’اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجیے۔‘ برزخ کی پہلی ہی قسط نے فیض احمد فیض کی نظم کی یاد تازہ کر دی۔
یہ نیم کلاسیک جدید طرز کی ڈراما سیریز ہے، جو ’زی زندگی‘ سے نشر ہو رہی ہے۔ اس کے پہلے ہی سین نے ناظر کو جکڑ لیا ہے۔
آرٹ کے ہر شعبہ سے بھرپور ایک رومان بھری پیچیدہ کہانی ہے، جو غیر انسانی و انسانی دونوں مخلوقات کہانی بیان کرتی ہیں۔
کمر پہ پتھر باندھے ایک غیر انسانی مخلوق بھی نظر آتی ہے اور انسان کے روپ میں کوئی پری بھی محبت کی جوت جگاتی ہے۔
اس رومان میں جادو بھی ہے، حسن بھی ہے، زندگی بھی ہے، وصل بھی ہے، ہجر بھی ہے اور موت بھی۔ کبھی کہانی ماضی میں چلی جاتی ہے تو کبھی حال میں دھمال ڈالتی ہے۔
اس میں برٹش آرٹ کا غلبہ ہے لیکن اچھا لگ رہا ہے کہ ہمارا ملک بھی فطری آرٹ سے کسی طور کم نہیں۔ زمین تو اپنی ہے۔ مکالمہ بھی اردو اور انگریزی زبان میں ہے مگر کہانی سے مطابقت رکھتا ہے۔
پہلے بات کرتے ہیں ڈراما سیریز کے نام میں چھپے بھید کی۔ برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں۔ مذہب میں اس سے مراد روح اور جسم کے درمیان موت کے بعد سے قیامت تک کا درمیانی عرصہ ہے جہاں مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب قیام کریں گے۔
گویا عالم برزخ کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں سے ہے۔ یہ دنیا و آخرت کا درمیانی حصہ ہے، لہٰذا یہ سیریز بھی دنیا اور آخرت دونوں کیفیات میں سفر کر رہی ہے۔ عالم برزخ کی بے چینی اس میں موجود ہے۔
سکرپٹ کی بنت عام روانی میں نہیں ہے بلکہ یہ کئی چھوٹے چھوٹے مشکل و پیچیدہ ٹکڑوں میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
جعفر خانزادہ کو جوانی میں کسی سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ ایک غریب انسان ہے۔ ایک روز وہ اپنی محبوبہ مہتاب کو زرد پتوں کا ہار بنا کر پہناتا ہے مگر اسی لمحے وہ اسے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ملک سے باہر کمانے جا رہا ہے۔ وہ اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا جو کبھی نہیں مرجھائے گا۔ یہ پتوں کے ہار تو مرجھا جاتے ہیں۔
وہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ واپس آئے گا۔ مہتاب اس کے مقابلے پر زندگی کے رازوں سے زیادہ واقف ہے۔ وہ کہتی ہے کہ زندگی تو نام ہی کھلنے اور مرجھانے کا ہے، ہر شے کو فنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وقت پلٹ کے نہیں آتا، انسان کو انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ مادیت کی نہیں۔ انسان کا حاصل لمحہ موجود ہی ہے۔ دولت نہ خوشی کی ضامن ہے نہ زندگی کی۔
مہتاب کو گمان ہے کہ اگر خانزادہ چلا گیا تو پھر وہ اسے کبھی نہیں مل سکے گا۔ اسے ہجر محسوس ہو رہا ہے اور خانزادہ کے خواب اسے بڑا اور امیر آدمی بننے کے لیے بلا رہے ہیں۔
وہ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی محبوبہ کے لیے ایک رئیس بننا چاہتا ہے۔ مہتاب جاتے ہوئے اسے ایک پرانی کتاب دیتی ہے۔ جس کا عنوان ’مہتاب‘ ہے۔
یہ کتاب اس علاقے کے لوگوں کے لیے بہت حساس ہے اس میں لکھی باتوں پہ لوگ یقین رکھتے ہیں۔ اس میں درج ہے کہ ’جب چاند خون سے نکلے گا ظاہر و باطن ایک ہوں گے تو دنیا فنا ہو جائے گی۔‘ اس لکھی پیشن گوئی کے ستون پہ کہانی آگے بڑھ رہی ہے۔
جعفر خانزادہ چلا جاتا ہے۔ ایک امیر آدمی بن کر سونے کا ہار لے کر واپس بھی آتا ہے مگر زندگی بہت بدل چکی ہوتی ہے۔ مہتاب بھی کہیں نہیں ہے۔
یہ کہانی ابھی درد بن کر ہنزہ کی حسین وادیوں میں گنگنا ہی رہی ہے تو دوسری عشق کی داستان افروز اور مہتاب کی شروع ہوتی ہے۔
ایک عشق عین جوانی ہے، ایک عشق عین بڑھاپے کا ہے۔
کہانی کا یہ حصہ کسی ناول کی طرح شروع ہوتا ہے۔ افروز76 سالہ بوڑھا آدمی ہے۔ وہ ایک ریزوٹ کا مالک ہے۔ مہتاب محل میں ایک پراسرار ماحول ہے، یہاں محل کے مالکوں سے زیادہ خوش ملازم ہیں۔ جو گنگناتے و رقص کرتے اپنا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
افروز کی زندگی محبت کی ناکامی سے متاثر ہو چکی ہے۔ اب وہ ایک غیر انسانی مخلوق سے تیسری شادی کرنے جا رہا ہے جو اس کی پہلی، سچی اور ناکام محبت ہے جسے وہ کبھی نہیں بھلا سکا۔
ایک غیر انسانی مخلوق سے شادی کے نکتے پہ کہانی کی دلچسپی مزید بڑھ جاتی ہیں۔
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
پہلی محبت کو انسان کبھی نہیں بھلا سکتا، یہ نکتہ یہاں غالب ہے۔ گویا پہلی محبت شاید جادو جیسی ہوتی ہے اور پہلا محبوب غیر انسانی مخلوق جیسا ہوتا ہے جس کو انسان مختلف انسانوں میں تلاش کرتا رہتا ہے۔ نہیں ملتا تو پریوں اور حوروں جیسی غیر انسانی مخلوقات سے ملن کے تصور کو تخلیق کر لیتا ہے اور اس کے ساتھ جینے لگتا ہے۔
افروز کے تین بچے ہیں چونکہ وہ ڈیمنشیا کا مریض ہے اس لیے وہ بچے اس کے لیے کسی حد تک اجنبی اولاد ہو چکے ہیں۔ اس کی بیٹی شیر زادے اس کے پاس ہی رہتی ہے، اور دو بیٹے ہیں شہر یار جس کی بیوی وفات پا چکی ہے اور وہ اکیلا اپنے بیٹے کو پال کر رہا ہے، دوسرا بیٹا سیف اللہ غیر شادی شدہ ہے مگر ایک غیر انسانی اور غیر ظاہر عورت سے کسی طور عقیدت سے جڑا ہوا ہے۔
دونوں بیٹوں کو باپ کی شادی کے لیے محل بلایا جاتا ہے تو علاقے کے لوگ ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔
ان کا خیال ہے جیسا کہ کتاب ’مہتاب‘ میں لکھا ہوا ہے اس کے مطابق آقا افروز کی یہ شادی دنیا کو فنا کر دے گی۔
وہ اپنے پرکھوں کے خون کا حق مانگ رہے ہیں۔ یہ راز ابھی وا ہونا ہے آخر محل میں کون دفن ہے۔ پرکھوں کا خون اور حق و باطل کی جنگ کیا ہے؟
وہ سونے کا ہار جو آقا کے پاس ہے اور جو خانزادہ لاتا ہے ایک جیسے کیوں ہیں؟
پاکستان کی حسین ترین وادی ہنزہ میں اس سیریز کو فلمایا گیا ہے۔ ہنزہ کا طلسماتی حسن شاید ہی کبھی ایسے عکس بند کیا گیا ہو جیسے اس سیریز میں کیا گیا ہے۔
برزخ پر اسرار رومانوی ڈراما سیریز ہے جس کی پیش کش اتنی زبردست ہے کہ ہر منظر ہر لفظ شاعری کرتا، رقص کرتا، گنگناتا، دل کو چھو جاتا محسوس ہوتا ہے۔
سیریز نے بین الاقوامی دنیا میں پہلی ہی قسط سے دھوم مچا رکھی ہے۔
اس میں ہمیں تصوف و اساطیر کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کے راز اور بھید بھی کھلتے ہیں۔ روح کا ساتھی والی بات بھی دل میں اترتی ہے۔ محبت میں جسم کا وجود اور موجود ہونا اور نہ ہونا بھی ایک اہم موضوع ہے۔ کیمرہ ورک، میوزک، مکالمہ، منظر، ماحول، محل، بیرونی مناظر، لباس، پینٹنگ، غیر انسانی مخلوقات مجموعی طور پہ جمالیات حد درجہ دکھائی دے رہی ہے
اور حسن ظالم اپنے اندر خود جادو گری کا حامل ہے۔
برزخ پر اسرار رومانوی ڈراما سیریز ہے جس میں مرد بطور عاشق دکھایا گیا ہے یہاں بھلے شاہ کا نکتہ عشق باطل ہو جاتا ہے کیونکہ پیش کش بہت زبردست ہے کہ ہر منظر ہر لفظ شاعری کرتا، رقص کرتا، گنگناتا، دل کو چھو جاتا محسوس ہوتا ہے۔
کاسٹ بہت عمدہ اور سینیئر کاسٹ ہے۔ سلمان شاہد اور خوشحال خان نے کردار کا حق ادا کر دیا ہے۔ صنم سعید کے بیک گراؤنڈ وائس اوور میں فطرت گنگناتی محسوس ہوتی ہے۔
مصنف اور ڈائریکٹر عاصم عباسی ہیں۔ مصنف جو سوچتا ہے وہ خود ہی عکس بند کر رہا ہو تو طلسم و حسن ہی سکرین ہوتا ہے۔ عاصم عباسی نے جیسے خواب فلم بند و عکس بند کر دیے ہوں بلاشبہ وہ داد کے مستحق ہیں۔ ان کی محنت ان کی گہرائی، ان کی ذہانت و حس جمالیات ’ریل کی سیٹی‘ کی طرح تخیل کے جڑ گئی ہے۔
دیکھتے ہیں اگلی اقساط میں انسان اور پری کے عشق کا انجام کیا ہوتا ہے۔ کیا ایک انسان ایک پری سے یا ایک غیر انسانی مخلوق سے شادی کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟
یہ شادی موت کی صورت ہو گی، روح روح سے کیسے ملے گی، کیا اس شادی سے دنیا فنا ہو جائے گی، کیا مہتاب ایک غیر انسانی مخلوق ہے جو ہر دور میں کسی ہجر پہ عاشق ہو جاتی ہے، کتاب ’مہتاب‘ کا مصنف کون ہے اور لوگ اس کتاب پہ یقین کیوں رکھتے ہیں؟