پاکستان نے 28 مئی 1998 کو جب جوہری دھماکے کیے تھے تو ریاض میں تعینات پاکستان کے سفیر خالد محمود کا کہنا ہے اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فہد نے کہا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی توقعات سے بڑھ کر حمایت و تعاون کرے گا۔
پاکستان کی طرف سے کیے گئے جوہری دھماکوں کو 26 سال ہو گئے ہیں اور ہر سال کی طرح رواں برس بھی ملک میں اس دن کی مناسبت سے تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
لیکن ساتھ ہی اس وقت جس طرح سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا اس غیر معمولی حمایت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پاکستان کے سابق سفارت کار خالد محمود نے پانچ سال قبل اسی دن کی مناسبت سے عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ 28 مئی 1998 کی سہ پہر جدہ میں تھے اور ایک وفد کے استقبال کے منتظر تھے جب یہ خبر بریک ہوئی کہ پاکستان نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں پانچ زیر زمین ایٹمی تجربات کیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھ کر پاکستان کے جوہری تجربات سے متعلق ٹی وی پر خبریں اور تبصرے دیکھ رہے تھے اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ سے اپنے اگلے اقدام کے بارے میں ہدایات کا انتظار کر رہے تھے۔
سابق سفیر خالد محمود نے بتایا کہ انہوں نے پروٹوکول یعنی معمول کے ضوابط سے ہٹ کر اور ہفتہ وار تعطیل والے دن سعودی رائل کورٹ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اگلے دن (یعنی جمعے کو) اس وقت کے فرمانروا شاہ فہد کے ساتھ فوری ملاقات کی درخواست کی۔
’میرے سفارت کاری کے تجربے کے تحت مجھے معلوم تھا کہ (اسلام آباد سے) کچھ ہدایات آنے والی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے ہدایات ملنے کا انتظار کرنے کے بجائے شاہی کورٹ سے رجوع کیا جو کہ ان کے بقول مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر تھا کیوں کہ عام طور پر وزارت خارجہ کے ذریعے بادشاہ سے ملنے کا وقت لینا ہوتا ہے۔
’لیکن میں نے پہل کی اور براہ راست شاہی کورٹ سے رابطہ قائم کیا۔ کورٹ نے کہا کہ آج جمعرات کی شام ہے، کل جمعہ ہے اور چھٹی ہے۔ جیسے ہم سب کو معلوم ہے کہ شاہ فہد کی صحت اچھی نہیں ہے، ایسے میں آپ کو مدعو کرنا مشکل ہو گا۔‘
سابق سفیر خالد محمود کے بقول انہوں نے درخواست کی کہ ان کی عرضی بادشاہ تک پہنچا دی جائے اور پھر جو بھی جواب آئے گا اس کے مطابق وہ آگے بڑھیں گے۔
’میرا طریقہ کام کر گیا کیوں کہ کچھ گھنٹوں بعد مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ بادشاہ کل آپ سے ملاقات کریں گے۔ وہ سب غیر روایتی تھا کہ طبعیت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود ایک بادشاہ، سفیر سے جمعے کی چھٹی کے دن ملاقات کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی زندگی کے اس ناقابل فراموش واقع کے بارے میں بتاتے ہوئے سابق سفیر خالد محمود کہتے ہیں کہ ’لہٰذا اگلے دن بڑی دھوم دھام کے ساتھ مجھے شاہی محل لے جایا گیا، جو جدہ سے دور ایک ساحل پر واقع تھا۔ میں واقعی دنگ رہ گیا کیوں کہ چھٹی کی وجہ سے ہر طرف خاموشی تھی۔ چند لوگوں کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ آپ دیکھیں کہ سعودی عرب کے بادشاہ پاکستانی سفیر کا استقبال کرنے کے لیے وہاں بیٹھے ہیں۔ ان کے پہلے الفاظ۔ یہ تھے کہ معذرت، میں اپنے گھٹنے کی تکلیف کے باعث اٹھ نہیں سکتا، یہ ان کی بہت مہربانی تھی جس کی کوئی توقع نہیں کر سکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کہا۔‘
خالد محمود کہتے ہیں کہ اس وقت تک انہیں پاکستان سے ہدایات اور تفصیلات موصول ہو چکی تھیں کہ مجھے شاہ فہد سے ملاقات میں کیا کہنا ہے۔
’شاہ فہد نے میری بات بہت تحمل سے سنی۔ اس کے بعد بہت تفصیل سے جواب دیا کہ سفیر صاحب، آپ جو کر چکے ہیں ہم اس کے خلاف ہیں کیوں کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے ممبر ہیں۔‘
لیکن انہوں نے کہا کہ ’ہمیں علم ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا۔ اسے ہم سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے ہم آپ کی حمایت کریں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر جتنی آپ ہم سے توقع رکھتے ہیں۔ ان کی جانب سے دوستی کے گہرے جذبات کا اظہار میرے دل کو لگا۔ وہ برادرانہ جذبات جس کا سعودی عرب نے اس وقت اظہار کیا۔‘
پاکستان نے جب جوہری تجربات کیے تھے تو امریکہ نے اسلام آباد پر سخت معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں جبکہ ایک قانون سازی کے ذریعے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت اور فوجی امداد پہلے ہی بند کر دی گئی تھی۔
ان حالات میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی حمایت ایک غیر معمولی اقدام تھا۔
سابق سفیر خالد محمود نے بتایا کہ ’شاہ فہد سے ملاقات کے ایک دن بعد اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے ایک طویل ملاقات کی جس میں باضابطہ طور پر پاکستان کے لیے مملکت کی حمایت کا اعادہ کیا گیا اور چار سال تک موخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی گئی جس کی مالیت تقریباً تین ارب 40 کروڑ ڈالر بنتی تھی۔ اس سے پاکستان کو اعتماد ملا کہ وہ 30 مئی کو ایک اور جوہری تجربہ کرے۔‘
خالد محمود کہتے ہیں کہ اگرچہ واشنگٹن کی طرف سے ریاض سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کرے لیکن سعودی ولی عہد نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ تھا کہ ’پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات مختلف نوعیت کے ہیں۔‘