دہشت گردی کی ہر شکل قابل نفرت ہے تاہم جس طرح عجلت سے، بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے، ہمیشہ کی طرح الزام ایک بار پھر پاکستان پر لگایا جا رہا ہے اور انڈین میڈیا نے پاکستان کے خلاف مورچہ سنبھال لیا ہے، اس غیر ذمہ دارانہ رویے سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کہیں یہ فالس فلیگ آپریشن تو نہیں تھا؟
حالات و واقعات کی ترتیب اور ان کی ٹائمنگ قابل غور ہے۔
ایک جانب امریکی نائب صدر انڈیا میں ہیں، دوسری طرف انڈین وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے نریندر مودی واپس انڈیا چلے جاتے ہیں۔ یہ ہالی وڈ کی کسی بلاک بسٹر فلم جیسا منظر نامہ ہے جہاں کسی واقعے پر ردعمل کی شدت کو انتہا پر لے جانے کے لوازمات محنت سے پورے کیے گئے ہوں۔
اب امریکہ کا معمول سے تھوڑا سخت ردعمل بھی فطری ہے اور سعودی عرب کے دورے سے یوں واپسی بھی معمولی چیز نہیں۔ گویا ہالی وڈ کی کسی فلم یا شیکسپیئر کی کسی ٹریجڈی کی طرح یہاں بھی پلاٹ مکمل ہے اور کلائیمکس بھی شاندار ہے۔ سوال وہی ہے یہ حسنِ اتفاق ہے یا ’حسنِ اہتمام‘ ہے؟
ماضی میں کلنٹن انڈیا کے دورے پر آئے تو 30 کے قریب سکھوں کے قتل کا واقعہ ہو گیا اور اب امریکی نائب صدر انڈیا کے دورے پر ہیں تو کشمیر کی سیاحت کے بڑھتے امکانات کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ دونوں واقعات کی مماثلت بھی قابل غور ہے۔
سکھ اور کشمیری، دونوں کے ساتھ انڈیا کے عمومی تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں اور اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ کیسا اتفاق ہے کہ جو وقوعہ انڈیا کو عالمی برادری میں ’مظلوم‘ بناتا ہے اس میں، حقیقی نقصان ان طبقات کا ہوتا ہے جو انڈیا کے ناپسندیدہ طبقات ہیں۔
تازہ واقعے میں نقصان کس کا ہوا؟ کشمیریوں کا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیری جبر کے ایک بندوبست سے گزرے۔ کرفیو اور سختیوں نے ان کی معیشت تباہ کر دی تھی۔ اب کہیں جا کر سیاحت کے کچھ امکانات پیدا ہوئے تو پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا۔
یہ سوال توجہ طلب ہے کہ یہ انڈیا کے مفادات پر حملہ ہے یا یہ کشمیریوں کی معیشت پر حملہ ہے؟
پہلگام مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں کی سیاحت کے ساتھ مسلمانوں کی معیشت وابستہ ہے۔ کوئی کشمیری گروہ اپنے ہی لوگوں کی معیشت کیوں تباہ کرے گا؟
وہ ملحقہ جموں میں ایسی کارروائی کیوں نہ کرے جہاں ہندو اکثریت ہے اور آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے؟ سیاح آخر جموں سے گزر کر ہی پہلگام پہنچتے ہیں۔ واحد نہ سہی مگر یہ ایک بنیادی راستہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب عملاً یہ ہوا کہ معیشت کشمیری مسلمانوں کی تباہ ہوئی، الزام پاکستان پر آیا۔ اس کے ہمہ جہت اثرات ہیں۔ ایک جانب عالمی برادری ہے جس کے سامنے پاکستان پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔ دوسری طرٖف کشمیری ہیں جنہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ دیکھو تمہاری معیشت پر حملہ کرانے والا پاکستان ہے۔
یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر کشمیر میں مزید سختی کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ کشمیریوں کی زمینیں سکیورٹی کے نام پر ہتھیانے کا عمل تیز بھی ہو جائے گا اور اس کے لیے جواز بھی دستیاب ہو گا۔
زمینوں کا معاملہ بہت ہی اہم ہے۔ یہی پہلو انڈیا میں مسلم وقف کے قانون میں تبدیلی کا ایک بنیادی محرک بھی ہے کیونکہ مسلم وقف کے پاس پانچ ہزار 45 مربع کلومیٹر اراضی ہے۔ یہ رقبہ دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ ہے۔ سنگا پور اور بحرین سے چھ گنا زیادہ۔ انڈیا کی اس پر خاص ’نظر کرم‘ ہے۔
کالونائزیشن اور زمینیں ہتھیانے کا یہ عمل مختلف عنوانات کے تحت کشمیر میں بھی جاری ہے، سکیورٹی کے نام پر اب اس میں مزید شدت آنے کا امکان ہے۔
معیشت کشمیری مسلمانوں کی تباہ ہو رہی ہے، سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہو گا۔ انڈین صحافی سرجیکل سٹرائیک کی بات بھی کر رہے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان معاشی گرداب سے کسی حد تک سنبھل کر نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ اس ساری صورت حال کا بینیفشری کون ہے؟
سودوزیاں کا کیسا ہی حساب کر لیا جائے، بینیفشری انڈیا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ چنانچہ اس سوال کا پیدا ہونا فطری امر ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی ہی تھا یا کوئی فالس فلیگ آپریشن تھا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔