جس وقت تحریک پاکستان جاری تھی اس وقت معاشرہ قدامت پسند تھا، پھر بھی برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی بہو بیٹیوں بہنوں اور بیگمات کو اجازت دی کہ وہ سیاسی عمل میں شرکت کریں اور آزادی کی جنگ میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ حصہ لیں۔
خواتین نے جلسوں، دھرنوں، احتجاج، سول نافرمانی کی تحریکوں میں جمہوری جہدوجہد کے ذریعے پاکستان کی آزادی میں حصہ لیا۔ قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح نے ان کے ساتھ عملی سیاست میں قدم رکھا لیکن کبھی کوئی حکومتی عہدہ قبول نہیں کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور فاطمہ جناح سیاست میں موروثیت کے قائل نہیں تھے، پر جب ملک میں سیاسی حالات بدلے تو فاطمہ جناح فیلڈ مارشل ایوب خان کے مدمقابل آ گئیں اور الیکشن میں آمریت کے خلاف موثر آواز بن کر ابھریں۔ اگر ان کو جیتنے دیا گیا ہوتا تو آج پاکستان کے حالات شاید مختلف ہوتے۔
تاہم آمریت والے نظام میں خواتین کا سیاست میں آنا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا یہاں پر ٹھہرنا مشکل ہے۔
جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس کے بعد بےنظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے آمریت کا مقابلہ کیا اور بےنظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بنیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن میں خواتین کی شمولیت کم تھی
حالات نے پلٹا کھایا اور جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو ان کی بیگم کلثوم نواز کو سیاست کےمیدان میں آنا پڑا۔ پرویز مشرف کے دور میں خواتین مخصوص نشستوں کے ذریعے سے خواتین اسمبلی آئی۔ یہ سیاست میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوا۔
ان میں سے کچھ خواتین نے بہترین کام کیا اور عالمی طور پر شہرت حاصل کی، تاہم کچھ سالوں بعد یہ بات محسوس کی جانے لگی کہ بہت سی جماعتوں میں صرف موروثیت قائم ہے اور صرف امرا سیاسی خانوادے کی بہو بیٹیاں ہی اسمبلی آ سکتی ہیں۔ غریب کارکنان کے گھر کی خواتین کو یہ سہولت حاصل نہیں۔
تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئی تھی تو عمران خان کے خاندان کی کسی خاتون کو کوئی عہدہ یا کرسی نہیں دی گئی، تحریک انصاف ملک کی ان جماعتوں میں سے ایک ہے جو خواتین میں بہت مقبول ہے اور ان کے جلسے دھرنوں احتجاج میں خواتین بڑی تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔
تحریک انصاف نے انتخابات میں ہر طقبہ فکر سے خواتین کو ٹکٹ دیے اور موروثی سیاست، بڑے سیاسی خانوادوں کی اجارہ داری کو توڑا۔ پی ٹی آئی کے مطابق اگر دھاندلی نہ ہوتی تو ایک بڑی تعداد میں ان کی خواتین جنرل نشتوں پر اسمبلی میں آتیں۔ اپر چترال سے ثریا بی بی، پشاور سے شندانہ گلزار اور ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل وزیر جنرل نشتوں پر اسمبلی میں آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے سے ہٹایا گیا تو ان کی پارٹی کی خواتین کے لیے بھی مشکل دور شروع ہو گیا۔ یہ سیاسی انتقام بہت خوفناک تھاانکی خواتین کو گرفتار کیا گیا، ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہ ان کے گھروں پر چھاپے مار کر چادر چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔
سلسلہ یہاں نہیں رکا، نو مئی کے الزام میں پی ٹی آئی کی خواتین کارکنان اور رہنماؤں کو جیل میں قید کر دیا گیا، جن میں یاسمین راشد، خدیجہ شاہ، عالیہ حمزہ، عائشہ بھٹہ، صںم جاوید، طیبہ راجہ اور دیگر شامل تھیں۔
کیا سیاسی عمل میں شمولیت صرف چند گھرانوں کی خواتین ہی کر سکتی ہیں کہ جب چاہے ان کے مقدمات ختم کر کے ان کو این آر او مل جائیں؟
یاسمین راشد اور بشریٰ بی بی تاحال جیل ہیں۔ جو ضمانت پر باہر آئیں ان پر اب یہ تلوار لٹک رہی ہے کہ کب دوبارہ گرفتاری ہو جائے۔ اس کے علاوہ ریحانہ ڈار، ملیکہ بخاری، زرتاج گل وزیر، شیریں مزاری، سمابیہ طاہر دیگر نے مقدمات اور ہراسانی دونوں کا مقابلہ کیا۔
سب سے بڑی زیادتی جو پی ٹی آئی کی خواتین کے ساتھ روا رکھی گئی وہ یہ ہے کہ ان سے ان کی مخصوص نشستوں کا حق چھینا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم باوجود ان کو ان کی نشستیں تاحال نہیں مل سکیں۔ اس سب صورت حال میں خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ کیا سیاسی عمل میں شمولیت صرف چند گھرانوں کی خواتین ہی کر سکتی ہیں کہ جب چاہے ان کے مقدمات ختم کر کے ان کو این آر او مل جائیں؟ جبکہ پی ٹی آئی کی ایک عام ورکر کو روز جیل ٹرائل میں جانا پڑتا ہو اس پر بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج ہو جائیں، اس کو گرمی میں قیدی وین میں محبوس رکھا جائے اور منہ پر نیلے شاپر چڑھا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی بہنیں اپنے بھائی اور کارکنان کی آواز بن کر ابھری لیکن ان کو بھی گرفتاری آنسو گیس اور جیل کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ منگل کے روز جو کچھ پی ٹی آئی کی خواتین کے ساتھ اڈیالہ جیل کے باہر ہوا وہ قابل افسوس ہے۔ وہ بار بار اس چیز کی طرف نشاندہی کر رہا ہے کہ سیاسی انتقام جمہوری نظام میں خواتین کی سیاست کو مشکل بنا رہا ہے۔
عمران خان کی بہنوں علیمہ خانم، نورین نیازی اور اعظمی خانم ان سے ملاقات کی خواہش مند تھیں، لیکن ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دھکم پیل میں عالیہ حمزہ زخمی ہو گئیں۔
کیا خواتین کے لیے سیاسی دروازے بند ہو گئے، کیا خواتین پرامن احتجاج دھرنا نہیں دے سکتیں؟ پولیس ان کو گرفتار کر کے لے گئی اور کچھ دور اتار دیا۔ اس دوران بہت سی افواہوں نے جنم لیا۔ کیا پی ٹی آئی کی خواتین کے لیے جمہوری پیمانے کچھ اور ہیں باقی جماعتوں کے لیے کچھ اور ہیں؟
اگر خواتین کی گرفتاریوں تشدد ہراسانی مقدمات کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو آئندہ آنے والے کچھ سالوں میں خواتین سیاسی عمل سے دور ہو جائیں گی اور صرف موروثی خواتین سیاست دان پیچھے رہ جائیں گی۔
موروثیت جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے۔ جمہوری اقدار میں خواتین اس عمل کا برابر کا حصہ ہیں۔ جس طرح صاحبزادہ حامد رضا نے عمران خان کی بہنوں کو ویرانے سے ریسکیو کیا وہ قابل تحسین ہے۔ ہمیں جمہوریت میں ایسے ہی سیاست دان چاہییں، جن کی موجودگی خواتین کی عزت و ناموس اور وقار کی حفاظت کی ضامن ہو۔
پی ٹی آئی کی خواتین کے ساتھ انتقامی سلوک کو اب بند ہونا چاہیے اور ان کو ان کی نشستیں اب اسمبلی میں مل جانا چاہییں۔ اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو آگے چل کر ن لیگ پی پی پی کی خواتین کو بھی اسی قسم کے سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔