موسم سرما کے دوران پاکستان میں اکثر مقامات پر درجہ حرارت نقطہ انجماد کے قریب اور بعض نیچے بھی گر جاتا، جب کہ راتیں مزید سرد ہو جاتی ہیں تو جائے رہائش کو گرم رکھے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا اور ایسا ہیٹر کے استعمال سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا سمیت پاکستان میں سردیوں کے دوران ہیٹر کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور جن علاقوں میں قدرتی گیس دستیاب ہے وہاں گیس سے چلنے والے، جب کہ اس قدرتی وسیلے سے محروم شہروں اور دیہاتوں میں بجلی کے ہیٹروں کی مانگ زیادہ رہتی ہے۔
ملک کے شمالی علاقوں میں جہاں برف باری ہوتی ہے وہاں کوئلے یا لکڑیوں کو جلا کر بھی گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے۔
ہیٹروں کے زیادہ استعمال کے باعث صارفین بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے کی شکایات بھی کرتے ہیں جب کہ اول الذکر کو نسبتاً قابل برداشت قرار دیا جاتا ہے۔
حکومت صارفین کی گیس کے بجائے بجلی سے چلنے والے ہیٹروں کے استعمال کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے، جس کی وجہ موسم سرما میں بجلی کی کھپت کا کم ہونا ہے۔
دیکھنا ہے کہ گیس سے چلنے والے اور بجلی کے ہیٹر میں کون سا صارف کے لیے زیادہ خرچ کا باعث بنتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے شہر تیمرگرہ میں محمد سلمان کی الیکٹرانکس کی دکان ہے، جہاں ان کا کہنا تھا کہ گیس سے چلنے والے ہیٹروں کی مانگ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
محمد سلمان کا کہنا تھا کہ گیس سے چلنے والے ہیٹر کا خرچ کم ہوتا ہے، جبکہ بجلی کے ہیٹر استعمال کرنے کی صورت میں بل بہت زیادہ آتا ہے۔
تاہم سلمان نے اس حوالے سے کوئی حساب کتاب نہیں لگایا کہ کون سا ہیٹر زیادہ خرچ کا باعث بنتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے میٹا آرٹیفیشنل ایٹیلجنس (میٹا اے آئی) کی مدد سے ایک مخصوص ہیٹر کا گیس اور بجلی کا خرچہ معلوم کرنے کی کوشش کی۔
میٹا اے آئی کو پاکستان میں رائج بجلی اور گیس بل کے تمام اکائیاں اور قیمتیں دی گئیں اور ساتھ میں ہیٹر کی کیپیسیٹی یا واٹ بھی بتایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس ہیٹر کے خرچ کا ہم حساب کتاب لگایا وہ بیرون ملک سے برآمد شدہ ہے، جس کی کیپیسیٹی 2.4 کلو واٹ ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں 2.4 کلو واٹ حرارت پیدا کرتا ہے۔
گیس بل اور ہیٹر کا فی گھنٹہ خرچہ
پاکستان میں گیس بل کا حساب کتاب لگانا ایک پیچیدہ عمل ہے اور گیس کا بل مکعب میٹر یا میلین برٹش تھرمل یونٹ ( ایم ایم بی ٹی یو) میں نکالا جاتا ہے۔
صارفین کو بھیجے جانے والے گیس کے بلوں میں یہی اکائیاں یعنی مکعب کیوبک میٹر اور برٹش تھرمل یونٹ ( بی ٹی یو) کے اعدادوشمار نظر آئیں گے۔
کیوبک میٹر کو ایک فارمولے کےتحت برٹش تھرمل یونٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر گیس بل بنایا جاتا ہے۔
پاکستان میں فی بی ٹی یو کی قیمت 200 سے 4000 روپے ہے۔
25 کیوبک میٹر گیس استعمال ہونے کی صورت میں فی بی ٹی یو کی قیمت 200 روپے ہوتی ہے، جب کہ 100 یونٹس کی صورت یہ نرخ بڑھ کر 1200 روپے فی بی ٹی یو تک پہنچ جاتی ہے۔
گیس صارفین کو دو کیٹیگریز تقسیم کیا جاتا ہے یعنی پروٹیکٹڈ اور نا ن پروٹیکٹڈ کیٹیگری۔ پہلے گروہ میں وہ صارفین شامل ہیں جن کے گیس کا استعمال نومبر سے فروری (یعنی سردیوں کے دوران ) ماہانہ 90 یونٹس سے کم ہوں۔
اسی طرح نان پروٹیکٹڈ صارفین کے گیس بل سردیوں کے چار مہینوں میں ماہانہ 90 یونٹس سے زیادہ ہوتا ہے اور یوں ان کا بل دوسرے گروہ کا بل پروٹیکٹڈ کے مقابلے میں تقریباً دو گنا زیادہ رہتا ہے۔
2.4 کلو واٹ گیس ہیٹر کا خرچہ فارمولے کے مطابق فی گھنٹہ 0.00116 بی ٹی یو بنتا ہے اور اس کا ایک گھنٹے کا خرچ تقریباً 5 سے 10 روپے ہو گا۔
یہی ہیٹر دن میں آٹھ گھنٹے چلانے کی صورت میں اس کا ایک دن کا خرچ تقریباً 80 روپے اور ماہانہ بل 2400 روپے بنے گا۔ لیکن اس میں ٹیکسز وغیرہ شامل نہیں ہیں۔
اسی گیس کے ہیٹر 2.4 کلو واٹ کیپیسٹی والے بجلی کے ہیٹر کا خرچہ نکالتے ہیں۔
پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریباً 25 سے 30 روپے ہے اور 2.4 کلو واٹ ہیٹر ایک گھنٹے میں 2.4 بجلی یونٹ صرف کریں گا جس کا بل 72 روپے بنے گا۔
روزانہ آٹھ گھنٹے چلانے سے بل 576 روپے اور روزانہ آٹھ گھنٹوں کے استعمال کے بعد ماہانہ خرچ (ٹیکسز کے علاوہ) تقریباً 17000 روپے بنے گا۔
ان اعدادوشمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بجلی کے ہیٹر کے مقابلے میں گیس ہیٹر کا خرچ کم رہتا ہے۔ تاہم اگر دور جدید کے تقاضوں کے مطابق انورٹر بجلی ہیٹر اور یا کلائیمیٹ کنٹرول فیچر والے ہیٹر سے یہ خرچہ کم ہو سکتا ہے۔