جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بدھ کو پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ انہوں حکومت کا آئینی ترمیمی مسودہ یکسر مسترد کر دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے بدھ کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو کی جس کا آغاز انہوں نے ان الفاظ سے کیا: ’کھانا کھانے آئے تھے کھانا کھا کر جلد دیے۔‘
رواں چند روز سے مولانا فضل الرحمن کی حکومتی ارکان، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سے مسلسل اور متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں جس کی وجہ مجوزہ آئینی ترامیم ہیں جو حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کرنی تھی لیکن تاحال وہ ایسا نہیں کر سکی ہے۔
حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے معاملہ 10 سے 15 روز تک موخر کر دیا گیا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی ملاقاتیں اسی مشاورت کی کڑی ہے جس کے سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمن کو دعوت پر مدعو کیا تھا۔
اس ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ان کا (حکومت) مسودہ مکمل مسترد کر دیا ہے، بلکہ وہ تو اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا تو کوئی مسودہ ہے ہی نہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سوال کیا کہ ’جو مہیا کیا گیا تھا وہ کیا تھا؟ کسی کو مہیا کیا گیا کسی کو نہیں کیا گیا، یہ کیا کھیل تھا؟
’لیکن جو کچھ بھی ہمارے حوالے ہوا اور ہم نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ ہمیں کسی طریقے سے بھی، کسی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ ’قوم و ملک کی امانت میں اس سے بڑی خیانت نہیں ہو سکتی تھی اگر ہم اس پر ساتھ چلتے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ’وزیر قانون نے جو مسودہ تیار کیا اس پر بھی باتیں کی گئیں، یہ مسودہ وزیر قانون کی ٹیم نے تیار کیا، وزارت قانون میں لیگل ٹیم اور ڈرافٹس مین موجود ہوتے ہیں، وزیر قانون جو بھی ہدایت جاری کرتے اس کے مطابق مسودے کو اپ ڈیٹ کیا جاتا رہا۔‘
عطا اللہ تارڑ کے مطابق ’یہ مسودہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس موجود تھا، اسی لیے اس کی تمام شقوں پر بات چیت اور مشاورت ہو رہی ہے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’آئینی ترامیم کے حوالے سے وسیع تر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، تمام سیاسی جماعتوں نے نہ صرف آپس میں گفت و شنید کی بلکہ یہ کوشش کی کہ اس پر اتفاق رائے پیدا ہو۔‘
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ’اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کچھ بھی ہو گا ہم آپس میں مشاورت سے معاملات کو آگے بڑھائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی قانونی سازی ہو، اتنا بڑا آئینی پیکج ہو اور عوام تو چھوڑیں اپوزیشن بھی چھوڑیں اپنے پارلیمنٹیرئنز سے بھی چھپائے رکھا۔‘