پاکستانی سیاست دان عظمیٰ بخاری کو ان کی ایک جعلی ویڈیو نے پریشان کیا ہوا ہے، ایک نازیبا ڈیپ فیک ویڈیو جس کو ملک کی چند خواتین رہنماؤں میں سے ایک کے طور پر ان کے کردار کو بدنام کرنے کے لیے پھیلایا گیا تھا۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات 48 سالہ عظمیٰ بخاری نے اے ایف پی کو اس بارے میں بتایا: ’جب یہ میرے علم میں آیا تو میں ٹوٹ کر رہ گئی۔‘
ڈیپ فیکس، جو لوگوں کی حقیقی آڈیو، تصاویر یا ویڈیو کو غلط تشبیہات میں تبدیل کرتے ہیں، کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے عام ہونے کے ساتھ ہی تیزی سے بنانا آسان ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں ڈیپ فیکس کو عوامی حلقوں میں خواتین کو جنسی طور پر بدنام کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے جس سے قدامت پسندانہ معاشرے میں ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
باقاعدگی سے ٹی وی پر نظر آنے والی عظمیٰ بخاری نے کئی دنوں تک خاموش رہنے کو ترجیح دی جب انہوں نے سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والے کلپ میں ایک انڈین اداکار کے جسم پر ان کے چہرے کو لگا کر ایڈیٹ کی گئی ویڈیو کو دیکھا۔
انہوں نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ ’یہ بہت مشکل تھا، میں افسردہ تھی۔ میری بیٹی نے مجھے گلے لگایا اور کہا ماما، آپ کو اس سے لڑنا پڑے گا۔‘
ابتدائی طور پر پیچھے ہٹنے کے بعد وہ اب لاہور ہائی کورٹ میں اپنا کیس لڑ رہی ہیں تاکہ ڈیپ فیک پھیلانے والوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں عدالت جاتی ہوں تو مجھے لوگوں کو بار بار یاد دلانا پڑتا ہے کہ میری ایک جعلی ویڈیو بنائی گئی ہے۔‘
تقریباً 24 کروڑ آبادی والے ملک میں سستے فور جی موبائل انٹرنیٹ کی وجہ سے حال ہی میں انٹرنیٹ کے استعمال میں حیرت انگیز شرح سے اضافہ ہوا ہے۔
مانیٹرنگ سائٹ ’ڈیٹا رپورٹل‘ کے مطابق رواں سال جنوری میں تقریباً 11 کروڑ پاکستانی آن لائن تھے اور یہ تعداد 2023 کے آغاز کے مقابلے میں تقریباً ڈھائی کروڑ زیادہ تھی۔
رواں سال کے انتخابات میں بھی ڈیپ فیکس کا بھرپور استعمال کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا تھا لیکن ان کی ٹیم نے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان کی آواز میں تقریریں بنانے کے لیے اے آئی ٹول کا استعمال کیا جس سے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے انتخابی مہم چلا سکتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاست میں مردوں کو عام طور پر کرپشن، ان کے نظریات یا مالی حیثیت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ڈیپ فیکس کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ اسے خواتین کو بدنام کرنے کے استعمال کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں مقیم اے آئی ماہر ہینری اجدر نے اس حوالے سے بتایا کہ ’ان (خواتین) پر جب بھی الزام لگایا جاتا ہے تو یہ تقریباً ہمیشہ ان کی جنسی زندگیوں اور ذاتی زندگیوں کے گرد گھومتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی اچھی ماں ہوں یا اچھی بیویاں۔ اس لیے ڈیپ فیکس ایک بہت ہی نقصان دہ ہتھیار ہیں۔‘
لیکن پاکستان کے پدرانہ پسند معاشرے میں اس داؤ کی قیمت بہت زیادہ ہے۔
یہاں خواتین کی حیثیت عام طور پر ان کی ’عزت‘ سے منسلک ہوتی ہے، جسے عام طور پر ’شائستگی اور حیا‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہر سال سینکڑوں خواتین کو عزت کی خاطر مار دیا جاتا ہے اور وہ بھی اکثر اپنے ہی خاندانوں کے ہاتھوں۔
اکتوبر میں اے ایف پی نے صوبائی رکن اسمبلی مینا مجید کی ایک جعلی ویڈیو کو شناخت کیا تھا جس میں انہیں بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو گلے لگاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
سوشل میڈیا کیپشن میں کہا گیا: ’بے شرمی کی کوئی حد نہیں، یہ بلوچ ثقافت کی توہین ہے۔‘
عظمیٰ بخاری نے انہیں نشانہ بنانے والی ویڈیو کو ’فحش‘ قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹے کے ساتھ ان کی تصاویر کو بھی ایڈٹ کر کے انہیں ’بوائے فرینڈز‘ کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔
پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی جعلی ویڈیوز باقاعدگی سے گردش کرتی رہتی ہیں جن میں انہیں اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ رقص کرتے دکھایا گیا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ سے وابستہ صدف خان نے کہا کہ جب اس طرح کے ڈیپ فیکس کے ذریعے خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو انہیں غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے اور پورے خاندان کی عزت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ انہیں خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘
ڈیپ فیکس اب پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔
2016 میں عظمیٰ بخاری کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے آن لائن جرائم کو روکنے کے لیے ایک قانون پاس کیا گیا تھا جس میں کسی شخص کو نقصان پہنچانے والے طریقے سے رضامندی کے بغیر تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنے کے خلاف ’سائبر سٹاکنگ‘ کی دفعات شامل تھیں۔
عظمیٰ بخاری کا خیال ہے کہ اس نظام کو مضبوط بنانے اور تفتیش کاروں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہمارے سائبر کرائم یونٹ کی استعداد کار میں اضافہ بہت اہم ہے۔‘
لیکن ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں نے اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کی وسیع قانون سازی کے لیے حکومت پر تنقید بھی کی ہے۔
حکام نے پہلے یوٹیوب اور ٹِک ٹاک کو بلاک کر دیا تھا اور اب ایکس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کی کارکن نگہت داد نے کہا کہ سائٹس کو بلاک کرنا صرف ’حکومت کے لیے فوری حل‘ کے طور پر کام کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’یہ آپ کے اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی سے جڑے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘