آغوش پروگرام کے تحت ’صرف دو بچوں کی پیدائش پر مالی معاونت

پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے کمیونیکیشن ہیڈ محمد عمیر کے مطابق حکومت صرف دو بچوں کے لیے مالی مدد فراہم کرے گی، یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ والدین کے پہلے سے کتنے بچے ہیں۔

ایک نرس 31 جنوری 2024 کو لاہور کے چلڈرن ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں ایک بچے کا علاج کر رہی ہیں (عارف علی / اے ایف پی)

محکمہ صحت پنجاب کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود ایک رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر صوبے کے عوام کی صحت کی صورت حال مطلوبہ سطح سے نیچے ہے۔

نومولود بچوں کی اموات کی شرح 77 فی 1000 زندہ پیدائش ہے، پانچ سال سے کم عمر کی شرح اموات 112 فی 1000 زندہ پیدائش ہے جبکہ زچگی کی شرح اموات کا تخمینہ 300 فی ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر ہے۔

زچہ و بچہ کی اسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے ’آغوش‘ کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے اس منصوبے کے تحت دو سال سے کم عمر بچوں کی ماؤں اور حاملہ خواتین کو ’آغوش‘ پروگرام کے تحت 23 ہزار روپے ملیں گے۔

یہ پروگرام پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی (پی ایس پی اے) کی شراکت داری سے شروع کیا گیا ہے۔

پی ایس پی اے کے کمیونیکیشن ہیڈ، محمد عمیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’یہ رقم مرحلہ وار دی جائے گی اور صرف دو بچوں کے لیے دی جائے گی کیونکہ حکومت ویسے بھی دو بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اس لیے اس پروگرام کے تحت بھی دو بچوں کے لیے یہ مالی تعاون فراہم کیا جائے گا اور یہ بھی شرط ہے کہ دونوں بچوں کے درمیان تین برس کا وقفہ ہو۔‘

آغوش پروگرام کے لیے کون سی خواتین اہل ہیں؟

پنجاب ہیومن کیپیٹل انویسٹمنٹ کی ویب سائٹ پر آغوش پروگرام کی دی گئی تفصیلات کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین، اور دو سال تک کی عمر کے بچوں کی مائیں، جن کے پاس ایک درست شناختی کارڈ ہے اور جن کا تعلق 13 اضلاع سے ہے، آغوش پروگرام کے لیے اہل ہیں۔

ان اضلاع میں بہاولپور، مظفر گڑھ، کوٹ ادو، بھکر، ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف، میانوالی، رحیم یار خان، راجن پور، خوشاب، لیہ، بہاولنگر اور لودھراں شامل ہیں۔

آغوش پروگرام کے تحت ملنے والی رقم کون سے مرحلے پر ملے گی؟

حاملہ خاتون کی پہلی دفعہ مراکز صحت/مریم ہیلتھ کلینک میں رجسٹریشن پر دو ہزار روپے دیے جائیں گے۔

حاملہ خاتون کو بچے کی پیدائش تک متواتر چار طبی معائنوں کے لیے آنے پر چھ ہزار روپے دیے جائیں گے یعنی ہر وزٹ پر 1500 روپے۔ مرکز صحت پر بچے کی پیدائش پر چار ہزار روپے کا تحفہ ملے گا۔

پیدائش کے بعد 15 دن کے اندر پہلے طبی معائنے پر دو ہزار روپے ملیں گے۔ پیدائشی سرٹیفکیٹ کا مرکز صحت میں اندراج کروانے پر پانچ ہزار روپے دیے جائیں گے۔ پروگرام کے تحت نومولود بچے کو حفاظتی ٹیکے لگوانے پر چار ہزار روپے ہر بار دیے جائیں گے یعنی ہر بار دو ہزار روپے دیے جائیں گے۔

وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر خواتین کی رہنمائی اور معلومات کے لیے خصوصی ٹال فری نمبر 1221 بھی فعال کر دیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بھی اس پروگرام سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ٹال فری نمبر پر متعدد بار کال کی جس کا دورانیہ پانچ منٹ سے دس منٹ تک کا تھا لیکن کسی نمائندے نے بات نہیں کی، البتہ اسی دورانیے میں ’انتظار کیجیے‘ کی ٹیپ چلتی رہی۔

پی ایس پی اے کے کمیونیکیشن ہیڈ محمد عمیر کے مطابق اس ٹال فری نمبر پر ایک آپشن یہ بھی ہے کہ کال کرنے والے سے خود رابطہ کر لیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ چونکہ اس وقت آغوش پروگرام کی رجسٹریشن کی مہم چل رہی ہے، اس لیے بہت زیادہ کالز موصول ہو رہی ہیں۔

عمیر کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کو شروع کرنے کا مقصد ماؤں، حاملہ خواتین اور نومولود بچوں تک صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔

’ہم چاہتے ہیں کہ زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے عوام صحت کی سہولیات ہیلتھ سینٹر جا کر لینے کے رویے کو اپنائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ زچہ و بچہ کی دیکھ بھال ہو سکے، ڈلیوری صحیح طریقے سے کی جا سکے، بچے کی پیدائش کے بعد ماں اور بچے کی صحت محفوظ رہے تاکہ گھروں میں دائیوں کے ہاتھوں ماں اور بچے کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ اسی لیے انہیں ہر مرحلے پر پیسے دے رہے ہیں تاکہ ماں اور بچہ باقاعدہ ہسپتال آ کر صحت کی سہولیات سے فائدہ اٹھائیں۔‘

جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ واضح کیا گیا ہے کہ 23 ہزار روپے کی رقم پہلے دو بچوں پر ہو گی یا آخری دو بچوں پر؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ گنتی نہیں رکھی کہ والدین کے پہلے کتنے بچے ہیں بلکہ حکومت صرف دو بچوں کے لیے یہ مالی مدد فراہم کرے گی۔

کچھ سماجی حلقوں کا خیال ہے کہ اس پروگرام کے تحت آبادی میں اضافے کا خدشہ ہے۔

پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے۔ 2017 اور 2023 کے دوران پنجاب کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.53 فیصد ہے اور اگر آبادی میں اضافے کی یہی شرح برقرار رہی تو پنجاب کی آبادی 2051 تک دوگنا ہو جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بشریٰ اقبال حسین جو محفوظ بچپن تنظیم کی سی ای او بھی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ایسے پروگرامز کچھ سکینڈینیوین ممالک میں چل رہے ہیں کیونکہ وہاں آبادی کم ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ ہو، اس لیے وہ ماں اور بچے کو سہولیات فراہم کرتے ہیں لیکن وہ ممالک ترقی یافتہ ہیں اور وہاں آبادی کتنی کم ہے جس وجہ سے وہ ایسے پروگرامز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘

بشریٰ کے مطابق: ’میرے خیال میں یہاں اس میں یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ کتنی عمر تک کی خواتین اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ نہ کہ ایک ایسی خاتون جن کے پہلے چھ بچے ہیں اور وہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے دو بچے اور پیدا کر لیں تو زیادتی ہو جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کی مثبت چیز یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو پیدائش کے بعد رجسٹر کروانے کا رواج نہیں ہے۔ اس طرح کے پروگرام کے ذریعے یہ ہو سکتا ہے کہ ہم بچوں کی رجسٹریشن کی طرف آئیں کیونکہ بغیر بچے کے ب فارم یا شناخت کے وہ کوئی سہولیات حاصل نہیں کر سکتے۔

’اس پروگرام کے ذریعے میرے خیال میں لوگ اپنے بچوں کو حکومتی ریکارڈ میں رجسٹر کروانے لگیں گے، خاص طور پر دور دراز علاقوں کے لوگ جہاں لوگوں کے آٹھ آٹھ بچے ہیں لیکن نہ ماں باپ کا شناختی کارڈ بنا ہوا نہ بچے کا اور وہ ایسے ہی رہ رہے ہیں اور پھر وہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ہیلتھ کارڈ نہیں ملا یا سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہیں ملتیں یا کسی بھی حکومتی پروگرام میں وہ شامل نہیں ہو پاتے۔‘

محمد عمیر کا کہنا ہے کہ ایسے پروگرامز کے تحت زچہ بچہ کی اموات میں بھی کمی آتی ہے اور اس میں زچہ و بچہ کی صحت کے حوالے سے دوسرے پروگرامز بھی چل رہے ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے بھی اموات کی شرح میں کمی آتی ہے۔
’اصل مقصد اس میں قبل از پیدائش، بعد از پیدائش، حفاظتی ٹیکہ جات، اور پیدائش کا اندراج کروانا ہے اور یہ پنجاب کے 13 اضلاع میں ہے جہاں انسانی ترقی کا اشاریہ بہت نیچے ہے اور زیادہ تر یہ اضلاع جنوبی پنجاب کے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر