1965 میں ہونے والی پاک انڈیا جنگ کو 59 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن اب تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ جنگ کس نے جیتی تھی۔
پاکستان اسے نہ صرف اپنی فتح قرار دیتا ہے بلکہ ہر سال چھ دسمبر کو یوم ِدفاع کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب تین ہفتوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں انڈیا خود کو فاتح سمجھتا ہے۔
لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ صدر ایوب خان اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی بھونچال میں سنبھل نہیں پائے اور ان کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
انڈین وزیر اعظم لال بہادر شاستری جنگ بندی کے معاہدہ تاشقند کی رات ہی انتقال کر گئے۔ ان کی موت کی پراسراریت آج تک برقرار ہے اور بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا۔
اس موضوع پر 2020 میں انڈیا میں ایک فلم ’تاشقند فائلز‘ کے نام سے بنی جس میں لال بہادر شاستری کے مبینہ قتل کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
صدر ایوب کے پرسنل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے بھی تاشقند معاہدے کے وقت صدر ایوب اور ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے مابین تلخی کا ذکر اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں کیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ایک موقع پر مذاکرات کے دوران کسی نکتے پر بھٹو نے صدر ایوب کو کوئی مشورہ دینے کی کوشش کی تو صدر نے غصے سے جواب دیا، ’الو کے پٹھے بکواس بند کرو۔‘
اس پر بھٹو نے کہا کہ ’سر آپ ہر گز یہ فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو جاننے والا بھی ضرور ہو گا۔‘
آنے والے دنوں میں دیکھا گیا کہ معاہدہ تاشقند سے بھٹو اور صدر ایوب کے راستے جدا ہو گئے اور ایوب کے خلاف تحریک چلی جس میں بھٹو ایک مقبول لیڈر بن کر ابھرے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی تحریروں اور تقریروں کے اقتباسات پر مشتمل طاہر اصغر کی کتاب ’فوج کا سیاسی کردار‘ مطبوعہ احمد پبلیکیشنز لاہور میں معاہدۂ تاشقند اور جنگ ستمبر کے حوالے سے بہت اہم باتیں شامل ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اس لیے ان واقعات کے عینی شاہد تھے۔ ان میں سب سے اہم تقریر آٹھ مارچ 1970 کی ہے جو انہوں نے موچی دروازہ لاہور میں ایک جلسہ عام میں کی تھی۔
ذیل میں ان کی تقریروں کے اقتباسات کے حوالے سے جنگ ستمبر کے پانچ انتہائی اہم نکتے بیان کیے گئے ہیں:
1962 میں چین انڈیا جنگ اور کشمیر آزاد کرانے کا نادر موقع
ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’1962 میں چین انڈیا جنگ کے دوران ہمارے شہسوار (صدر ایوب) ہنزہ کی سیر و سیاحت میں مصروف تھے اور ایک خچر پر بیٹھے تصویریں بنوا رہے تھے۔
تب پورا ہمالیہ لرز رہا تھا، چین کا سایہ آسام کو ڈھانپ رہا تھا، انڈیا ساری فوجیں کشمیر سے نکال چکا تھا، سارا کشمیر خالی پڑا تھا، چینی سفیر ہمارے صدر کے لیے پیغام لے کر پھر رہا تھا۔ لیکن ہمارا شہسوار اس وقت ہنزہ سے واپس آیا جب لڑائی ختم ہو چکی تھی۔
’یہ بہت اہم موقع تھا۔ اگر اس وقت ہم کوئی قدم اٹھا لیتے تو یہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتا اور تنازع ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔
’لیکن ہمارے شہسوار نے کہا کہ ہم ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ جیسے ہم کوئی ڈاکہ ڈال رہے تھے۔ عالمی رائے عامہ کا خوف تھا۔
’اقوام متحدہ کیا کر سکتی تھی جو خود کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرا سکی۔ فلسطین میں اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کرا سکی۔‘
جب جنگ شروع ہوئی تو جنرل ایوب سوات میں گالف کھیل رہے تھے
ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’انڈیا نے آٹھ اپریل کو کوٹنگ پر بمباری کی۔ شاستری نے کنجر کوٹ کو انڈین ملکیت قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کنجر کوٹ سے نکل جائے کیونکہ یہ انڈیا کا علاقہ ہے۔
’حالانکہ سارا رن آف کچھ پاکستان کا علاقہ تھا۔ انڈیا دیکھنا چاہتا تھا کہ پاکستان کیا رد عمل دیتا ہے الحمد اللہ ہماری بہادر افواج نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسے زبردست شکست دی۔
’جنرل ٹکا خان اور برگیڈئر جنجوعہ اس محاذ پر پاکستانی فوج کی قیادت کر رہے تھے اور قریب تھا کہ ہماری افواج کا ایک بریگیڈ ہندوستان کی ایک ڈویژن فوج کو تباہ کر دیتا کہ ہمارے شہسوار نے ہماری افواج کو جنگ جاری رکھنے سے روک دیا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔
’کشمیری عوام کی جدو جہد سے خائف ہو کر انڈیا نے 23 اگست کو پاکستان کے ایک گاؤں اعوان شریف پر بمباری کر کے 25 پاکستانی شہریوں کو جان سے مار دیا۔ 24 اگست کو انڈیا نے ٹیٹوال اور 25 اگست کو درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔
’یکم ستمبر کو پاکستانی فوج نے ان حملوں کا جواب دیا اور چھمب پر قبضہ کر لیا۔ جس وقت انڈین فوجیں پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہی تھیں۔
’ایوب خان سوات میں گالف کھیل رہے تھے۔ میں راولپنڈی سے بذریعہ طیارہ رسالپور پہنچا۔ وہاں سے ٹیکسی لے کر سوات گیا۔ والی سوات سے صدر ایوب کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ گالف کھیل رہے ہیں۔
’میں نے کہا کہ ’صدر صاحب، انڈیا ہمارے خلاف مسلسل جارحانہ کارروائیاں کر رہا ہے آپ مہربانی فرما کر ان کا جواب دینے کا حکم دیں۔ اگر ہم نے جواب نہ دیا تو انڈیا آزاد کشمیر اور پھر پاکستان پر قبضہ کر لے گا۔‘
پاکستانی فوج اکھنور پر قبضہ کر لیتی تو منظرنامہ مختلف ہوتا
’جب ہماری فوجوں کو جوابی کارروائی کا حکم ملا تو اس نے دشمن کا ڈٹ کا مقابلہ کیا۔ ہماری فوجیں مسلسل آگے بڑھ رہی تھیں اور اکھنور صرف چار میل دور تھا۔
’اگر پاکستانی فوج اکھنور پر قبضہ کر کے جموں کو کاٹ دیتی تو ہندوستان کی چھ ڈویژن فوج بالکل تباہ ہو جاتی۔ یحییٰ خان اس محاذ کے انچارج تھے انہوں نے مجھے کہا ’ہمیں اکھنور پر قبضہ کر لینا چاہیے۔‘
میں نے کہا: ’ضرور کریں۔‘
لیکن ایوب نے کہا کہ ’فوجیں واپس بلاؤ، لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں کی حفاظت کرو۔‘
یحییٰ خان نے صدر ایوب کو کہا کہ ’جب تک ہندوستانی فوجیں لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں تک پہنچیں گی اس وقت تک پاکستانی فوجیں اکھنور پر قابض ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایوب نے یہ بات نہ مانی۔‘
برطانوی سفیر نے جنگ بند نہ کرنے کی صورت میں ایٹمی جنگ کی دھمکی دی
’کھیم کرن سیکٹر پر ہمارا کافی نقصان ہو چکا تھا۔ دو بار ہماری فوجیں امرتسر کے نواح میں پہنچیں لیکن دونوں بار انہیں واپس بلا لیا گیا۔
’ جنرل یحییٰ خان، ایئر مارشل نور خان اور ایئر مارشل رحیم سب انڈیا کو سبق سکھانا چاہتے تھے لیکن موسیٰ خان اور ایوب پریشان تھے۔
’اس موقع پر میں سلامتی کونسل سے اعلان کر رہا تھا کہ ہم ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔ جنرل موسیٰ مجھ سے پوچھ رہا تھا: کہاں ہے چین؟ اسے بلاؤ۔
’میں نے اسی روز چین کے سفیر کو طلب کیا اور اسے کہا کہ ہم جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہمارا مقابلہ ایک ظالم اور اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن سے ہے۔ آپ ہماری کیا مدد کریں گے؟
’چینی سفیر نے کہا کہ جب چین کوئی قدم اٹھائے گا دنیا ہل جائے گی۔ دو دن بعد چینی سفیر نے مجھ تک چینی صدر کا پیغام پہنچایا اور بتایا کہ ہم نے انڈیا کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر اس نے ہمارے 30 خچر فوری طور پر واپس نہ کیے تو ہم تین اطراف سے ہندوستان پر چڑھائی کر دیں گے، نیفا سے آسام پر پر قبضہ کر لیں گے۔ لداخ سے سرینگر پر حملہ آور ہوں گے اور بیچ سے دہلی پر قبضہ کر لیں گے۔
’چین کے الٹی میٹم سے ہندوستان کانپ اٹھا ۔ برطانیہ کے سفیر ہمارے صدر صاحب سے ملے اور کہا کہ اگر چین نے پاکستان اور انڈیا جنگ میں مداخلت کی تو ایٹمی جنگ چھڑ جائے گی۔
’میں نے کہا ایٹمی جنگ تو اب تک ویت نام میں شروع نہیں ہوئی اور پھر ہم تو سیٹو اور سینٹو کے رکن ہیں، کیا آپ ہم پر ایٹم بم پھینکیں گے؟
’لیکن ایوب خان اس صورت حال سے گھبرا گئے اور انہوں نے کہا کہ میں چینی سفیر سے الٹی میٹم واپس لینے کے لیے کہوں۔
’میں نے چینی سفیر سے بات کی تو اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ لوگ کیا چیز ہیں؟ کبھی کہتے ہو ہندوستان کو الٹی میٹم دو اور کبھی کہتے ہو الٹی میٹم واپس لو۔
’چینی سفیر نے کہا کہ ہم بہادر قوم ہیں اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو ایٹم بم پاکستان پر نہیں بلکہ چین کے سینے پر گریں گے۔‘
انڈیا نے بھٹو کا طیار گرانے کی منصوبہ بندی کی؟
’میں سلامتی کونسل میں جانا چاہتا تھا تاکہ دنیا کو بتا سکوں کہ انڈیا کیا جارحیت کر رہا ہے، لیکن مجھے روکا گیا کہ ملک میں تمہاری ضرورت ہے۔
’میرے دوست ایس ایم ظفر کو سلامتی کونسل میں بھیجا گیا لیکن انہوں نے نیویارک جا کر ٹیلی فون کیا کہ بھٹو کو یہاں بھیجو حالات خراب ہیں۔ جنگ جاری تھی اور دو روز قبل گجرات کے وزیر اعلی ٰ طیارے حادثے میں مارے جا چکے تھے۔
’راولپنڈی سے میری روانگی کے ساتھ ہی ریڈیو پر اعلان کر دیا گیا کہ میں نیویارک جانے کے لیے کراچی سے روانہ ہو گیا ہوں۔
’طیارے کا پائلٹ تشویش میں مبتلا تھا کہ انڈین طیارے پیچھے لگ جائیں گے تاکہ اپنے دشمن نمبر ایک کو ختم کر سکیں۔ ہمیں اپنا طیارہ سیدھے راستے کی بجائے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے لے جانا پڑا۔
’نیویارک پہنچ کر مجھے بتایا گیا کہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں، راولپنڈی سے جنگ بندی کا فیصلہ آنے والا ہے آپ صرف پڑھ کر سنا دیں۔
’بعد میں جب اعلان تاشقند ہوا تو میں نے مخالفت کی تھی، لیکن مجھے ایئر پورٹ پر تین افراد ملے جن میں سے ایک نام جانتا ہوں۔
’کرنل قریشی نے کہا کہ میں اعلانِ تاشقند اور رن آف کچھ کے بارے میں کوئی بات نہ کروں کیونکہ یہ سرکاری رازوں کے ایکٹ میں آتے ہیں۔ لیکن میں سرکاری رازوں کے ایکٹ سے واقف ہوں ملک کا وزیر خارجہ رہ چکا ہوں خود بھی قانون جانتا ہوں۔
’یہ کتنا ظلم ہے کہ مجھے ایسی باتیں کہنے کی اجازت نہیں دی جاتی جن سے ملک کو نقصان نہیں پہنچتا ہے۔ میں قوم کو یہ ضرور بتاؤں گا کہ معاہد ہ تاشقند میں صدر ایوب نے کیا کیا اور موسی ٰ کا کیا کردار رہا ہے؟‘
غیر جانب دار مبصرین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تقریروں میں صدر ایوب پر جو الزامات لگائے وہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے تھے اور حقیقت اس کے برعکس تھی۔
’مثال کے طور پر رن آف کچھ کے علاقے کنجر کوٹ اور بیاربیٹ پر قبضہ پاکستانی فوج نے 26 اپریل 1965 کو کر لیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے جولائی میں ’آپریشن جبرالٹر‘ شروع کیا تھا جو گوریلا کارروائیوں پر مشتمل تھا جسے ذوالفقار علی بھٹو کی تائید حاصل تھی لیکن یہ آپریشن ناکام ہو گیا جس پر ’آپریشن گرینڈ سلیم‘ ترتیب دیا گیا۔
’ مگر 25 اور 26 اگست کو انڈیا نے آزاد کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور چھ ستمبر کو انڈیا نے پاکستانی کی بین الاقوامی سرحد عبور کر لی۔
’اس جنگ کے دوران صدر ایوب نے 19 اور 20 ستمبر کی درمیانی رات چینی وزیر اعظم چو این لائی سے ملاقات کے لیے چین کا خفیہ دورہ بھی کیا تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے ہمراہ تھے۔
’بھٹو اس جنگ کی تمام نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھے مگر انہوں نے بعد میں اپنے سیاسی مفادات کے لیے ان واقعات کو توڑ مروڑ کر بیان کیا۔‘
صدر ایوب کے پرسنل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی کتاب شہاب نامہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے الزامات کو عامیانہ الزام تراشی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صدر ایوب کی معزولی کے بعد انہوں نے یہ تہمتیں لگانا بند کر دی تھیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ الزام شروع ہی سے بے بنیاد تھا۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک وقت میں جو الزامات صدر ایوب پر معاہدہ تاشقند کے حوالے سے لگائے تھے ویسے ہی الزامات ان کے مخالفین نے شملہ معاہدے کے وقت ان پر عائد کیے۔
یہ بات بھی تواتر کے ساتھ کی گئی کہ اس معاہدے کی کچھ خفیہ شقیں بھی ہیں جن کے تحت پاکستان مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہو چکا ہے جس کا جواب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے۔