لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کو دو سالوں میں تین مرتبہ نقصان پہنچایا جا چکا ہے۔ یہ معاملہ محض قانون کا نہیں، سماج کی فکری اور نفسیاتی گرہوں کا بھی ہے۔ اس کا حل بھی صرف قانون کے نفاذ سے ممکن نہیں، اس کے لیے سماج کی ان گرہوں پر توجہ دینا ہو گی جو ہم نے شوق سے اپنے ہاتھوں سے لگائیں اور اب دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہی ہیں۔
رنجیت سنگھ کا مجسمہ پہلا مجسمہ نہیں جو اس ’حسن سلوک‘ کا شکار ہوا۔ قومی ہیرو اور اولمپین سمیع اللہ کے مجسمے کے ساتھ اس سے بھی بد تر سلوک ہوا۔
لاہور میں سر گنگا رام جیسے عظیم انسان کا مجسمہ ہوتا تھا ان کے گلے میں لوگوں نے جوتوں کے ہار پہنا دیے اور اسے توڑ دیا۔
برسوں پہلے منٹو نے اس کا نوحہ لکھا تھا۔ لاہور مال روڈ پر لالہ لاجپت رائے کے مجسمے کا بھی یہی حشر ہوا۔ کراچی میں گاندھی کا مجسمہ ہوتا تھا، توڑ دیا گیا۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے باہر کنگ ایڈورڈ کا اور دیال سنگھ کالج کے باہر دیال سنگھ کا مجسمہ ہوتا تھا، دونوں توڑ دیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں سابق وائس چانسلر الفریڈ وولنر کا مجسمہ ابھی قائم ہے مگران کے نام پر سپرے گن کے ساتھ ایک طلبہ تنظیم کا نام لکھ دیا گیا اور اس کے کتبے کے دائیں جانب ایک اور طلبہ تنظیم نے نیلی روشنائی سے اجتماع عام کا اعلان تحریر کر رکھا ہے۔
یہ سب کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ اس کی وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہو گا۔
اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر عوام کا سیاسی اور نفسیاتی استحصال کیا گیا۔ چیئرنگ کراس پر او آئی سی کے مشہور زمانہ اجلاس تک تو مجسمہ لگا رہتا ہے اور کچھ نہیں ہوتا لیکن اجلاس کے دن آتے ہیں تو مجسمہ اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ اور عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کی حکومت اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے دل و جان سے متحرک ہے۔
بھٹو صاحب کی سیاسی ضروریات کے لیے لوگوں کی حس لطیف پر تیشہ چلا دیا گیا۔ رہی سہی کسر ضیاء الحق صاحب کے دور نے پوری کر دی۔
ہمارے ہاں مجسموں کے بارے میں سماجی سطح پر ایک گرہ قائم ہے جسے کسی نے کھولنے کی کوشش نہیں کی۔ مجسموں کو فنون لطیفہ کی بجائے یہاں بت پرستی کے حوالے سے دیکھا جاتا رہا۔
چنانچہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کی سڑکوں اور شاہراہوں کو ’بتوں‘ سے پاک کرنے کی مہم چلی تو پھر نہ گنگا رام جیسے لاہور کے محسن کے مجسمے کو امان ملی نہ پاکستان کے حصے کے اثاثے پاکستان کو دینے کے لیے بھوک ہڑتال کرنے اور اسی دوران مارے جانے والے گاندھی کے مجسمے کو۔
تیسری غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں قومی وحدت اور قومی یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش میں یہ طے کر لیا گیا کہ ہر مقامی شناخت کی نفی کر کے اب ہم نے صرف پاکستانی ہو جانا ہے۔
چنانچہ آج تک کہا جاتا ہے کہ ہم پنجابی، سندھی، بلوچ اور پشتون نہیں، ہم پاکستانی ہیں۔ حالانکہ ہم اپنی مقامی شناخت کے ہر حوالے کو ساتھ رکھ کر بھی اچھے اور سچے پاکستانی ہو سکتے تھے۔
ہم اپنی علاقائی زبانوں سے پیار کرتے ہوئے بھی اردو سے محبت کر سکتے تھے۔ لیکن اس حوالوں اور ان شناختوں سے سوتیلا سلوک کیا گیا اور قومی اسمبلی میں بلوچی یا سرائیکی میں کوئی بات کرنا چاہے تو وہاں مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔
چنانچہ آج اگر کوئی پنجاب کی تاریخ کے حوالے سے رنجیت سنگھ کی بات کرتا ہے تو سماج کا نفسیاتی خود کار دفاعی نظام اسے خطرہ سمجھ کر متحرک ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کسی نے علاقائی زبان کی بات کی تو اسے اردو کے لیے خطرہ سمجھ لیا گیا، کسی نے مقامی ہیرو کی بات کی تو اسے قومی ہیروز کی نفی تصور کر لیا گیا۔ قومی وحدت کی تلاش کا یہ طریقہ فطری نہیں تھا۔
مقامی شناختوں کے موتی ساتھ لے کر قومی وحدت کی مالا پروئی جانی چاہیے تھی۔ کیونکہ اپنی تہذیب اور روایات سے محبت انسان کی فطرت میں ہے۔ اس کا ابطال کیا جائے گا تو رد عمل آتا ہے اور پولرائزیشن بڑھتی ہے۔
ابھی دیکھ لیجیے متوازن انداز سے کوئی بھی دوسرے کو قبول نہیں کر رہا۔ ہر وقت سماج میں صف بندی کی سی کیفیت رہتی ہے۔ کوئی راجہ داہر کو ہیرو بنا رہا ہے اور کوئی رنجیت سنگھ کے رجز پڑھ رہا ہے۔
اس سے ظاہر ہے رد عمل آتا ہے کیونکہ سید احمد شہید اور بالاکوٹ کا معرکہ اس سماج کے حافظے میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ سماج کی حساسیت کا جائز حد تک احترام کرنا چاہیے۔ یہ احترام نہ کیا جائے تو معاشرے کی فالٹ لائنزبڑھتی ہیں اور فالٹ لائنز بڑھاتے چلے جانا حکمت نہیں ہے۔
اس طرز فکر سے بہت نقصان ہوا اور معاشرہ نفسیاتی گرہوں کا شکار ہو گیا۔ وسعت فکر متاثر ہوئی اور لاشعور کا مدافعاتی نظام ہر وقت خطرے کی حالت سے دوچار رہا اور الرٹ رہا۔
پھر جب سماج کو بتایا گیا کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب محمد بن قاسم دیبل کے کنارے پر اترے تھے تو اب گویا بیچ کے 12 سو سال اس کے لیے تاریخ کے کسی پڑاؤ پر رکنا ممکن نہیں رہا۔ اس خطے پر بہت سے ادوار آئے اور وہ بہر حال اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخ سبق بھی ہے، تذکیر بھی اور عبرت بھی۔ کوئی جو چاہے حاصل کر لے لیکن تاریخ کے کسی بھی پڑاؤ کی نفی نہیں کی جا سکتی۔
رنجیت سنگھ بھی ایسا ہی ایک پڑاؤ ہے۔ لاہور ہی میں اس کی ارتھی کو جلایا گیا۔ اس کی سمادھی بھی لاہور شاہی قلعے کے پاس ہے۔ اس کی بیوی رانی جنداں بھی کوئی معمولی کردار نہ تھی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جب انگریز ریزیڈنٹ نے فتح کے بعد رانی جنداں کو ’جلا وطن‘ کیا اور اس کی پنشن کم کی تو افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان نے اس پر احتجاج کیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ دوست محمد خان ہی کے زمانے میں رنجیت سنگھ کے ہاتھوں افغان فوج کو شکست ہوئی تھی اور پشاور ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ افغان فوج کی کمانڈ امیر دوست محمد کا بھائی کر رہا تھا۔ اس کے باوجود جب رنجیت سنگھ نہ رہا اور اس کی رانی سے بد سلوکی کی گئی تو افغانستان کے بادشاہ نے اس بد سلوکی پر انگریز سرکار سے احتجاج کیا کہ رانی جنداں کے ساتھ یہ سلوک تمام مذاہب کے ہاں قابل اعتراض ہے۔
آج کے حالات دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ مسلم معاشرے کی وہ وسعت فکر کہاں گئی؟
رانی جنداں نے لندن میں وفات پائی لیکن اس کی راکھ لاہور لائی گئی اور رنجیت سنگھ کی سمادھی میں رکھی گئی۔ رنجیت سنگھ اور رانی جنداں کا لاہور پر اتنا حق تو مان لیجیے کہ یہاں مائی جنداں کی حویلی کے باہر رنجیت سنگھ کا ایک مجسمہ لگا رہے۔