کیا انڈیا سندھ طاس 2 کی تیاری کر رہا ہے؟

انڈیا نے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے یکطرفہ رویہ شروع کر دیا ہے۔ انڈیا یہ تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدے صرف کمزور ممالک کے لیے ہیں اور ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہونے کے ناطے وہ اپنی ترجیحات کو فوقیت دے گا۔

حیدرآباد میں درائے سندھ کے سوکھے حصے پر 24 اپریل،2025 کو شہری چلتے ہوئے (روئٹرز)

چھ نومبر 2019 کو میں نے اپنی فیس بک پوسٹ میں پیش گوئی کی تھی کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مودی حکومت سندھ طاس معاہدے کو معطل یا ختم کرنے کا غیر متوقع اور سنگین اقدام اٹھا سکتی ہے، جس کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

میں نے اس وقت خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو اگلے پانچ سال میں اس امکان کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیونکہ انڈیا کسی داخلی سکیورٹی واقعے کو بہانہ بنا کر یہ قدم اٹھا سکتا ہے۔ اس پیش گوئی کی بنیاد انڈیا میں ہندوتوا کی نظریاتی تحریک کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت تھی، جو موجودہ پالیسیوں کو چلا رہی ہے اور جس کے رکنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔

سندھ طاس معاہدہ 1960 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان طے پایا تھا، جسے عالمی بینک نے ثالثی فراہم کی تھی۔ یہ معاہدہ دریائے سندھ اور اس کی شاخوں کے پانی کی تقسیم کو منظم کرتا ہے، جس میں تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے لیے مختص کیے گئے اور تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی) انڈیا کے لیے۔ معاہدے کے تحت انڈیا کو مغربی دریاؤں پر محدود آبپاشی اور غیر استعمالی مقاصد جیسے بجلی پیدا کرنے کی اجازت ہے، جبکہ پاکستان کو ان دریاؤں کا بنیادی حق حاصل ہے۔

اس معاہدے نے دو بڑی اور ایک محدود جنگ سمیت کئی بحرانوں کو برداشت کیا اور دونوں ممالک کے درمیان پانی کے حوالے سے اعتماد کی علامت سمجھا جاتا رہا۔ معاہدے کے تحت ایک مستقل کمیشن قائم ہے جو دونوں ممالک کے کمشنرز پر مشتمل ہوتا ہے اور پانی کے استعمال، معلومات کے تبادلے اور تنازعات کے حل کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کمیشن نے کئی بار ملاقاتیں کیں اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی، جو اس معاہدے کی کامیابی کی ایک وجہ ہے۔

تاہم، انڈیا نے حالیہ برسوں میں بین الاقوامی قانون اور معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے یکطرفہ رویہ اپنانا شروع کر دیا ہے۔ انڈیا یہ تاثر قائم کرنا چاہتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدے صرف کمزور ممالک کے لیے ہیں اور ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہونے کے ناطے وہ اپنی ترجیحات اور مفادات کو فوقیت دے گا۔ خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں انڈیا نے یکطرفہ اقدامات کیے ہیں، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھی شامل ہے۔ انڈیا نے پہلگام میں دہشت گرد حملے کے فوراً بعد پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا اور صرف 12 گھنٹوں کے اندر معاہدے کی معطلی کا اعلان کر دیا، جو ایک انتہائی سنجیدہ اور غیر معمولی قدم ہے۔

میرے تجزیے میں، انڈیا اب ممکنہ طور پر پاکستان سے سندھ طاس معاہدے کے نئے ورژن یعنی Indus Waters Treaty II پر مذاکرات کی خواہش ظاہر کر سکتا ہے، جس کا مقصد پانی کی تقسیم کے موجودہ انتظامات کو تبدیل کرنا ہوگا۔

یہ اقدام انڈیا کی حالیہ سفارتی اور عسکری حکمت عملی کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے، جس میں پانی کو ایک سیاسی اور جغرافیائی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ اس ممکنہ مذاکراتی عمل کے لیے پہلے سے تیار رہیں اور پانی کے مسئلے کو صرف دو طرفہ معاملہ نہ سمجھیں بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھائیں تاکہ انڈیا کے یک طرفہ اقدامات کو چیلنج کیا جا سکے۔

بی جے پی صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے جس کا حتمی مقصد ’ہندو راشٹر‘ کا قیام ہے۔ کشمیر کی مسلم اکثریتی حیثیت اس نظریے کے تضاد میں ہے، اس لیے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور دیگر اقدامات اٹھائے گئے تاکہ کشمیر کو انڈیا کے ہندو راشٹر میں ضم کیا جا سکے۔ بی جے پی نے اپنے پہلے دور حکومت (مودی 1.0) میں ’سافٹ ہندوتوا‘ کو فروغ دیا، جس میں ہندو قوم پرستی کو عوام میں قبولیت دلانے کی کوشش کی گئی۔ دوسرے دور (مودی 2.0) میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور شہریت ترمیمی بل کے ذریعے ’ہارڈ ہندوتوا‘ کی پالیسی اپنائی گئی، اور تیسرے دور (مودی 3.0) میں وقف بورڈ میں ترمیم اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے ذریعے ’شدید ہندوتوا‘ کا مظاہرہ کیا گیا، جو کہ انڈیا کی اندرونی اور خارجہ پالیسیوں میں شدت کی علامت ہے۔

انڈیا اب پانی کی تقسیم کے انتظامات پر نظرثانی چاہتا ہے اور Indus Waters Treaty 2.0 کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انڈیا کی حکومت نے ایک جامع حکمت عملی تیار کی ہے جس میں نہ صرف معاہدے کی معطلی بلکہ دریاؤں کی صفائی اور پانی کی روانی کو روکنے کے اقدامات شامل ہیں تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی کو مکمل طور پر روکا جا سکے۔ اس حوالے سے انڈین وزیر آبی وسائل نے واضح کیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ سندھ طاس کے پانی کا ایک قطرہ بھی پاکستان کو جائے۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ پانی کے محاذ پر اپنی حکمت عملی کو مضبوط کریں، پانی کے وسائل کے تحفظ اور متبادل ذرائع کی تلاش پر توجہ دیں، اور عالمی برادری کو انڈیا کے یک طرفہ اقدامات سے آگاہ کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور انڈیا کی نئی پالیسیز نہ صرف خطے میں پانی کے بحران کو جنم دے سکتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک نئے سفارتی، معاشی اور ماحولیاتی چیلنج کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔ پانی کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ ہندوتوا کی نظریاتی لہر کے تناظر میں پاکستان کو نہایت سنجیدگی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنی پالیسی ترتیب دینی ہوگی تاکہ مستقبل میں پانی کے محاذ پر کسی بڑے نقصان سے بچا جا سکے اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔

یہ صورتحال ہمیں یاد دلاتی ہے کہ پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور جغرافیائی اثاثہ بھی ہے، جسے حکمت عملی اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ہی بہتر طریقے سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی تاریخ اور اس کے تحت قائم کمیشن کے تجربات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ تنازعات کو مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے حل کرنا ممکن ہے، بشرطیکہ دونوں فریقین امن اور تعاون کے لیے سنجیدہ ہوں۔ تاہم، موجودہ حالات میں انڈیا کی یک طرفہ اور نظریاتی بنیادوں پر مبنی پالیسیز اس امید کو کمزور کر رہی ہیں، جس کے لیے پاکستان کو اپنی حکمت عملی میں فعالیت، مضبوط سفارتی محاذ اور داخلی پانی کے انتظامات کو بہتر بنانے پر زور دینا ہوگا۔

ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور "Pakistan Factor and the Competing Perspectives in India" کے مصنف ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ