مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کی پاور پالیٹکس کی سب سے معتبر کتاب ہیں۔ میرے بس میں ہو تو اس کتاب کو سیاسیات کے نصاب کا حصہ بنا دوں۔
مولانا اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، مگر یہ تو سب ہی کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سبھی۔ پھر فرق کیا ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو مولانا کو اپنے معاصر میں ممتاز اور منفرد بناتی ہے؟
مولانا سب سے زیادہ قادر الکلام ہیں۔ بات کہنا کوئی ان سے سیکھے۔ شدت جذبات کی انتہا پر بھی مولانا وہی کہتے ہیں جو وہ کہنے آئے ہوتے ہیں۔ وہ کسی کمزور لمحے کی گرفت میں نہیں آتے۔
مناظرے کی روایتی طاقت اور علم الکلام کے فن کو سیاست میں کسی نے کمال تک پہنچایا ہے تو مولانا ہیں۔ دھمکی دیتے اور للکارتے بھی ہیں تو 73 کے آئین کے تحت۔ کوئی گرفت نہیں کر پاتا۔ کوئی مقدمہ نہیں بن پاتا۔
مولانا کے تناظرات سب سے زیادہ ہیں۔ چاہیں تو اسلام کے تناظر میں مقدمہ کھڑا کر دیں، چاہیں تو 73 کے آئین کے تناظر میں دلیل لے آئیں۔ جی میں آئے تو جہاد پر مضمون باندھ لیں اور چاہیں تو جمہوریت کا درس شروع کر دیں۔ تناظرات کا اتنا وسیع دائرہ ان کے کسی حریف کے پاس نہیں۔
مذہب کارڈ مولانا کی سب سے بڑی قوت ہے۔ عمران خان پوری کوشش کے باوجود اس سے محروم ہیں اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ تو یہاں مولانا کی عمل داری کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر چکی ہیں۔
مبارک ثانی کیس میں مولانا کی تشریف آوری زبان حال سے بتا رہی تھی کہ نہ ان کے آگے کسی کا چراغ جل سکتا ہے نہ ان کے پیچھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا کے کارکنان جیسے قدرتی کارکنان بھی کسی کے پاس نہیں۔ سب کو اپنے کارکنان کا حلقہ تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ مولانا اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ ایک مکتب فکر کے مدارس کی افرادی قوت فطری اور قدرتی انداز میں مولانا کا دست و بازو ہے۔ یہ سہولت ان کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔
مولانا کی سٹریٹ پاور غیر معمولی ہے۔ ان کے کارکنان جیسے یکسو کارکنان بھی کسی اور کے پاس نہیں۔ عمران دورِ حکومت میں، جب سب کچھ ایک پیج پر تھا اور پی ڈی ایم سہمی بیٹھی تھی، یہ صرف مولانا تھے جو اپنے کارکنان کے ساتھ اسلام آباد میں رجز پڑھ رہے تھے۔
خدا کا یہ انمول تحفہ صرف مولانا کو ملا ہے کہ ان کا کارکن پوری یکسوئی کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑا ہے اور مولانا جو مرضی فیصلہ کر لیں، وہ سوال نہیں اٹھاتا۔ وہ بغداد کے درویش کی طرح مطمئن ہے۔
فہم سیاست کے باب میں بھی مولانا کا کوئی مقابل نہیں۔ نہ مذہبی سیاست میں، نہ عصری سیاست میں۔ زرداری صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست کے امام ہیں لیکن مولانا سیاست کے امام اعظم ہیں۔ جب مولانا تشریف لاتے ہیں، سب کے وضو ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔
مولانا سیاست کی کھلی وادیوں کے مسافر ہیں۔ وہ کسی بند گلی میں داخل ہونے کے قائل نہیں۔ وہ تمام آپشن کھلے رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد فرما سکتے ہیں اور اس سے ان کی اصولی سیاست پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اصولی صولی سیاست ان کے ہاں کشتہ مرجان بن جاتی ہیں۔
مولانا کی بارگیننگ پاور غیر معمولی ہے۔ تقسیم اقتدار میں جب معاملہ مولانا سے پڑتا ہے تو حصہ بقدر جثہ والی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ان کا حصہ ان کے جثے سے زیادہ ہوتا ہے۔ جلد باز نہیں ہیں، ٹھنڈا کر کے کھانے کے قائل ہیں اور کافی خوش خوراک ہیں۔
مولانا سیاست کا نمک ہیں۔ وہ اقتدار میں نہ ہوں تو حزب اقتدار ادھوری ہوتی ہے۔ ادھر حزب اختلاف اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک مولانا اس کا حصہ نہ ہوں۔ سب کی رونقیں ان ہی کے دم سے ہیں۔ ہر گونگے کی گویائی مولانا ہیں۔
یہ امریکہ کی طرح ایک چلتی پھرتی ویٹو پاور ہیں۔ 73 کے آئین کے تناظر میں یہ جس پلڑے میں وزن ڈال دیں، وہی بھاری ہو جاتا ہے۔
چنانچہ آج آپ دیکھ لیجیے وزیراعظم بھی مولانا کے در پر کھڑے ہیں، صدر محترم کا کوچہ یاراں بھی یہی ہے اور تحریک انصاف بھی بڑے پیار سے مولانا کو دیکھتی ہے اور لجاتی ہے کہ ’یہ مولانا میرا بھی تو ہے۔‘
یہ وقت اہلِ مذہب کے لیے سازگار نہیں، نظریاتی تقسیم بھی گہری ہو چکی ہے، لیکن مولانا نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ایک مذہبی رہنما سیکولر سیاست کے تقاضے بھی بخوبی نبھا سکتا ہے اور اس آہنگ سے کہ ساری سیکولر سیاست اس کے پیچھے آن کھڑی ہوتی ہے۔ وہ بیک وقت سب کے لیے قابل قبول ہو سکتا ہے۔
طرزِ حکمرانی اور پاور پالیٹکس کے باب میں میکیاولی اور چانکیہ دنیا بھر کے نصاب کا حصہ ہیں۔ ہمیں کم از کم پاکستان کی حد تک انہیں نصاب سے خارج کر دینا چاہیے کیونکہ نظام الملک طوسی سے مولانا فضل الرحمٰن تک ہمارے پاس اب اپنی ایسی شخصیات موجود ہیں جو مسلم روایات کے اندر رہتے ہوئے زیادہ بہتر رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔
اقبال کے الفاظ مستعار لوں تو مولانا کا معاملہ بھی وہی ہے ؎
میرے طوفاں یم بہ یم
دریا بہ دریا، جو بہ جو
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔