1965 کی پاکستان انڈیا جنگ: چین اور سوویت یونین نے کیا کردار ادا کیا؟

صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان اس آپریشن کے حق میں نہیں تھے اور انہیں ان کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری اطلاعات نے بھی اس آپریشن سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔

معاہدۂ تاشقند ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا اہم موڑ (پبلک ڈومین)

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم موڑ سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ جنگ چھ ستمبر 1965 کو انڈیا نے مسلط کی تھی جب اس نے ’رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بین الاقوامی سرحد کو عبور کیا تھا۔

دوسری جانب انڈین مورخین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ کئی ماہ سے ہلکی پھلکی جھڑپوں کی صورت میں جاری تھی اور اس میں تیزی اس وقت آئی تھی جب جولائی کے مہینے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کو انڈیا کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کروانے کے لیے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا جسے ’آپریشن جبرالٹر‘ کا نام دیا گیا۔

اس بارے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس آپریشن کا مقصد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں خفیہ طریقوں سے مسلح کارروائی کرنا تھا تاکہ وادی میں انڈیا سے آزادی کی راہ ہموار کی جا سکے اور ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ وہاں موجود انڈین فوجی قوت کمزور پڑ جائے اور پھر براہ راست فوجی حملہ کر کے کشمیر حاصل کر لیا جائے۔

اس وقت پاکستان فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ نے اپنی کتاب ’مائی ورژن‘ میں اس منصوبے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

ان کے مطابق آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی ایک سال قبل 1964 میں شروع ہوئی تھی۔ جی ایچ کیو نے کشمیر کی آزادی کے دو متوازی منصوبے تیار کیے تھے، ایک منصوبے کا مقصد جنگ بندی لائن کے پار سبوتاژ کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور دوسرے کا مقصد کشمیر میں بھیجے جانے والے گوریلوں کو امداد کی فراہمی تھا۔

ان دونوں منصوبوں کی تیاری اور گوریلوں کو تربیت دینے کی ذمہ داری جی ایچ کیو کی جانب سے 12 ڈویژن کو سونپی گئی تھی جس کا ہیڈ کوارٹر مری میں تھا۔ یہ منصوبے جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل اختر حسین ملک نے تیار کیے تھے جب کہ انہیں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکریٹری جنرل خارجہ عزیز احمد کی تائید بھی حاصل تھی۔

صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان اس آپریشن کے حق میں نہیں تھے اور انہیں ان کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری اطلاعات نے بھی اس آپریشن سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ایک بے وقت مہم جوئی سے زیادہ کچھ نہیں اور ہوا بھی یہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ منصوبہ داخل دفتر کر دیا گیا۔

اپریل 1965میں رن کچھ کے علاقے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کچھ فوجی جھڑپیں ہوئیں۔ برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے دونوں حکومتوں کے مابین مفاہمت کروانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ 30 جون 1965 کو دونوں ممالک نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے اور یہ معاملہ ایک بین الاقوامی ٹریبونل کے سپرد کر دیا گیا۔

رن کچھ کے قضیے کے بعد پاکستان فوج کے ذمہ داروں نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے تیار کیا گیا مسلح مداخلت کا منصوبہ دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اس وقت کے پاکستان فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ نے اپنی کتاب ’مائی ورژن‘ میں اس منصوبے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں، ’جب حکومت نے فیصلہ کیا کہ انڈین انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے اندر کارروائی کرنی ہے تو میں نے 12ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کو ہدایت کی کہ وہ آپریشن کے لیے منصوبہ تیار کریں، اس آپریشن کا خفیہ نام ’آپریشن جبرالٹر‘ رکھا گیا۔

’جی ایچ کیو نے اس منصوبے کی توثیق کی اور اس میں مناسب ترمیم اور اضافہ بھی کیا۔ سات اگست 1965 کو اس آپریشن کے آغاز سے پہلے میجر جنرل اختر حسین ملک نے مری میں ریت کا ایک ماڈل بنا کر اس کی ریہرسل کی، اس آپریشن پلان پر ہمارا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ منصوبہ مختصر المیعاد بنیادوں پر تیار کیا گیا تھا، اس میں عسکری نوعیت کے اہداف تک پہنچنا، سبوتاژ کرنا اور رسل و رسائل کے ذرائع تباہ کرنا شامل تھا۔

’اس منصوبے کا طویل المیعاد پہلو یہ تھا کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے عوام میں اسلحہ تقسیم کیا جائے اور وہاں گوریلا لڑائی کے لیے فضا تیار کرکے بغاوت کی تحریک کو تقویت پہنچائی جائے۔ اس منصوبے میں حصہ لینے والے مجاہدین کی تعداد سات ہزار تھی جو آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور جنہیں ایک مختصر سے وقت میں گوریلا تربیت دی گئی تھی۔ ان مجاہدین کو ذاتی ہتھیاروں کے علاوہ ہلکی مشین گنوں اور مارٹروں سے مسلح کیا گیا تھا اور انہیں وائرلیس سیٹ بھی مہیا کیے گئے تھے۔‘

آپریشن جبرالٹر کی ذمہ داری مسلم فاتحین سے موسوم طارق، قاسم، خالد، صلاح الدین اور غزنوی نام کے پانچ دستوں کے سپرد کی گئی تھی۔ اس آپریشن کی مدد کے لیے ایک اضافی آپریشن بھی تشکیل دیا گیا تھا جس کا نام نصرت تھا۔ یہ تمام دستے 24 جولائی 1965 کو اپنے اپنے محاذوں پر روانہ ہوئے اور 28 جولائی کو اپنی اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہاں سے وہ جنگی بندی لائن کو عبور کرکے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کارروائی کے لیے اپنے متعینہ مقامات کی طرف روانہ ہو گئے۔

جنرل موسیٰ کے مطابق آپریشن کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ برسر پیکار کمانڈوز اور مجاہدین کو عقب سے کمک پہنچانے اور سری نگر تک قبضے تک اس آپریشن کو جاری رکھنے کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کمانڈوز اور مجاہدین نے وقتی طور پر تو اپنا مقصد حاصل کر کے انڈین فوج کو حیران کر دیا تھا لیکن کمک کی عدم دستیابی اور دوسرے عوامل نے ان کو باقاعدہ افواج کے سامنے بے بس کر دیا تھا۔

اگست کے تیسرے ہفتے تک تمام کا تمام آپریشن جبرالٹر منتشر ہو کر دم توڑ چکا تھا۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد پاکستان کی فوجی قیادت نے آپریشن گرینڈ سلیم (Grand Slam) شروع کیا جس کا مقصد انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں متعین انڈین فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کی غرض سے ریل کے واحد رابطے کو منقطع کرنے کے لیے اکھنور پر قبضہ کرنا تھا مگر یہ آپریشن بھی وقت کے موزوں انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا۔

عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن، آپریشن جبرالٹر سے پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلیم محض اقدام خودکشی تھا۔ان دونوں آپریشن کے نتائج خطرناک نکلے اور انہیں کے بطن سے 1965 کی پاک انڈیا جنگ برآمد ہوئی۔

چھ ستمبر 1965 کو انڈیا نے بین الاقوامی سرحد عبور کرلی، جس کی اطلاع ایوب خان کو صبح چار بجے کے قریب ملی۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ پاکستان کے کچھ علاقے انڈیا کے اور انڈیا کے کچھ علاقے پاکستان کے قبضے میں آ گئے۔

اس وقت اخباروں میں چھپنے والی خبروں کے مطابق 11 ستمبر 1965 کو سیکریٹری دفاع نذیر احمد نے جنرل ایوب کو بتایا کہ بعض ممالک نے پاکستان کو اسلحہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ 15 ستمبر کوامریکی صدر جانسن سے امن کی درخواست کی۔ اسی دن انڈیا نے بھی سلامتی کونسل میں بیان دیا کہ ہم جنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر جنگ جاری رہی۔

17 ستمبر کو عوامی جمہوریہ چین نے ایک بیان جاری کیا جس میں انڈیا سے کہا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرے۔ پاکستان نے چین کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مغربی طاقتوں نے پاکستان پر دباﺅ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جنگ بندی کا سمجھوتا قبول کر لے۔ خود پاکستان بھی مسئلہ کشمیر کو فوجی طاقت کی بجائے سفارتی طاقت سے حل کرنے کے حق میں تھا چنانچہ ایسے موقع پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دیرینہ حلیف اور دوست عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے براہ راست مشاورت کریں۔ چنانچہ 19 اور 20 ستمبر 1965 کی درمیانی شب، صدر ایوب خان پشاور سے ایک طیارے کے ذریعے خفیہ دورے پر بیجنگ پہنچے اور اگلی شب واپس آ گئے۔

الطاف گوہر کی کتاب ’پہلے فوجی راج کے دس سال‘ کے مطابق اس دورے میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے ہمراہ تھے۔ دونوں نے چو این لائی اور مارشل چن ژی کے ساتھ دو طویل ملاقاتیں کیں۔ بات چیت کے اختتام تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ اگر پاکستان چین کی مکمل حمایت چاہتا ہے تو اسے ایک طویل جنگ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے، جس میں لاہور اور بعض دیگر شہر دشمن کے قبضے میں بھی جا سکتے ہیں۔

ایوب خان نے پوچھا، ’آپ کا یہ دباﺅ کب تک برقرار رہے گا؟‘ چو این لائی نے ایوب خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ’جب تک آپ کو اس کی ضرورت ہو گی، خواہ آپ کو پہاڑوں تک پسپائی کرنا پڑے۔‘

 چین نے پاکستان سے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اور روس دونوں ناقابل اعتبار ہیں اور پاکستان کو نہ ان کے سامنے جھکنا چاہیے اور نہ ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔

 ایوب خان حیران تھے کہ وہ اس غیر مشروط پیشکش کا کیا جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جناب وزیراعظم میرا خیال ہے کہ آپ کچھ عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘

چو این لائی نے مسکراتے ہوئے ایوب خان کو امریکی دباﺅ کے سامنے جھکنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو روسیوں کے جال میں بھی نہیں پھنسنا چاہیے وہ ناقابل اعتماد ہیں، آپ کو آخرکار خود ہی پتہ چل جائے گا۔ چینی رہنماﺅں کا خیال تھا کہ پاکستان کو پہنچنے والا ہر نقصان پاکستان کے عوام کو متحد کرنے کا باعث ہو گا اور انڈین فوجیں عوامی مزاحمت کے نرغے میں پھنس کر رہ جائیں گی مگر بھٹو اور ایوب دونوں میں سے کوئی بھی اس کام کے لیے تیار نہ تھا۔

پاکستانی حکام ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ بری اور فضائی افواج کے سربراہان بھی جنگ بندی کے خواہاں تھے کیونکہ ان کی طاقت دن بدن گھٹتی جا رہی تھی۔ جنرل موسیٰ اسلحے اور اضافی پرزوں کی شدید قلت کی بنا پر حوصلہ ہارے ہوئے تھے اور ایئر مارشل نور خان طیاروں کی روز بروز گھٹی ہوئی تعداد سے دلبرداشتہ تھے۔ ہر فضائی جھڑپ کے بعد پاک فضائیہ کے دو ایک طیارے کم ہو جاتے تھے۔

لارنس زائرنگ نے اپنی کتاب ’دی ایوب خان ایرا‘ میں لکھا ہے کہ ’اس جنگ میں پاکستان کو کشمیر میں فوجی سرگرمیوں سے رکنا پڑا اوراسے اتنے بڑے علاقے کے دفاع پر مجبور ہونا پڑا جس کے لیے اس کی افواج کے پاس پورے وسائل نہیں تھے۔ پاکستان کا بھاری جنگی سازو سامان ،ہتھیاروں کا نظام اوراس کے پرانے ایئر کرافٹس سبھی کچھ جنگ میں کام آ گیا۔

’پاکستان نے امریکہ سے امداد چاہی مگر امریکہ کے علاوہ سیٹو اور سینٹو کے معاہدے میں جڑے ہوئے ممالک بھی پاکستان کی مدد کو نہیں پہنچے۔

’یہ معاہدے بظاہر کمیونزم کی یلغار کو روکنے کے لیے ہوئے تھے مگر اس جنگ میں کمیونسٹ ممالک ہی پاکستان کی مدد کے لیے زیادہ فعال ہوئے۔ چینیوں کا انڈیا کو ہمالیہ میں کئی سرحدی چیک پوسٹیں خالی کرنے کا الٹی میٹم ہر پاکستانی کے دل میں خوشی کی لہر دوڑا گیا، انڈونیشیا اور عرب ممالک نے حوصلہ افزائی کے بیانات بھجوائے، سوویت یونین گو کہ انڈیا کو مستقل ہتھیار فراہم کرتا رہا مگر اس نے مفاہمت کی کوششیں کیں اور فریقین کو اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے سلجھانے پر زور دیا۔‘

20 ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان اور ہندوستان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب جنگ بند کر دیں۔ اس مرحلے پر پاکستان نے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے روانہ کیا تاکہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے پاکستان کا موقف بیان کر سکیں اور اقوام متحدہ کو باور کروائیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو 22 ستمبر کو نیویارک پہنچتے ہی فوراً اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں سلامتی کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ اس موقعے پر جناب بھٹو نے بڑی پُراثر تقریر کی۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان پر ایک بڑے ملک نے حملہ کیا ہے اور اس وقت ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اپنی بقا کی خاطر اگر ہمیں انڈیا سے ایک ہزار سال تک لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے۔

ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ اسی دوران انہیں صدر ایوب خان کا ایک تار لا کر دیا گیا۔ اس تار میں صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس تار کے مندرجات سلامتی کونسل کے ارکان کو پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ان کا ملک جنگ بند کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہو جائے گا۔

اس جنگ کے دوران ہی سوویت یونین نے پاکستان اور انڈیا دونوں کو ایک پرامن معاہدے کا بندوبست کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی۔ نومبر 1965 میں انڈین وزیراعظم لال بہادر شاستری نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے سوویت یونین جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ کشمیر کے مسئلہ کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہر نوع کے مسائل پربات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ادھر پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ماسکو پہنچے اور انہوں نے کہاکہ اگرچہ شاستری کا بیان مثبت نہیں ہے تاہم اس بیان میں مذاکرات پر آمادگی کاعنصر پایا جاتا ہے۔ دسمبر 1965میں صدر ایوب خان واشنگٹن روانہ ہوئے جہاں انہوں نے امریکی صدر جانسن سے بھی ملاقات کی اوراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔

ایوب خان نے امریکی صدر جانسن کو باور کرانے کی کوشش کی کہ برصغیر کے معاملات میں سوویت یونین کو فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اجازت دینا غیر دانش مندانہ فیصلہ ہو گا، مگر امریکہ اور ان کے مغربی اتحادیوں کا خیال تھا کہ صرف سوویت یونین ہی عالمی سطح پر کسی ایسی محاذ آرائی کو روک سکتا ہے جس میں چین اور پاکستان ایک جانب ہوں اور سوویت یونین اور انڈیا دوسری جانب۔

امریکہ نے پاکستان کو یہ بھی باور کرایا کہ امریکہ ویت نام کی جنگ میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ چین کو برصغیر کے معاملات میں ملوث کرنا خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔ سوویت یونین بھی کسی صورت میں چین کے ساتھ کوئی جھگڑا مول لینا نہیں چاہتا۔ ان دونوں عوامل نے سوویت یونین کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان موزوں ترین ثالث بنا دیا۔

ایوب خان امریکہ سے مایوسی کے عالم میں واپس لوٹے اور جنوری 1966 کے پہلے ہفتے میں 16 رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے۔ ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور انڈیا کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیے، سات دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ انڈیا کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہورہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔

لارنس زائرنگ نے لکھا ہے کہ ’بھٹو اس معاہدے کے شدید مخالف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو چین اور سوویت یونین کا تعاون حاصل کرنا چاہیے اور یہ کہ سوویت یونین کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ انڈیا کو ہتھیاروں کی ترسیل روک دے اور اس کی بجائے پاکستان کی ترسیل شروع کردے۔ ایوب خان نے بھٹو کے پیش کردہ تمام امکانات کے بارے میں اندازوں اور سفارشات کا اچھی طرح جائزہ لیا مگر آخری لمحات میں ان کی تجویز کو رد کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیر اعظم کوسیجین نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انھیں انڈیا کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے پر رضامند کر لیا۔ یوں 10 جنوری 1966 کو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر اپنے دستخط ثبت کردیے۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں پانچ اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔

یہ معاہدہ صدر محمد ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوا۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور با لآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا اور وہ جنگ، جو خود حکومتی دعووں کے مطابق میدان میں جیتی جا چکی تھی، معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ