کیا پاکستان پانی کی اتنی کمی کا شکار ہے کہ اب اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی بھی باہر سے منگوانا پڑے گا؟ یہ سوال ہر اس بندے کے ذہن میں پیدا ہوا، جس نے گذشتہ دنوں ایوانِ صدر میں صدر آصف علی زرداری کی تقریر سنی۔
صدرِ مملکت نے پاک چائنا انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے پاکستان نے چین کو ایک منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے تحت تاجکستان سے ایک پائپ لائن بچھائی جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس منصوبے کی فیزیبلٹی سٹڈی متحدہ عرب امارات کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔
گوادر میں پانی کی کمی کا مسئلہ کتنا شدید ہے؟
ایک عالمی جائزے کے مطابق شہری آبادی کو 40 گیلن فی کس روزانہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوادر کی آبادی اس وقت ایک لاکھ کے قریب ہے۔ گویا اس وقت گوادر کو 40 لاکھ گیلن پانی کی ضرورت ہے۔ گوادر پورٹ کی وجہ سے اس کی آبادی میں آئندہ پانچ سے 10 سالوں میں پانچ گنا اضافہ ہو سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ گوادر کو آنے والے سالوں میں دو کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہو گی۔
اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جولائی 2023 میں سمندری پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنانے کے لیے ایک پلانٹ لگایا گیا تھا، جس کی صلاحیت 12 لاکھ گیلن روزانہ ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومت نے شادی کور اور سواد ڈیموں کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے 151 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی، جس سے شہر کو روزانہ 35 لاکھ گیلن صاف پانی کی فراہمی کی جائے گی۔
گوادر میں پانی کی کمی کا کیا یہی حل ہے؟
پاکستان میں آبی وسائل کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کے لیے صدر زرداری کی تقریر حیران کن ہے کہ گوادر کو پانی کی فراہمی کے لیے پاکستان تاجکستان سے پانی خریدے گا اور اس کے لیے ایک پائپ لائن بچھائے گا۔
یہ بات اس لیے ہضم نہیں ہوتی کہ گوادر کو اگر پانی چاہیے تو یہ ضرورت دریائے سندھ سے بھی پوری کی جا سکتی ہے، جس کا پانی اعلیٰ معیار کا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ میگا پراجیکٹ ہے، جسے امیر ملک ہی برداشت کر سکتے ہیں۔
تاجکستان سے گوادر کا فاصلہ پونے دو ہزار کلومیٹر کا ہے۔ اتنی طویل پائپ لائن لانے کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت دنیا میں ایک کیوسک فٹ پانی ٹرانسفر کرنے کے لیے جو لاگت آ رہی ہے، اس کا تخمینہ اگر ہم دو ہزار کلومیٹر پر لگائیں تو فی کیوسک فٹ کے لیے دو کروڑ ڈالر کی ضرورت ہو گی۔
اتنا مہنگا منصوبہ امریکہ، جاپان یا یورپ کے لیے تو سود مند ہو تو ہو، پاکستان کے لیے ہرگز نہیں۔ پاکستان نے اس سے پہلے تھر کول کے لیے نبی سر سے پانی کی پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ شروع کیا ہے، جو 61 کلومیٹر طویل ہے اور جس پر لاگت کا تخمینہ تقریباً دو کروڑ ڈالر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تاجکستان سے پانی کی پائپ لائن گوادر تک لانے کے لیے پانچ ارب ڈالر کے لگ بھگ کی ضرورت ہو گی۔ اس کی آپریشنل کاسٹ اس کے علاوہ ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید یہ کہ راستے میں افغانستان پڑتا ہے، وہ بھی آپ سے سالانہ کرایہ لے گا، پھر وہاں پر سکیورٹی کے مسائل الگ ہیں۔ اس پانی کو گوادر تک پہنچانے کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہو گی۔
آخر میں گوادر میں فی گیلن پانی کتنے کا پڑے گا؟ اب ان سوالوں کے جوابات تو فیزیبلٹی سٹڈی میں ہی موجود ہوں گے لیکن یہ سٹڈی پاکستان میں کہیں بحث کے لیے موجود نہیں ہے۔ شاید یہ سٹڈی عرب امارات نے کی ہے، جن کا پہلے ہی تیل کی پائپ لائنیں بچھانے کا وسیع تجربہ ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پائپ لائن گوادر سے عرب امارات تک جائے، لیکن اگر ایسا ہے تو بھی پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک نہیں ہے بلکہ اسے واٹر مینیجمنٹ کا مسئلہ ہے۔ ہم مزید ڈیم بنا کر اپنی ضروریات بھی پوری کر سکتے ہیں اور اضافی پانی خطے کے دیگر ممالک کو بھی بیچ سکتے ہیں۔
پاکستان میں آبی وسائل کے ماہر ظفر اقبال وٹو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی ضروریات کے لیے ہمارے پاس وافر پانی کے ذرائع موجود ہیں۔ مون سون میں ہمارے پاس پانی زیادہ آتا ہے جبکہ ہماری فصلوں کو مون سون کے تین ماہ کے علاوہ بھی پانی چاہیے ہوتا ہے بالخصوص سردیوں میں گندم کی فصل کے لیے، ہمارے پاس منگلا اور تربیلا میں صرف 1.4 کروڑ ایکڑ فٹ سٹوریج ہے جبکہ ہماری ضرورت زیادہ کی ہے، اس لیے اگر سردیوں میں بارش نہ ہو تو ڈیم خالی ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم اپنی سٹوریج دو سے تین کروڑ ایکڑ فٹ تک بڑھا لیں تو پھر ہمیں پانی کی کمی بالکل بھی نہیں ہو گی۔ ہم مون سون میں اضافی پانی سٹور کر لیں گے اور سردیوں میں استعمال کر لیا کریں گے۔
تاجکستان سے پانی لانے کا منصوبہ کتنا حقیقی ہے؟
دنیا کے 71 فیصد حصے پر پانی ہے مگر جو پانی پینے کے قابل ہے وہ صرف 2.75 فیصد ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے ڈیٹا کے مطابق صاف پانی کے حوالے سے برازیل پہلے، روس دوسرے، کینیڈا تیسرے، امریکہ چوتھے اور چین پانچویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں انڈیا کا نواں اور تاجکستان کا 67واں اور پاکستان کا 73 واں نمبر ہے، مگر تاجکستان کی آبادی ایک کروڑ اور پاکستان کی 25 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ تاجکستان کے پاس اپنی ضروریات کے مقابلے میں خاصا اضافی پانی موجود ہے۔ تاجکستان کا رقبہ 142,600 مربع کلومیٹر ہے، جس میں سے اس کا 93 فیصد علاقہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے، جن میں 8000 سے زیادہ گلیشیئر ہیں۔
پانی کے وسائل کے حوالے سے تاجکستان وسطی ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ دریائے آمو کا 80 فیصد علاقہ تاجکستان میں واقع ہے۔ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈیٹا کے مطابق دنیا میں پانی کی سب سے زیادہ کمی کے شکار پانچ مالک میں سے چار خلیجی ممالک ہیں، جن میں بحرین، کویت، اومان اور قطر شامل ہیں۔
تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن نے 2015 میں جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے ساتویں واٹر فورم میں ایک منصوبہ پیش کیا تھا جس کا مقصد دنیا کو درپیش پانی کی کمی کے مسائل سے نمٹنا تھا۔ کویت میں تاجکستان کے سفیر زبید الزبیدزادہ نے گذشتہ جون میں تاجکستان میں واقع ساریز جھیل سے خلیجی ممالک کو پانی کی فراہمی کی تجویز دی تھی۔
تاجکستان اور کرغزستان سے پاکستان اور افغانستان کو 1300 میگا واٹ بجلی کی فراہمی کے لیے CASA-1000 منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ گذشتہ سال جون میں تاجکستان نے دوشبنے میں پانی کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی بھی کی تھی، جس میں امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، چین اور جاپان کے علاوہ مصر، سعودی عرب، اور عرب امارات نے بھی شرکت کی تھی۔ اسی کانفرنس میں تاجکستان نے عرب ممالک کو پانی برآمد کرنے کی بات کی تھی۔
مصر کو خدشہ ہے کہ اگر ایتھوپیا دریائے نیل پر کوئی بڑا ڈیم بنا لیتا ہے تو پھر اسے پانی کی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف دریائے آمو کا پانی، جس پر تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کا زیادہ تر انحصار ہے، اس میں افغانستان سے جانے والے پانی کو طالبان حکومت قوش نہر کے ذریعے موڑنا چاہتی ہے۔
اس تناظر میں پچھلے سال ہونے والی دوشبنے کانفرنس کو خاص اہمیت حاصل تھی اور اسی کانفرنس سے یہ تصور ابھرا تھا کہ خلیجی ممالک کو تاجکستان پانی فراہم کر سکتا ہے، جس سے ان کے مستقبل کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔
پانی کے وسائل کی وفاقی وزارت سے متعدد بار رابطہ کر کے اس منصوبے کی تفصیلات مانگی گئیں، جس پر ڈائریکٹر جنرل واٹر ریسورسز ڈویلپمنٹ سلیم ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علم میں ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
کیا واقعی پاکستان۔تاجکستان واٹر پائپ لائن جیسے میگا پراجیکٹ کے بارے میں متعلقہ وزارت لاعلم ہے؟ اس حوالے سے وفاقی وزیر پیٹرولیم وقدرتی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک، جن کے پاس پانی کے وسائل کی وفاقی وزارت کا اضافی چارج بھی ہے، انہیں بھی سوالات بھیجے گئے، جس کا تادمِ تحریر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔