’زرد پتوں کا بن‘ ڈرامے نے ان سماجی مسائل پہ آواز اٹھائی ہے، جن پہ بات تو عشروں سے کی جا رہی ہے مگر اس کا کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔ کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔
- آبادی کا بڑھتا ہوا جن
- بڑھتی آبادی کی وجہ سے وسائل کی کمی
- لڑکیوں کی تعلیم
- لڑکوں کی تربیت
- پڑھے لکھے جابر طاقت ور لوگوں کی فرعونیت
- ایک طرف ڈاکٹرز مافیا تو دوسری طرف دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی
- دیہاتی و شہری آبادی کے وسائل اور مسائل
- زچکی کی پیچدگیاں اور کثرت اولاد
سچ پوچھیے تو یہ ڈراما فیض احمد فیض کی نظم ’آج کے نام‘ کی ڈرامائی تصویر ہے، جس کا مصرع ہی اس ڈرامے کا عنوان ہے ؎
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
مرکزی کردار مینو ہے جو ایک محنتی، پرعزم، مستقل مزاج، سمجھدار و ذہین دیہاتی لڑکی ہے اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ اس کے گاؤں میں اور آس پاس کہیں ہسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہے، کوئی ہائی سکول و کالج نہیں ہے۔
وہ کسی نہ کسی طور اپنے بھتیجے روشن کی مدد و دوستی سے میٹرک بھی کر لیتی ہے اور کالج تک بھی پہنچ جاتی ہے مگر اس کے پانچ بھائی اس کی تعلیم کے خلاف ہیں، بلکہ وہ تو اپنی بہن کے ہی خلاف ہیں۔ مینو اپنے ابا کی ہلہ شیری پہ پڑھ رہی ہے لیکن اس کی ماں اور بھائی چاہتے ہیں کہ اس کی شادی ہو جائے جبکہ باپ چاہتا ہے کہ وہ اپنا خواب پورا کر لے۔
بڑا بھائی شادی شدہ ہے، اس کی بیوی نولکھی بھی روایتی بہو نہیں دکھائی گئی، یہ اچھا پہلو ہے۔ اس کا بیٹا روشن مینو کا ہمراز و دوست ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔ دونوں ہی سماجی حد بندیوں سے باغی ہیں۔
روشن موسیقی سیکھنا چاہتا ہے مگر اس کے گھر والے اسے مراثیوں کا کام سمجھتے ہیں۔ وہ چھپ کر گاؤں میں شہنائی سیکھنے لگتا ہے اور اسے اپنے استاد کی بیٹی سے ہی پیار ہو جاتا ہے۔
مینو کے پانچ بھائی جن میں سے ایک جیل سے رہا ہو کر آیا ہے، ایک سبزی منڈی میں کام کرتا ہے، نشہ کرتا ہے، ایک جوا کھیلتا ہے، ایک پہلوانی کرتا ہے۔ ایک ٹھرکی بس کنڈیکٹر ہے۔ مطلب سب کے سب نکمے ہیں لیکن ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مرد ہیں اور اپنی بہن مینو اور روشن تک ان کی ساری مردانگی کا زور چلتا ہے۔
اس سے آگے ان کی دنیا ختم ہو جاتی ہے۔ سب لالچی، مطلبی اور موقع پرست ہیں۔ ایک طرف ایک قابل بیٹی ہے تو دوسری طرف بھائی صرف ’آبادی‘ ہیں۔
مینو کے میٹرک میں ضلع بھر میں اول آنے پہ سب کی مردانگی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری کہانی شہر میں ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹرز مافیا کی چل رہی ہے، جس میں ایک مریضہ کو بچے کی پیدائش کے دوران دوا کی اوور ڈوز دے دی جاتی ہے، جس سے ان کا انتقال ہو جاتا ہے اور ایک دن بعد بچہ بھی دم توڑ دیتا ہے۔
خاتون کا شوہر احتجاج کرتا ہسپتال پہ دھاوا بول دیتا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ اس کو گرفتار کروا دیتی ہے مگر ڈاکٹر نوفل جب ہسپتال کا ریکارڈ نکلواتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ غلطی ہسپتال کے مالک ڈاکٹر کی بیگم ہی سے ہوئی ہے۔
بات سوشل میڈیا تک جاتی ہے، ہستپال پہ انکوائری کمیٹی کا حکم ہو جاتا ہے لیکن اپنی ساز باز سے ہسپتال والے بچ نکلتے ہیں۔ ڈاکٹر نوفل کو ہسپتال سے نکال دیا جاتا ہے اور اسی دوران انہیں سرکاری نوکری مل جاتی ہے۔
مینوکی سیہلی جو امید سے ہے، اچانک گر جانے کے باعث اس کی طبعت بگڑ جاتی ہے اس کو ہسپتال تک لے جانا پڑ جاتا ہے جب کہ گھر میں کوئی نہیں ہوتا۔ مینو اپنی سائیکل پر بٹھا کر اسے ہسپتال تک لے جانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
اس کا سسر جو سیاسی پارٹی کا نمائندہ ہے، مینو کو اپنی خوشی میں سٹیج پہ بلا کر شامل کرتا ہے اور گاؤں والوں کو بتاتا ہے کہ مینو کی وجہ سے آج وہ دادا کے رتبے پہ فائز ہوا ہے۔ وہ کسی مغل شہنشاہ کے سے انداز میں اسے کہتا ہے، ’مینو، آج جو مانگنا ہے مانگ!‘
مینو گاؤں کے لیے ڈاکٹر کا مطالبہ رکھ دیتی ہے جو اس کی سماجی روایتی سوچ کے خلاف ہے مگر وہ مان جاتا ہے۔ حالات و واقعات ڈاکٹر نوفل کو اس گاؤں تک لے آتے ہیں جو اس شہری بابو کے لیے ایک بالکل نئی دنیا ہے۔
روشن جو مینو کو کالج چھوڑ کے آتا تھا، اس کا اپنے باپ اور چاچاؤں سےموسیقی سیکھنے پہ جھگڑا ہو جاتا ہے۔ وہ سب روشن کو بہت مارتے ہیں، وہ بھی غصے میں چاچا کا سر پھاڑ دیتا ہے اور گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
اب مینو کو خود کالج جانا ہے۔ وہ 15 کلومیٹر پیدل چل کے کالج آتی جاتی ہے۔ گاؤں کے ڈسپنسر چاچا اسے اپنی پرانی سائیکل دے دیتے ہیں، جسے وہ بیٹری لگوا کر موٹر سائیکل میں ڈھال لیتی ہے۔
اس کے بھائیوں کا خیال ہے کہ کب تک پیدل چلے گی، روشن تو چلا گیا ہے، اب اسے بھی پڑھائی چھوڑنی ہی پڑے گی، گویا ایک تیر سے دو شکار ہو گئے ہیں۔
ناکام انسان دوسرے کو کامیاب نہیں دیکھ سکتا۔ جب بات مرد و عورت کی ہو تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غیرت کے نام کے زیادہ تر قتل بھائی ہی کرتے ہیں۔
بات یہاں تک آ گئی ہے کہ اس کے بھائی اپنی بہن کے قتل کا سوچنے لگتے ہیں۔ ایک بھائی چیئرمین ملک نادر خان سے کہتا ہے کہ اس بلی یعنی مینو کو مروا دیں۔ اس کے بھائی خود پہ یہ قتل کا الزام لینا بھی نہیں چاہ رہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں جو گرجتے ہیں برستے نہیں۔
آج تک ہمارا خیال ہے کہ زیادہ بھائیوں کی اکلوتی بہن بہت لاڈلی ہوتی ہے، لیکن ڈراما اصل تصویر دکھا رہا ہے کہ اگر زیادہ بھائیوں کی بہن اپنی زندگی جینا چاہے تو اس کو عام لڑکی کی نسبت بہت زیادہ اور مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ کہانی صرف دیہات کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ شہروں میں بھی اکلوتی بہن کا قصہ ایسا ہی ہے۔
اہم بات ڈرامے میں محکمہ بہبود آبادی کا دفتر دکھایا گیا ہے جس میں رشید احمد اور اس کی بیوی سرتاج سرکاری ملازم ہیں۔ جس دن دفتر میں کسی افسر نے آنا ہے اسی روز گاؤں میں مرغوں کی لڑائی کا میلہ بھی سجا ہوا ہے۔ دیہات والوں کی توجہ کا مرکز مرغوں کی لڑائی ہے۔
صرف وہ چند بزرگ اس مرکز میں جمع ہیں، جن کا اب آبادی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے جتنے درجن بھر انڈے دینے تھے وہ دے چکے ہیں وہ بس چاول کھانے آئے ہیں۔
لیکن مسجد کے مولوی جی کا کردار ہر جگہ مثبت رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ جہاں ضرورت ہے مولوی صاحب کو وہیں موجود دکھایا ہے، جو بتا رہا ہے کہ ہمیں ان افراد کے باشعور ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی روایتی مولوی کا کردار نہیں ہے۔
مینو کا رشتہ آتا ہے۔ پہلے تو وہ نہیں مانتی کہ اسے پڑھنا ہے، ڈاکٹر بننا ہے مگر پھر راضی ہو جاتی ہے مگر اسے اپنے ہونے والے شوہر سے علیحدگی میں بات کرنا ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی بچہ پیدا کرے گی۔ اس پر وکیل کا منشی اس کو بد کردار کہہ کر چلا جاتا ہے۔
’میرا جسم میری مرضی‘ یہ نعرہ اصل میں یہی ہے کہ ایک عورت خود کتنی اولاد پیدا کرنا چاہتی ہے؟ وہ اولاد پیدا کرنے والی مشین نہیں بننا چاہتی۔ وہ بیماریوں کا گھر بن کر مرنا نہیں چاہتی بلکہ باوقار زندگی جینا چاہتی ہے۔ اس کو شعور ہے کہ وسائل کتنے ہیں اور اس کے مطابق اولاد کتنی ہونی چاہیے۔
لیکن کثرتِ اولاد مردانگی کا مسئلہ ہے یا بیٹے کی تمنا۔
ڈرامے میں پنجابی اور اردو گیت، فوک گیت، ٹپے، ماہیے، بولیاں، جدید پنجابی اور اردو شاعری اور گیت کی جہاں جہاں ضرورت تھی، وہاں وہاں ان کا انتخاب عمدگی سے کیا گیا ہے۔
اس بولڈ موضوع کو اتنے سیلقے اور سلجھاؤ سے سکرپٹ کیا گیا ہے کہ داد دینا بنتی ہے۔ ایک بہت مشکل سکرپٹ ہے جہاں قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔
مصطفیٰ آفریدی ڈرامے کے مصنف ہیں اور ہدایت کار سیف حسن ہیں۔ مکالمہ دماغ کے در کھول دینے والا ہے۔ ہمیں اس طرح کے ڈراموں کی ضرورت ہے، جن میں رشتے بھی سلامت رہیں اور روایتی بغاوت بھی نہ ہو، جس سے تنہائی جنم لیتی ہے۔
معاشرے کا ہر رنگ حسن سمجھا جائے، شعور کو کسی دوسرے سماج کا لباس نہ بنایا جائے اور اصل مسائل کو ان کے جغرافیے کے اندر رہ کر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ ڈراما کشف فاؤنڈیشن اور مومنہ درید پروڈکشن کی مشترکہ پیشکش ہے۔
ڈرامے کا جغرافیہ پنجاب کا ہے، بلاشبہ آبادی بھی پنجاب کی ہی سب سے زیادہ ہے۔
اس ڈرامے کو چار چاند اس کی موسیقی نے لگائے ہیں۔ پنجابی اور اردو گیت، فوک گیت، ٹپے، ماہیے، بولیاں، جدید پنجابی اور اردو شاعری اور گیت کی جہاں جہاں ضرورت تھی، وہاں وہاں ان کا انتخاب عمدگی سے کیا گیا ہے۔
ڈراما ہم ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔ مینو کا مرکزی کردار سجل علی نے بہت ہی خوب نبھایا ہے۔ سادگی کے سارے حسن نکھر کر پھیلے ہوئے ہیں۔
دیکھتے رہیے، ابھی مینو کی مشکلات میں بہت اضافہ ہونا ہے۔ یہ صرف مینو کا نہیں سماج کی ہر اس لڑکی کا کردار ہے جو کچھ کرنا چاہتی ہے اور معاشرہ رنگ بدل بدل کر اس کی زندگی عذاب یا موت بنا دیتا ہے، مگر اس سماجی جنگ میں کچھ پھولوں پہ بہار بھی آ ہی جاتی ہے۔