آئینی ترمیم میں بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے تھے: مولانا فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن نے بدھ کو مجوزہ آئینی ترمیم پر اپنی جماعت کے اعتراضات، وفاقی آئینی عدالت کے خدوخال، چیف جسٹس اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، اور سیاسی صورت حال پر صحافیوں سے سے گفتگو کی۔

مولانا فضل الرحمٰن بدھ آٹھ نومبر 2023 کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے (انڈپینڈنٹ اردو)

جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بدھ کو کہا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے میں بنیادی حقوق کے حوالے سے شق 8 میں ترمیم پر اعتراض تھا جس کے باعث اس کی حمایت نہیں کی۔

اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ٹی وی اینکرز اور صحافیوں سے نشست میں مولانا فضل الرحمن نے حالیہ مجوزہ آئینی ترمیم پر اپنی جماعت کے اعتراضات، وفاقی آئینی عدالت کے خدوخال، چیف جسٹس اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، ملٹری کورٹ کے اختیارات اور سیاسی صورت حال پر گفتگو کی۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ مجوزہ حکومتی ترمیم نے آئین کی شق 8 کی ’ایسی تیسی پھیر‘ دی تھی جس کی وجہ سے فوج کے اختیارات بڑھا دیے گئے تھے۔

آئین کی شق 8 میں بنیادی انسانی حقوق کے منافی قوانین کو کالعدم دینے ذکر کیا گیا ہے اور ذیلی شق 3 میں ان چیزوں کا ذکر ہے جہاں پر بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم نہیں ہو گا۔ مولانا فضل الرحمن کا بنیادی اعتراض آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 میں ترمیم تھا۔

کامران مرتضی کے مطابق ذیلی شق 3 میں ترمیم کے تحت اسے مزید تقویت دی جا رہی تھی جس کے بعد فوج اور فوجیوں کے استعمال کی جگہوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جا رہا تھا۔

آئین کے موجودہ آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے مطابق: ’کسی ایسے قانون پر جس کا تعلق مسلح افواج یا پولیس یا امن عامہ قائم رکھنے کی ذمہ دار دیگر جمعیتوں کے ارکان سے ان کے فرائض کی صحیح طریقے پر انجام دہی یا ان میں نظم و ضبط قائم رکھنے سے ہو۔‘

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس آرٹیکل میں ترمیم سے ’ہم نے انکار کر دیا۔‘

مولانا فضل الرحمن نے آرٹیکل 8 کے علاوہ دیگر ترامیم پر اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔

فوج کے حوالے سے ایک اور مجوزہ ترمیم پر مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ آئین کی آرٹیکل 243 میں بھی ترمیم پیش کی گئی تھی جس سے سروسز چیف کو آئینی حفاظت ہو گی۔

اس موقع پر وہاں موجود سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ ’اس ترمیم کے بعد سروسز چیفس کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘

مولانا کے مطابق اس کے علاوہ آرٹیکل 51 اور 106 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے ترمیم کی جا رہی تھی جس سے ان کی جماعت کو فائدہ ہونا تھا مگر انہوں نے اس سے اصولی اختلاف کیا۔

آرٹیکل 63-اے جو کہ اراکین اسمبلی کی رکنیت سے متعلق ہے، اس میں ترمیم پر بھی مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے اعتراض کا اظہار کیا۔

ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے سے متعلق آرٹیکل 200 پر بھی ان کی جماعت معترض تھی۔ اس بارے میں اپنے اعتراض پر وضاحت کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور قانون دان سینیٹر کامران مرتضی نے بتایا کہ ’اصولی طور پر ان کی جماعت کو ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی اجازت دینے پر اعتراض نہیں ہے تاہم موجودہ ترمیم سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ صرف چھ ججوں (اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج) کے خط کے بعد کی جا رہی ہے۔‘

وفاقی آئینی عدالت اور ججوں کی مدت عہدہ میں توسیع

مولانا فضل الرحمن نے مجوزہ وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ کی عمر کی حد 68 سال رکھنے کے حوالے سے اپنے اعتراض کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ اس وقت یہ حد مقرر کرنے سے ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ ’ایک بندے کے لیے‘ کیا جا رہا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے مطابق مجوزہ آئینی ترامیم میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کی سفارش پر صدر کو دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو اصول طور پر وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تمام جماعتیں اس عدالت کے قیام پر ماضی میں اتفاق کر چکی ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ کے مطابق الیکشن کمیشن کے اراکین کے حوالے سے بھی تجویز پیش کی گئی تھی کہ جب تک ’نئے اراکین کی تقرری نہیں ہو جاتی تب تک موجودہ اراکین کام جاری رکھیں گے، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ جب تک کام کرنا چاہیں کام کر سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئینی مسودے کی کاپی کے حوالے سے سوالوں پر مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ان کے پاس مسودہ براہ راست ن لیگ کی طرف سے آیا تھا اور جو مسودہ ’ہمارے پاس موجود تھا وہی بلاول کے پاس بھی تھا حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس الگ (مسودہ) ہے۔‘

مولانا فضل الرحمن سے سوال کیا گیا کہ ان ترامیم میں سے کون سی ترامیم واپس لے لی جائیں تو انہیں یہ آئینی ترامیم قبول ہوں گی؟

اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہماری پارٹی کے مرکزی انتخابات چل رہے ہیں جو کہ 29 ستمبر کو ہو رہے ہیں جس کے بعد نیا ڈھانچہ آئے گا اور ان کی مشاورت سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

’آئینی ترمیم پوری اپوزیشن (بشمول تحریک انصاف) کے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے اور پیپلز پارٹی اور ہم مل کر اس پر کام کر رہے ہیں تاہم ابھی تک کسی کی جانب سے نیا مسودہ سامنے نہیں آیا۔‘

مولانا فضل الرحمن نے مزید تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے آرٹیکل 8، 63-اے اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے شق میں ترمیم سے پیچھے ہٹنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔‘

مولانا سے ترمیم سے پہلے مشاورت کی گئی؟

مولانا فضل الرحمن سے سوال کیا گیا کہ کیا ان سے ترمیم سے پہلے نواز شریف نے مشاورت کے لیے رابطہ کیا تھا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’کسی نے بھی مشاورت نہیں کی، شہباز شریف آئے تھے مگر انہوں نے صرف حمایت کی بات کی۔‘

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’زرداری صاحب آئے۔۔۔ انہوں نے صرف دو باتیں کیں۔‘ مولانا کا کہنا تھا کہ ’زرداری نے صرف ساتھ دینے کی درخواست کی اور ساتھ ساتھ کھانے کی دعوت پر مدعو کیا تھا‘۔

تحریک انصاف پر ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا حمایت کا موڈ نہیں لگ رہا۔‘ مولانا کے مطابق تحریک انصاف کو ڈر ہے کہ ’فائز کے ہونے سے انہیں مشکلات ہوں گی۔

’حکومت کی کوشش تھی کہ ہم مان جائیں اور تحریک انصاف کی تھی کہ نہ مانیں۔ ہم بیچ میں رہ کر چل رہے تھے۔‘

آئین ترمیم کی حتمی منظوری اور مقررہ وقت پر ان کا کہنا تھا اگر ’26 اکتوبر تک بندوں والی کوئی چیز آئے تو ہو سکتا ہے۔‘

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس 26 اکتوبر کو عہدہ سنبھالیں گے۔

دوسری جانب گذشتہ ہفتے مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے مولانا فضل الرحمن کے اعتراضات پر جیو ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ مولانا کو آئینی عدالت پر اعتراض نہیں تھا اور انہوں نے اختلافات کی خاص طور پر نشاندہی نہیں کی تھی۔

عرفان صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کو مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم ممکن نہیں ہو سکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست