جام شورو: پانی کی قلت کے باعث تین جامعات عارضی طور پر بند

سندھ یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے طلبہ کو آن لائن کلاسز لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار کے مطابق پانی کی بندش کے باعث طلبہ آن لائن کلاسز لیں گے اور 14 فروری کو یونیورسٹی کھولنے کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا (سندھ یونیورسٹی فیس بک پیج)

صوبہ سندھ کے ضلع جام شورو میں واقع تین جامعات کے کیمپسز پانی کی قلت کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر کے طلبہ کو آن لائن کلاسز لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ان یونیورسٹیوں میں سندھ یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج شامل ہیں۔

جامعات کی جانب سے عارضی بندش کے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی کو دریائے سندھ سے پانی فراہم کرنے والی نہر کلری بگھار فیڈر، جسے کے بی فیڈر کے نام سے جانا جاتا ہے، کی مرمت کی وجہ سے فراہمی بند ہونے کے بعد جامعات میں پانی کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے انہیں عارضی طور پر بند کیا جا رہا ہے۔  

سندھ یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق: ’پانی کی بندش کے باعث دوسرے سال سے 5 ویں سال کے طلبہ 20 جنوری سے آن لائن کلاسز لیں گے۔ 14 فروری کو یونیورسٹی کھولنے کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔ تب تک کلاسز آن لائن چلیں گی۔‘

مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ’مہران یونیورسٹی میں 20 دسمبر 2024 سے 13 جنوری 2025 تک موسم سرما کی سالانہ چھٹیاں تھیں۔ 13 جنوری کے بعد پانی کی بندش کے باعث کلاسز آن لائن جاری ہیں اور اس دوران مہران یونیورسٹی کے ہاسٹلز بند رہیں گے۔‘

شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے ترجمان لطیف گاد کے مطابق پانی کی قلت کے باعث یونیورسٹی 20 جنوری تک بند رہے گی۔

کے بی فیڈر کی مرمت کے باعث پانی کی عدم فراہمی کے باجود لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جام شورو کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو بند کرنے کے بجائے کلاسز جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

کے بی فیڈر سے پانی کی فراہمی بند کیوں؟

کوٹری بیراج کے دائیں جانب سے نکلنے والا کے بی فیڈر ضلع ٹھٹھہ کی کچھ زرعی زمین اور کراچی کے لیے مختص دریائے سندھ کے پانی کو لے جانے والی نہر ہے، جو کوٹری بیراج سے دریائے سندھ کے پانی کو ٹھٹھہ میں واقع کلری یا کینجھر جھیل تک لے جاتی ہے، جہاں سے کراچی کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔

ہر سال جون، جولائی میں سیلابی صورت حال کے بعد موسمِ سرما کے دوران دریائے سندھ میں پانی کی سطح خاصی کم ہو جاتی ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ آبپاشی سندھ بیراجوں کی مرمت کرنے اور بیراجوں سے نکلنے والی نہروں کی صفائی کرنے کے لیے صوبے کے تینوں بیراجوں گدو بیراج، سکھر بیراج اور کوٹری بیراج پر کچھ دنوں کے لیے پانی کی بندش کرتا ہے۔  

ان بیراجوں کی بندش ہر سال مختلف اوقات میں کی جاتی ہے۔ سکھر بیراج سے نکلنے والی تمام نہروں کو جنوری کے آغاز میں اور کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہروں کو جنوری کے آخر میں صفائی کے لیے مکمل طور پر بند کردیا جاتا ہے۔

یہ بندش چند روز کے لیے ہوتی ہے اور اس دوران ہر سال زرعی مقاصد کے لیے شہروں کو بھی پانی کی فراہمی بند رہتی ہے۔

اس سال کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہروں کو 25 دسمبر سے بند کر دیا گیا تھا۔

وزیر آبپاشی سندھ جام خان شورو نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلفونک گفتگو میں بتایا: ’کراچی کے لیے پانی کے بڑے ذریعے کے بی فیڈر میں سے پانی کے زیاں کو روکنے اور وفاقی حکومت کے اشتراک سے کراچی کو دریائے سندھ سے مزید پانی دینے والے منصوبے کے لیے کے بی فیڈر کو پکا کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

’کے بی فیڈر کو پکا کرنے والا منصوبہ تین سالہ ہے۔ پانی کی موجودگی میں یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال جب نہروں کی مرمت کے لیے انہیں بند کیا جاتا ہے، تب کچھ دن مزید کے بی فیڈر کو بند کر کے پکا کرنے کا کام کیا جائے گا۔‘

صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ ’سندھ حکومت کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ جام شورو نے تمام یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو کے بی فیڈر کی بندش سے آگاہ کرتے ہوئے مطلوبہ پانی کا بندوبست کرنے کو کہا تھا۔‘

یونیورسٹیوں کے پاس پانی سٹور کرنے کی سہولت 

سندھ یونیورسٹی جام شورو، صوبے کی بڑی سرکاری جامعات میں سے ایک ہے۔ ترجمان سندھ یونیورسٹی نادر مغیری کے مطابق یونیورسٹی کی نو فیکلٹیوں کے 70 شعبہ جات میں اس وقت طلبہ کی کل تعداد 48 ہزار ہے، جن میں چار ہزار طلبہ مختلف شہروں میں واقع یونیورسٹی کے کیمپسز، جبکہ جامشورو میں واقع مرکزی کیمپس میں 44 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں نادر مغیری نے کہا: ’اس وقت سندھ یونیورسٹی کے بوائز ہاسٹل میں تقریباً پانچ ہزار طلبہ اور گرلز ہاسٹل میں 35 سو طلبہ رہائش پذیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے علاوہ یونیورسٹی کے ملازمین کی کالونی میں تقربیاً 450 گھر ہیں اور وہاں تقریباً تین ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔‘  

نادر مغیری کا کہنا تھا: ’اس لحاظ سے یونیورسٹی کی حدود میں رہائش پذیر تقریباً 11، 12 ہزار افراد اور کلاسز کے دوران بڑی تعداد میں آنے والے طلبہ اور اساتذہ کے استعمال کے لیے یونیورسٹی کے پاس 20 دن کا پانی سٹور کرنے کی گنجائش ہے۔

’پانی سٹور کرنے کی یہ گنجائش ہر سال ہونے والی سالانہ بندش کے دوران کافی رہتی ہے، تاہم اس سال کے بی فیڈر کی مرمت کے باعث بندش کا دورانیہ بڑھایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس لیے یونیورسٹی کو 20 جنوری سے 15 فروری تک بند کرنا پڑ رہا ہے اور بندش جاری رہنے کی صورت میں جامعہ 15 مارچ تک بند رکھی جا سکتی ہے۔‘ 

 شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے ترجمان لطیف گاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یونیورسٹی میں تقریباً 650 طلبہ ہیں، جن میں 150 طلبہ بوائز ہاسٹل میں اور 150 گرلز ہاسٹل میں مقیم ہیں۔ پانی کی قلت کے باعث دیگر جامعات کی انتظامیہ سے مشاورت کے بعد یونیورسٹی کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔‘

لطیف گاد کے مطابق: ’ہماری یونیورسٹی میں آرٹس اور ڈیزائن پڑھایا جاتا ہے جس کا زیادہ کام پریکٹیکل پر مشتمل ہوتا ہے جو آن لائن نہیں ہو سکتا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ پانی کی قلت کے بعد جب یونیورسٹی دوبارہ کھلے تو کلاسز کا وقت بڑھا کر سلیبس مکمل کروایا جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ جامعہ ٹینکرز کے ذریعے پانی حاصل کرتی ہے اور بندش کے باعث ٹینکر کی قلت کے علاوہ نرخ 1500 سے 5000 روپے فی ٹینکر تک پہنچ گئے ہیں۔   

لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جام شورو کے وائس چانسلر ڈاکٹر اکرام اُجن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پانی کی قلت کے باوجود یونیورسٹی کو بند نہیں کیا گیا۔

بقول ڈاکٹر اکرام اُجن: ’اس وقت ہماری یونیورسٹی میں امتحانات چل رہے ہیں، جو ملتوی نہیں کیے جا سکتے۔ ہماری یونیورسٹی کے تالابوں میں یونیورسٹی کی ضروریات کے لیے 25 دن کے لیے پانی جمع کرنے کی گنجائش ہے اور اس وقت ہمارے پاس پانی موجود ہے، اس لیے یونیورسٹی کو بند نہیں کیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس