو اخلاقاً وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نہیں بننا چاہیے کیوں کہ ان کے لاہور سے انتخاب پر کئی سوالیہ نشان ہیں اور یہ تاثر عام ہے کہ انہیں جتوایا گیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کے عہدے کے لیے شہباز شریف یا ایاز صادق بھی متبادل امیدوار ہو سکتے ہیں۔ ’بطور سیاسی ورکر میری یہ رائے ہے کہ ہمیں کسی کے مینڈیٹ پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے، پیپلز پارٹی کسی اور جماعت کے منتخب ممبر کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرے گی۔‘

خورشید شاہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ممبران اسمبلی کو نہیں توڑنا چاہیے اور اصل مینڈیٹ ان اراکین کے پاس نہیں بلکہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔

’مسلم لیگ نواز کو بھی تعداد کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ ن لیگ کو اپنے بیانیے ووٹ کو عزت دو کا پاس رکھنا چاہیے۔‘


13 فروری دوپہر 1 بجکر 41 منٹ

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر آزاد امیدوار قومی اسمبلی میں حکومت بنا سکتے ہیں تو بنائیں، ہم شوق سے اپوزیشن میں بٹھیں گے۔

شہبازشریف نے منگل کو لاہور میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ الیکشن سے ثابت ہوگیا کہ آزاد امیدواروں کے نمبر زیادہ ہیں، اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے لیکن سیاسی جماعتوں میں ن لیگ سب سے آگے ہے اور اس کے بعد پیپلز پارٹی ہے اور درجہ بدرجہ دوسری پارٹیاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب میں سمجھتا ہوں کہ اگلا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے، اگلے مرحلے میں پارلیمان میں معرض وجود میں آئے گا۔ اگر آزاد ممبران حکومت بنا سکتے ہیں تو بڑے شوق سے بنائیں، صدر نے ان کو دعوت نہیں دینی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب آئین کا تقاضا یہ ہے جس کی بھی تعداد زیادہ ہے وہ سپیکر کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پھر اس ووٹنگ ہوتی ہے، لہذا اگر آزاد ممبر اکثریت دکھا دیں گے تو ہم بڑے شوق سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں گے اور اپنا آئیںی کردار ادا کریں گے۔ اگر وہ حکومت نہیں بنا سکتے تو ہاؤس کی دوسری سیاسی جماعتیں باہمی مشاورت سے اپنا فیصلہ کریں گی۔ یہ آئینی جمہوری طریقہ ہے اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘

مسلم لیگ ن کے صدر نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پنجاب میں ہماری اکثریت ہے اور مرکز میں سب سے بڑی سیاسی جماعت ہیں اور اب ہمارے آزاد ممبران کو ملا کر تعداد 80 تک جا پہنچی ہے، ہماری ملاقاتیں ابھی جاری ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کے باوجود میں نے کہا کہ یہ سب کچھ آئین، قانون اور جمہور کے تابع ہے، اگر آزاد ممبران حکومت بنا سکتے ہیں تو بنا کر دکھا دیں، ہم خوشی سے قبول کریں گے اور اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ لیکن اگر نہیں بناتے تو ہم اپنا آئینی، قانونی اور جمہوری کردار ادا کریں گے۔‘


13 فروری صبح 10 بجکر 57 منٹ

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا ایک وفد جیل میں قید عمران خان سے منگل کو ملاقات کرے گا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جائے۔

جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں جماعتوں کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت سازی سے متعلق اہم معاملات پر منگل کو اعلانات ہو سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر موجود ایک ویڈیو میں بیرسٹر گوہر کہہ رہے ہیں کہ ’تحریک انصاف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں بیٹھے گی۔ ہم نے کس جماعت کے ساتھ جانا ہے اس کا فیصلہ کل (منگل کو ) عمران خان سے ملاقات کے بعد شام تک ہو جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ آئندہ  دو روز میں سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے لیے ناموں کا اعلان کر دیا جائے گا جبکہ وزارت عظمٰی کے منصب کے انتخابات کے لیے نام پر فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان میں گذشتہ ہفتے ہونے والے عام انتخابات کے بعد سامنے آنے والے نتائج کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں اتنی نشستیں نہیں ملیں کہ وہ اپنی حکومت تشکیل بنا سکے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے انتخابات میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ 93 نشستیں حاصل کیں جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین کو صوبے میں حکومت سازی کے لیے واضح اکثریت ملی۔

لیکن کیوں کہ آزاد امیدوار حکومت نہیں بنا سکتے اس لیے انہیں کسی جماعت میں شامل ہونا گا۔ آزاد امیدوار اس وجہ سے ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بطور پارٹی الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔
 


13 فروری صبح 10 بجکر 40 منٹ

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بھی حکومت سازی کے لیے رابطے

سابق وزیراعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن کو الیکشن میں 75 نشستیں ملی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی نشستوں کی تعداد 54 ہے۔ دونوں جماعتیں مخلوط حکومت بنانے کے لیے بات چیت کر رہی ہیں۔

قومی اسمبلی کی کل 336 نشستوں میں سے 264 نشستوں پر براہ راست انتخابات کے لیے امیدوار میدان میں تھے، اس کے علاوہ 70 مخصوص نشستیں بھی ہیں۔

جیتی گئی نشستوں کی تعداد کے تناسب سے پارٹیوں کے لیے 70 نشستیں مختص کی گئی ہیں جن میں خواتین کی 60 اور غیر مسلموں کی 10 نشستیں شامل ہیں۔ آزاد امیدوار مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہیں۔

اگر پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کا حصول چاہتی ہے تو اس کے لیے اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کسی جماعت میں شامل ہونا ہو گا۔


13 فروری صبح 10 بجکر 30 منٹ

پیپلز پارٹی کا فیصلہ بھی آج متوقع

اختتام ہفتہ مسلم لیگ (ن) کے وفد نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے لاہور میں ملاقات کی تھی جس میں سیاسی تعاون پر اتفاق کیا گیا۔ تاہم سیاسی تعاون اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حکومت سازی کی تجویز پر غور کے لیے پیپلز پارٹی  کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس پیر اسلام آباد میں ہوا لیکن اس میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

پیپلز پارٹی  کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس منگل کو بھی جاری رہے گا جس کے بعد کسی حتمی اعلان کی توقع ہے۔

پیر شب میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کی ایک مرکزی رہنما شیری رحمٰن نے کہا کہ ’انتخابات میں ہونے والے بے ضابطگیوں کا جائزہ لے رہے ہیں، الیکشن کے حوالہ سے چاروں صوبوں میں تحفظات ہیں، کمیٹی تشکیل دی جاری ہے جو تمام دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کرئے گی، سی ای سی کا اجلاس کل بھی جاری رہے گا جس کے بعد حتمی اعلامیہ پیش کیا جائے گا۔‘

ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دعویٰ کیا ہے کہ اسے ملک میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔
 

اب تک کئی آزاد امیدوار بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ ن لیگ حکومت سازی کے لیے وہ دیگر پارٹیوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست