چند روز قبل لاہور کے علاقے رائیونڈ سٹی میں مقیم ایک بارہ سالہ بچے کے حوالے سے خبر سامنے آئی کہ والدہ کے موبائل فون دینے سے انکار کے نتیجے میں بچے نے مبینہ طور پر اپنی جان لے لی۔
موبائل فون کی بات کریں تو آج کل ہر کسی کے ہاتھ میں نت نیا سمارٹ فون دکھائی دیتا ہے، وہیں اگر بچوں کی بات کریں تو یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ ان سمارٹ فونز میں ان کی دلچسپی کم نہیں ہے۔
ان بچوں کی عمریں دو سال سے بھی کم ہیں جنہیں والدین اپنا فون تھما دیتے ہیں اور وہ اس پر کارٹون وغیرہ دیکھتے ہیں اور اگر ان سے تھوڑی بڑی عمر کے بچے دیکھے جائیں تو وہ ان فونز پر گیمز بھی کھیلتے ہیں۔
بچے فون کتنی دیر استعمال کرتے ہیں اس پر بھی کوئی خاص روک ٹوک نہیں ہے۔
بچوں کو فون کس عمر میں دینا چاہیے اور انہیں ان سمارٹ فونز یا دیگر ایسے آلات پر کیا کچھ دیکھنا ہے اس حوالے سے کیا پاکستان میں کوئی قوانین موجود ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ایسے کوئی قوانین بننے چاہییں؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ایک نوکری پیشہ والدہ میمونہ قیصر سے بات کی جن کے دو بچے ہیں - ایک تین سال کا اور دوسرا تقریباً آٹھ برس کا۔
میمونہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا: 'میں اس وقت شدید فکر مندی کے عالم میں ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میرے ہاتھ سے معاملہ نکل گیا ہے۔ میں نے اپنے بڑے بیٹے کو بہت کم عمری میں فون دینا شروع کر دیا تھا اور یہ زیادہ تب ہوا جب کوویڈ 19 پھیلا۔
’ہم گھر سے کام کر رہے تھے اور بیٹا تب چھوٹا تھا۔ ہماری توجہ مانگتا تھا۔ ہم یا تو کام کر سکتے تھے یا بچے کے ساتھ وقت گزار سکتے تھے بس یہیں ہم سے غلط فیصلہ ہوگیا کہ ہم نے اسے فون پر کارٹون لگا کر دینا شروع کر دیے۔‘
میمونہ نے بتایا کہ ان کا بیٹا گھنٹوں سکرین دیکھتا یہاں تک کہ کھانا کھاتے اور واش روم کے اندر تک وہ فون ساتھ لے کر جاتا۔
’اب اس کی عادت اتنی پکی ہو گئی ہے کہ میں جب اس سے فون لے لوں کہ وہ کچھ پڑھائی لکھائی کر لے تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے، شدید روتا ہے اور یہاں تک کہتا ہے 'ماما فون دے دیں نہیں تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘
میمونہ اپنی یہ غلطی دوسرے بچے کے ساتھ نہیں دہرانا چاہتیں۔ اسی لیے وہ اب اپنے بڑے بیٹے کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس سے ان کے بیٹے کا سکرین ٹائم کم تو ہوگیا ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
ایک اور والدہ عروج عامر کے جو کہ ایک سکول ٹیچر بھی ہیں خیال میں بچوں کو فون دینا یا کوئی اور ڈیوائس جیسے ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ دینے میں کوئی مسئلہ تب تک نہیں ہوگا جب تک آپ اس کی حد مقرر نہ کر دیں۔
'اکسیس آف ایوری تھنگ از بیڈ (ہر چیز کی زیادہ مقدار بری ہے)' یہ تو آُپ نے سنا ہی ہوگا، میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ بچہ ماں باپ کو تنگ نہ کرے اس لیے وہ اسے فون میں مصروف کر دیتے ہیں، بازاروں تک میں مائیں شاپنگ کے دوران بچے کو دکان کی ایک کرسی یا صوفے پر بٹھائیں گی اور فون پر کوئی کارٹون لگا کر اسے مصنوعی دنیا کے حوالے کر دیں گی تاکہ ان کی خریداری میں خلل پیدا نہ ہو۔‘
عروج کا کہنا ہے: 'میں ایک استاد ہوں، جب آپ انٹیلی جینس بیسڈ جیسے تعلیمی نظام میں ہوں یا دوسرا تعلیمی نظام بھی وہاں بچوں کو اس نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت کچھ سکھایا جاتا ہے۔'
'میرے خیال میں بچوں کو اس جدید ٹیکنالوجی اور اس کے ڈیوائسسز سے متعارف کروانا اور ان کا استعمال سکھانا اس نئے دور کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
عروج نے بتایا: 'میرا اپنا بیٹا نو برس کا ہے اور اکثر میں اس سے فون، لیپ ٹاپ یا دیگر ایسی ڈیوائسسز کے مختلف فیچرز کے استعمال کے بارے میں پوچھ رہی ہوتی ہوں اور وہ بڑے اعتماد کے ساتھ مجھے سب چیزیں سمجھاتا ہے۔
عروج نے اپنے بچے کو چند سائٹس دیکھنے کی اجازت دے رکھی ہے وہ بھی ایسی سائٹس جن سے اسے اپنی تعلیم میں مدد ملتی ہے۔ 'کارٹون دیکھنے کے لیے ٹی وی ہے اس پر دیکھیں۔ میں نے گھر میں فون یا ٹیبلٹ کے استعمال کا وقت مقرر کر رکھا ہے جو کہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹا ہے۔ یا تو وہ ایک ہی بار میں یہ وقت پورا کر لے یا وقفوں میں لیکن اس سے اوپر وقت میں جانے نہیں دیتی اور اگر چلا جائے تو اگلے روز ڈیوائس نہیں ملتی اس لیے میرا بیٹا بھی اسی ڈر سے وقت کا پابند ہو چکا ہے۔‘
عروج نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بچے کی ٹیبلٹ پر جو اکاؤنٹ بنائے ہیں وہ انڈر پئیرنٹل گایڈنس ہیں اور اسی لیے وہ جب بھی کوئی گیم ڈاؤن لوڈ کرتا ہے تو اس کے لیے ان کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ یوٹیوب پر ان کا بیٹا جو مواد دیکھ سکتا ہے وہ آٹھ سال کے بچوں کے لیے مناسب ہے۔
عروج کے خیال میں 'قوانین سے زیادہ والدین کا الرٹ ہونا ضروری ہے تاکہ بچہ سیکھے بھی اور دیگر سرگرمیوں اور پڑھائی پر بھی کوئی سمجھوتا نہ ہو البتہ نئے آلات سے بچوں کو متعارف کرونا وقت کی ضرورت ہے۔'
دنیا بھر میں دیکھا جائے تو امریکہ میں بھی کچھ ریاستوں میں سکولوں میں موبائل فون، لیپ ٹاپ،گیمنگ ڈیوائسسز وغیرہ پر بین لگانے کے لیے قوانین پاس کیے گئے ہیں ان ریاستون میں فلورڈا اور انڈیانا شامل ہیں جبکہ کچھ ریاستیں اسی قسم کے قوانین کو لاگو کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔
اسی طرح برطانیہ میں بھی سکولوں میں ایسی ڈیوائسسز استعمال کرنے پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔
یونیسکو نے بھی رواں برس 'ٹیکنالوجی ان ایجوکیشن کے نام سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں تنظیم نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے ڈیزائن اور تعلیم میں استعمال کے طریقے کے لیے اپنے اپنے معیارات مرتب کریں تاکہ یہ کبھی بھی ذاتی طور پر، اساتذہ کی زیر قیادت ہدایات کی جگہ نہ لے اور سب کے لیے معیاری تعلیم کے مشترکہ مقصد کی حمایت کرے۔
سوال یہ ہے کہ جو بچے گھروں میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس آلات یا ڈیوائسسز کو استعمال کر رہے ہیں ان پر چیک اینڈ بیلنس کے لیے کون سے قوانین موجود ہیں یا کوئی قوانین موجود ہی نہیں ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین کے مطابق یہ جدید آلات وقت کی ضرورت ہیں لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارم انہیں زیادہ سے زیادہ ’ایڈیکٹو یا لت‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو ذہنی صحت کے لیے زیادہ خطرناک عمل ہے۔ گذشتہ برس ایک ویڈو گیم پب جی کو کھیلنے والے متعدد بچوں نے اپنی جان لی تھی۔
اسی حوالے سے ایڈووکیٹ ہائی کورٹ احمر مجید نے انڈپینڈنت اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی ایسے کسی قانون کو بنانے کی کوئی بات ہو رہی ہے کیونکہ اگر اس قسم کا کوئی قانون بن بھی جاتا ہے تو اس پر عمل درآمد ممکن نہیں کیونکہ یہ معاملہ گھروں کے اندر کا ہے۔'
ان کا کہنا تھا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانے کے لیے بھی تاریخ پیدائش پوچھی جاتی ہے اور وہ کسی قسم کی پابندی نہیں لگاتے۔ ’آپ کوئی بھی تاریخ پیدائش لکھ دیں تو آپ کا اکاؤنٹ بن جائے گا۔‘
’ان تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دفاتر پاکستان میں نہیں ہیں۔ اس لیے ہم انہیں پابند بھی نہیں کر سکتے کہ آپ 18 سال سے کم عمر بچوں کے اکاؤنٹ نہیں بنائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا بچوں کو موبائل کب اور کتنی دیر کے لیے دینا ہے اور وہ اس پر وہ کون سا مواد دیکھیں گے، یہ سب کنٹرول کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ’ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں جدید ٹیکنالوجی کے بغیر گزارا نہیں ہے۔‘
انہوں نے رائیونڈ والے واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس بچے کے کیس میں بھی یہی ہوا ہوگا کہ بچہ بغیر کسی بڑے کی موجودگی میں ایک لمبے عرصے سے موبائل فون استعمال کر رہا ہوگا اور وہ ایڈیکشن کی طرف چلا گیا ہوگا اور والدین کو اب یہ احساس ہوتا ہوگا کہ پڑھتا نہیں ہے اور اس سارے معاملے کو طریقے سے سلجھانے کی بجائے انہوں نے بچے پر سختی کی جس کے نتیجے میں اس بچے نے اپنی جان لے لی۔
’یہ والدین کو ہی کنٹرول کرنا ہوگا۔ میرے خیال میں قانون اس میں مشکل ہی ہے کہ کوئی مدد کر سکے۔‘
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے سربراہ، ڈیجیٹل کریئیٹر اور ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے اسد بیگ کا اس حوالے سے خیال ہے کہ قوانین ایک خاص مقصد کے لیے بنائے جاتے ہیں اس لیے قانون کے ذریعے موبائل فون تک رسائی کی حد مقرر نہیں کر سکتے۔ ’دوسری بات یہ جو بچے اسی کی دہائی میں پیدا ہوئے ان کے لیے ٹیکنالوجی آپشنل ہوتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مصنوعی ذہانت حاوی ہو رہی ہے، جو بچے آٹھ سال یا اس کچھ زیادہ عمرکے ہیں اور ان کی گروتھ کے رجحان کو دیکھیں تو مجھے لگتا ہے کہ نئی نسل کی زندگیوں میں اے آئی کسی نہ کسی شکل میں ان کو سپورٹ کر رہی ہوگی۔
اسد کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں آپ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے قوانین تو نہیں بنا سکتے۔ ’ہاں پالیسی ہدایات ہونی چاہییں جیسے کہ ڈیجیٹل لٹریسی متعارف کروانا ہوگی۔ یہ حکومت کا کام نہیں ہے یہ والدین کا کام ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے اور یا پھر سکول میں تربیت ہونی ہے۔‘
’اب جب آپ کو ہی یہ معلوم نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی یا ڈیوائسسز کے حوالے سے آپ کے اپنے بچے کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تو پھر کس طرح معلوم ہوگا۔‘
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے گھر میں ایک دن ڈیجیٹل ڈی ٹاکس کا ہوتا ہے جس دن کوئی بھی کسی قسم کی ڈیوائس استعمال نہیں کرتا۔
ان کاکہنا تھا کہ جب بچوں سے ڈیوائس چھینی جاتی ہے تو ان کے دماغ میں ڈوپامن لیول ڈراپ کر جاتا ہے اور وہ چیخنے چلانے اور رونے لگتے ہیں اس لیے ہم بھی جب اپنے بچوں سے ڈیوائس واپس لیتے ہیں تو انہیں فوری طور پر کسی اور کام میں مشغول کر دیتے ہیں تاکہ ان کے ڈوپامن لیول برقرار رہیں۔
اسد کے مطابق یہ باتیں سب والدین کو معلوم ہونی چاہیے دوسرا دیکھے جانے والے مواد یا ڈیوائسسز کے استعمال کے لیے پیرنٹل کنٹرول یا رہنمائی ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پب جی گیم کے حوالے سے اموات کی کافی خبریں سامنے آئیں البتہ اس گیم کی ایج ریٹنگ بہت واضع 15 سال تھی۔ اس سے کم عمر کے بچے یہ کھیل کھیل نہیں سکتے۔ اب اگر آپ سات سال کے بچے کو وہ گیم کھلا رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی کے حوالے سے کوئی قدم ٹھا لیتا ہے تو اس میں والدین کا قصور ہے۔
ماہرین کا اصرار ہے اپنے بچے کو یاد دلائیں کہ سمارٹ فون ایک استحقاق ہے جسے غلط استعمال کی وجہ سے منسوخ کیا جاسکتا ہے۔