ادب خواص کا شعبہ رہا ہے لہذا یہ موضوع سخن خواص کا تھا جس طرح آج کل خواص کے باقی شعبہ جات کی نقاب کشائی ہو رہی ہے اس موضوع کی رونمائی کا وقت بھی آ گیا تھا۔
ہم ٹی وی کو کریڈیٹ جاتا ہے کہ اس نے کامیابی سے خواص کی اس دنیا کی پوشیدہ کہانیوں سے بہت سلیقے سے پردہ اٹھایا۔ اس سے پہلے خالص ادبی نوعیت کے کرداروں پہ مبنی ڈراما سکرین کی زینت نہیں بنا۔
کہانی کے اتنے پہلو ہیں کہ یہ بلاگ فیچر بن سکتا ہے۔
ادب اور ادیب گرہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں جس کی لابی بازی لے جائے وہ بازی گر بڑا ادیب ہے۔ اسی کو مشاعرے اور ادبی کانفرنسز کے مائک ملتے ہیں ایسے میں ادب بھی باقی تمام شعبہ جات زندگی کا ایک طرح کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔
ایک دوسرے کے مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں جیسا کہ ڈرامے میں بھی دکھائی دے رہے یہ سب ادیب و شعرا موقع پرست ہیں جیسے ہی حالات بدلتے، یہ اپنے مفادات، خیالات اور ترجیحات بدل لیتے ہیں۔
کہانی کا ہیرو احمد زریاب نرگسیت کا مارا، احساس کمتری و برتری میں بیک وقت مبتلا انسان ہے جس کے بارے میں غالب کا کیا خوب شعر ہے:
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
اجی آپ کو عشق نے نکما نہیں کیا، آپ تھے ہی نکمے، عشق کر کے غالب بننے کی تمنا کر بیٹھے تھے۔
تو یہ جناب زریاب اصل میں ٹھرکی خود پسندی کے مارے مجرم ذہنیت شاعر ہیں جن کو رب نے اگر ایک ہنر عطا کر دیا ہے تو وہ اس کا استعمال ڈھنگ سے بھی کر سکتے تھے لیکن اس نے اس ہنر کا استعمال مجرمانہ انداز سے کیا اور کئی زندگیاں کھا گیا۔ دو نسلیں اس نے برباد کر دیں۔
مزید کتنی نسلیں تباہ ہو جائیں اسے کوئی پرواہ نہیں۔
ایسی نامور محبت کی باتیں کرنے والی ہستیاں اپنی ذات میں کتنی مجرم صفت ہو سکتی ہیں یا ہوتی ہیں پہلی بار اس حقیقت کو سکرین پہ پیش کیا گیا۔
احمد زریاب اچھا شاعر تو تھا مگر اچھا انسان نہیں ہے۔
ادیبوں کا خیال ہے اچھے ادیب کا اچھا انسان ہونا معنی نہیں رکھتا، کیوں نہیں رکھتا بھئی؟ ڈراما اس بات سے پردہ اٹھا چکا ہے۔
کہانی پہ بات کرتے ہیں جو کہانی دو نسلوں کی بربادی، انتقام، حسد، ٹھرک، مطلب پرستی و موقع پرستی کی ہے جس میں کئی گھر خراب ہو گئے ہیں۔ محبت نام کے دھوکے سے کئی نا سمجھ لڑکیوں کی زندگی خراب ہو گئی ہے۔
ایسے نامور ناکام خود پرست شاعر کے لیے یہ سب عشق وشق کرنا فخر ہے لیکن انجام عبرت ناک ہوتا ہے کیونکہ ایک نظام فطرت کا بھی چل رہا ہے۔
اس ڈرامے میں فطرت کے اس نظام پہ بھی بات کی گئی ہے کہ شہرت اور ہوس کی بھی ایک عمر ہوتی یہ بھی انسان کی طرح فانی ہے۔
ڈرامے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ دور جوانی میں احمد زریاب شاعر بن گیا تھا۔ شاعر بھی نکما جو مشاعروں سے ملنے والی معمولی رقم سے گزر بسر کرتا تھا۔ شکل صورت بھی خالق نے کوئی بہتر دے دی تھی۔ ان دو قدرتی خوبیوں کے علاوہ اس کے پاس ذاتی کامیابی عشق لڑانے کا فن تھا۔
جسے اس نے کیش کروایا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ گھر کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا اس لیے اس نے جن جن خواتین سے محبت کا ڈھونگ رچایا ان میں سے سب سے کامیاب عورت کو بیوی کے لیے منتخب کر لیا یوں ڈاکٹر عدیلہ اس کی بیوی بن گئی۔
ایسی محبت کی شادی میں گھر کی کفالت کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر عدیلہ پہ آ گئی بلکہ وہ احمد زریاب کی بھی کفیل بن گئی۔ اس کے باوجود احمد زریاب پہ اپنی شہرت کا نشہ تھا جب جو منہ میں آیا، وہ گند وہ کہیں بھی نکال دیتا ہے۔
اونچی دکان پھیکا پکوان جیسا کردار ہے۔
احمد زریاب خود تو مشہور شاعر بن گیا تھا کہ اب اپنی شہرت کا سہارا لیتے ہوئے ہر نئی لکھنے والی لڑکی کو یا حسین لڑکی کو شاعری لکھ کر دینا اور اسے پروین شاکر بنانے کے خواب بیچنے لگا۔
جوانی دیوانی ہوتی ہے اور ہوس بے رحم و بھیانک، ڈراما اب تک بتا چکا ہے نادان جوانی اور ہوس مل کر کیا عبرت ناکی بپا کر سکتے ہیں۔
احمد زریاب ڈاکٹر عدیلہ کی تین سہیلیوں چھاجو، تابندہ، رخشندہ سے بھی محبت کا ڈھونگ رچاتا رہا تھا۔ تابندہ اچھی شاعرہ تھی اس کی شاعری میں ذرا رد و بدل کر کے چوری بھی کرتا رہا۔ اس کی اپنی تخلیق سے بھی پوری نہیں پڑتی تھی یہ اتنا بھوکا انسان تھا کہ اسے ہرشے سے اپنا حصہ چاہیے ہوتا ہے۔
اس ایک مرد کی وجہ سے چار اچھی کلاس فیلوز اور سہیلیاں ایک دوسرے سے بد زن ہو گئیں مگر کسی حد تک عملی زندگی میں احمد زریاب کی نسبت کامیاب خواتین بن گئیں۔
ان سب خود مختار خواتین کو احمد زریاب کی طرح مشاعرے کے پیسوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ وہ ان جیسوں کو اب پال سکتیں تھیں اور ان جیسے امیر عورتوں کی دولت پہ پلتے بھی ہیں۔
بس یہ سب گمنام رہ جاتی ہیں کیونکہ نادان خواب تو بڑی شاعرہ بننے اور شہرت کا تھا۔
چھاجو اور تابندہ نے اس ٹروما میں شادی نہیں کی۔ مشہور زریاب کو تو اصل میں کسی سے بھی محبت نہیں تھی۔ وہ تو بس دل لگی کا عادی تھا ایک کے بعد ایک شکار کرنا اس کی انا کو تسکین دیتا تھا جس کے لیے وہ کوئی بھی گھٹیا حرکت کر سکتا تھا۔
وقت گزرا ڈاکٹر عدیلہ بھی تھکتی جا رہی تھی ساری عمر وہ اسے شاعر سمجھ کر، حساس انسان سمجھ کر وقت کاٹتی رہی مگر ایک خاص عمر میں اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ حساس نہیں مجرم صفت انسان بن چکا ہے۔ عورت اس کے لیے کھیل تماشا ہے۔
جو شاعر استاد بنتا ہے اورعورت کو دربدر کر دیتا ہے۔
پینی ایک خوش حال گھرانے کی بہو تھی، سلجھی ہوئی خاتون خانہ بس با ادب انسان کی طرح شاعری کا شوق تھا۔
احمد زریاب اس کو شاعرہ بنا کر میدان ادب میں لایا، کچھ کچی پکی شاعری کے بعد احمد زریاب سمیت مفت میں چائے، پانی بوتل کے متلاشی ادبی حلقوں میں وہ اپنے گھر کی دولت لانے لگی اسے نشہ کی عادت ڈال کر اسے چوری کی طرف لگایا گیا۔
اسے اتنا بے بس کر دیا گیا کہ بات گھر سے نکلنے اور خود کشی تک آ گئی اور ایک دن وہ احمد زریاب کے سب پول ایک بلاگ لکھ کر کھول دیتی ہے اور خودکشی کر لیتی ہے۔
اب پینی کو برباد کر چکنے کے بعد احمد زریاب حسنہ حسین حسنی کی نوجوانی کے اسیر ہو جاتے ہیں اور وہ لڑکی جس کے لیے لوئیر مڈل کلاس سے نکلتا خواب تھا۔
اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں، وہ احمد رزیاب کو لے اڑیں۔ جہاں آرا جو اس کی سہیلی تھی اس کا ذاتی مسئلہ شہرت یا شاعری تھا ہی نہیں۔
اس کی ماں کو احمد زریاب نے جوانی میں دھوکہ دیا تھا، دوم اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیے اپنی بیٹی کو ان بے ڈھنگے ادیبوں کے چنگل میں دھکیل دیا مگر جہاں آرا یہ سیاہ کاری برداشت نہ کر سکی اور ادب سے کنارا کش ہو گئی۔
پینی کی پنکھے سے لٹکی لاش کی شناخت ہو گئی ہے۔ سوچیے کتنی پینی نما شاعرات اب تک خود کشی کر چکی ہے؟
گتنی آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی۔ انسان آئی سی یو سے سرد خانے جاتا ہے جبکہ ڈراما سرد خانے سے ہوتا ہوا آئی سی یو میں داخل ہو گیا ہے کہ احمد زریاب کو پولیس نے پینی کے خودکشی یا قتل کیس میں گرفتار کر لیا۔
ڈرامے کا عنوان جس شعر پہ ہے وہ ’راجندر ناتھ رہبر‘ کا ہے:
تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے
پیار میں ڈوبے ہوئے خط میں جلاتا کیسے
اس نظم میں ڈرامے کی کہانی کا اصل درد چھپا ہوا ہے۔
یہ تو کہانی کی بات ہوئی، بات کرتے ہیں کہانی اور ڈرامے سے اوپر یا سکرین سے پیچھے کی تو جناب قصہ بہت ہی دلچسپ ہے۔
اس دوران ہم جس ادبی میلے میں گئے، جس کتابی میلے میں گئے ایک شدید غصہ دکھائی دیا۔ ہم نے بھی تبصرہ سمجھ کر سنا۔ ایک ادیب نما صاحب کا کہنا تھا کہ ’ہم مردوں سے تو کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ مرد کے لیے ٹھرک کیا ہوتی ہے۔ مرد کی ٹھرک کا مثبت پہلو ہوتا ہے۔‘
دل کو کیا کہہ دیں ’جناب آپ کی ٹھرک جو بھی ہوتی ہے اس کا اثر سماج پہ کیسے ہوتا ہے۔ بات اسی جرم کی ہوئی ہے مگر خاموشی سب سے بڑی زبان ہے۔‘
پچھلے دنوں ہم ٹی وی کی کونٹینٹ ہیڈ سائرہ غلام نبی سے ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے ممکن نہیں تھا کہ اس ڈرامے پہ بات نہ ہوتی تو باتوں میں بات چھڑ ہی گئی تو سائرہ غلام نبی کہنے لگیں ’رابعہ! یہ کردار سمجھو ادب کے کیری کیچر ہیں۔
’رابعہ یہ کردار بہت دیکھے بھالے تھے اور اتنے دیکھے بھالے کہ ان سے مکمل کنارہ کشی کے باوجود یہ سامنے آتے رہے اس کا مطلب ہے کہ اب یہ ہی ادب کے منظر نامے یا سٹیج سنبھالے ہوئے ہیں اور اصل کام کرنے والے ان سے پرے ہیں۔‘
بات دل کو لگی۔
مصنفہ آمنہ مفتی سے ان کا حال دل نہ پوچھا جاتا ایسے بھی حالات نہیں تھے۔ ہم نے آمنہ مفتی سے پوچھا ’یہ ڈراما لکھنا کتنا مشکل تھا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بس اک سرد آہ ہی بچی تھی جو انہوں نے نہیں بھری اور کہنے لگیں : ’تمہیں اندازہ ہی ہے کہ بہت مشکل تھا۔ بہت سارے چہروں سے نقاب اتاری۔ کردار تو فکشن ہی تھے لیکن فکشن بھی تو ہمارے چاروں طرف سے اٹھتی ہے ناں۔‘
’یہ سکرپٹ چار سال میں لکھا گیا۔ کچھ سکرپٹ جلدی بھی لکھے جاتے ہیں۔ کچھ سکرپٹ میں 22 دن میں بھی لکھ لیتی ہوں۔ اس کے کردار خاص طور پہ احمد زریاب کا کردار، وہ مجھے ایک ٹکسٹ بک کیس دکھانا تھا۔ ایک خود پرست کردار اور عدیلہ کا کردار، وہ ہمارے ہاں کی نوے فی صد خواتین ہیں۔‘
آمنہ مفتی نے کہا کہ ’خواتین کے ساتھ سب کچھ ہوتا ہے مگر پتا نہیں کیا Stockholm Syndrome ہے۔ میرے لیے یہ دو مرکزی کردار بنانے بہت مشکل تھے۔ ان پہ میں نے بہت سوچا بہت سمجھا کیونکہ اتنا سفاک کردار لیکن اس کردار کو آپ نے مرکزی کردار رکھنا ہے تو یہ بھی ایک مشکل کام تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پھر اس میں آپ دیکھیں عورتوں کے کردار کے بہت سارے شیڈز ہیں۔ جہاں آرا، حسنی، رخشندہ، تابندہ، چھاجو اور حسنہ کی ماں، عدیلہ اورعدیلہ کی والدہ ان سب کرداروں کے الگ الگ رنگ اور شیڈز ہیں۔ اسی طرح مردانہ کردار بھی کئی طرح کے ہیں۔
ایک احمد زریاب ہے، اس کے والد ہیں، پرویز کا ایک مختلف کردار ہے، رضوی صاحب اور چیز ہیں، شہریار ایک اور مخلوق ہے، آفاقی ایک اور طرح کی چیز ہے۔‘
’ہر کردار سکرین پہ پہلی دفعہ نمودار ہوا ہے۔ لباس، چہرے، گفتگو سب اپنی الگ ڈکشن کے ساتھ دکھائی دیا ہے اور ہر کردار دوسرے سے مختلف ہے۔ میری یہی کوشش تھی کہ کوئی کردار دوسرے جیسا نہ ہو۔
’ڈائریکٹر ثاقب خان نے بھی اس چیز کو پکڑا۔ سب کردار الگ الگ ڈیزائن کیے اور سب ایکٹرز نے بہت محنت کی۔ خاص طور پہ میرے لیے پینی کا کردار لکھنا بہت مشکل تھا۔ زندگی سے اتنا بھرپور اور خوبصورت کردار ایسے کردار کی موت بہت تکلیف دہ چیز ہوتی ہے۔‘
انہوں نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے جیسے ہر کہانی کا ایک قاری ہوتا ہے اس تک کہانی پہنچنا اہم ہے یونہی اس کہانی کی جو ٹارگٹ آڈیئنس تھی، کہانی ان تک پہنچی، یہ کرم ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔