پاکستان کے دلکش شمالی علاقے سکردو کا حال ہی میں ایک سفر کیا جس کے دوران بلند ترین عسکری پوسٹ پر جانے کا یادگار موقع بھی ملا۔
اس سفر کے دوران سکردو میں بجلی کے مسائل اپنی آنکھوں سے دیکھے، سکیورٹی کی صورت حال کو قریب سے دیکھا اور ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ بھی کیا۔
سفر کا آغاز اسلام آباد سے کیا جس کے لیے ایک نجی ائیر لائن میں بڑی مشکل سے ان تاریخوں میں سیٹ مل سکی۔
ویڈیو جرنلسٹ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس بیگ عام مسافر کی نسبت زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میرے پاس کیمرہ، ڈرون، لیپ ٹاپ، اپنے کپڑوں کا بیگ کل ملا کر پانچ بیگ بنے اور وزن جس کی اجازت تھی اس سے ایک 20 کلو کا بیگ زیادہ ہی نکلا۔
پھر کیا تھا نجی ائر لائن والوں نے روک لیا بہت سمجھایا کہ بھائی صحافی ہیں اور اکثر ادھر اُدھر جاتے رہتے ہیں قومی ائیرلائن نے تو کبھی ایسا نہیں کیا لیکن انہوں نے 5000 روپے کا نسخہ پکڑا کر دم لیا۔
اس وقت اپنی قومی ائیرلائن کی بہت یاد آئی اور نعرے مارنے کو دل کیا لیکن یہ ارمان دل میں دبا کر چل پڑے اپنی منزل کی طرف یعنی سکردو۔
سکردو پہنچ کر میں نے سب سے پہلے سدپارہ جھیل کا رخ کیا جو اس علاقے کی خوبصورتی کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ جھیل اپنی نیلے شفاف پانی کی وجہ سے مشہور ہے اور یہاں کی قدرتی دلکشی دیکھنے کے لائق ہے۔
اس کے علاوہ میں نے محسوس کیا کہ جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں اور سڑکوں پر بھی کافی بڑی تعداد میں غیرملکی سیاح نظر آئے۔ یہ مشاہدہ اس بات کی عکاسی کرتا تھا کہ ملک کے دیگر حصوں میں سیاسی و معاشی حالات جیسے بھی ہوں آنے والے سیاح ضرور آتے ہیں۔ شمالی علاقے خصوصاً سکردو سیاحت میں بین الاقوامی سطح پر بھی مقبول ہے۔
سکردو کا علاقہ کوہ پیمائی کے شوقین افراد کے لیے ایک بھی اہم مقام ہے۔ یہ پہلا پڑاؤ ہوتا ہے جہاں کوہ پیماؤں کا ٹھہرنا اور تیاری کرنا لازمی ہوتا ہے، خاص طور پر وہ جو کے ٹو اور جی ون، جی ٹو جیسے بلند ترین پہاڑوں کو سر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان پہاڑوں کی بلندیاں اور چیلنجنگ راستے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور سکردو ان کا ابتدائی مقام ہوتا ہے جہاں سے ان کی مہم کا آغاز ہوتا ہے۔
میری وی لاگ کی تیاری کے دوران مجھے سکردو کی خوبصورتی اور اس کے سیاحتی پہلوؤں کو قید کرنے کا بھرپور موقع ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوران سکردو کی مختلف جگہوں کو دیکھنے کا موقع ملا میرے ساتھ ہمارے فری لانسر منظور بلتی بھی تھے جو مجھے ایک ڈش کھلانے لے گئے جس کا نام ممتو ہے۔
وہاں جا کر پتہ چلا اس مخصوص ڈش پرانڈپینڈنٹ اردو نے ایک خبر بھی کر رکھی ہے۔
یہ دیکھ کر بڑی خوشی اور حیرت بھی ہوئی کہ سکردو میں انڈپینڈنٹ اردو کی خبروں کی وجہ سے اب ایک پہچان بن رہی ہیں۔
میرے بعد انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان بھی سکردو پہنچیں۔ دوسرے دن ہم نے سکردو ایئرپورٹ سے فوجی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپٹروں پر سفر کیا، جو ہمیں بلتورو گلیشیئر پر بنی فوجی پوسٹ تک لے گئے۔
یہ دو ہیلی کاپٹر سکیورٹی کی وجہ سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ایک ہیلی کاپٹر کو کسی قسم کا حادثہ پیش آ جائے، تو دوسرا فوراً ریسکیو کے لیے موجود ہوتا ہے۔
ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے سے پہلے، آرمی کے پائلٹ نے ہمیں بلندی پر آکسیجن کی کمی کے حالات میں احتیاطی تدابیر بتائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’بلندی پر آرام آرام سے چلنا چاہیے، زیادہ دوڑنے سے گریز کرنا چاہیے اور جتنا ہو سکے توانائی بچا کر رکھنی چاہیے۔‘
ہیلی کاپٹر ہمیں بلتورو گلیشیئر پر واقع فوجی پوسٹ پر اتار کر واپس چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر، میں اور مونا خان نے فوجی جوانوں کے تجربات اور روزمرہ کی زندگی کی فلم بندی کی۔ ہمیں وہاں ایک شاندار دن گزارنے کا موقع ملا۔
فوجی پوسٹ کی بلندی، وہاں کی سردی اور جوانوں کی محنت نے ہمیں متاثر کیا۔
بدقسمتی سے، ہم وہاں زیادہ دیر نہ رک سکے کیونکہ موسم پل بھر میں بدل گیا۔ ہمیں اچانک اطلاع ملی کہ موسم خراب ہونے والا ہے، لہذا ہیلی کاپٹر فوراً واپس آ گئے۔ ہمیں جلدی سے نکلنا پڑا تاکہ ہم وہیں پھنس نہ جائیں۔
اس دن نے ہمیں اندازہ ہوا کہ فوجی جوانوں کی محنت اور عزم کیسے سخت حالات میں بھی ہمیں محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ سفر میرے لیے صرف ایک پیشہ ورانہ موقع ہی نہیں تھا بلکہ ایک ثقافتی اور قدرت کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ بھی تھا۔