دنیا میں پانی پر ہونے والے تصادم کو تین گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے تو وہ تصادم جس کی وجہ پانی بنتے ہیں یعنی وہ تصادم جو پانی تک رسائی اور پانی پر کنٹرول حاصل کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ دوسری قسم ہے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا۔ ایسے تصادم جن میں پانی کو روکا جائے تاکہ اس پر منحصر کرنے والے متاثر ہوں۔ اور تیسری قسم ہے جہاں تصادم کے دوران پانی کے ذخائر کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو سال میں ایک ماہ کے لیے پانی کی کمی کا سامنا ہے اور لوگ بہتر مستقبل کے لیے منتقل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پانی کی قلت سے دنیا کی 40 فیصد آبادی متاثر ہوتی ہے اور 2030 تک 700 ملین افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے ہی سے کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ ہوتے نظر آ رہے ہیں اور اس کی وجہ پانی ہے۔
افغانستان کی وزارت توانائی کے وزیر نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ افغانستان دریائے کنڑ پر ڈیم بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک انڈین کمپنی کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے اور ڈیم سے 45 میگا واٹ بجلی تیار ہو گی اور نہ صرف زراعت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ملک کی پانی کی مینیجمنٹ بھی بہتر ہو گی۔ اس بیان سے قبل نومبر میں نائب وزیر برائے اکنامک افیئرز ملا عبدالغنی برادر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کا یہ فیصلہ ہے کہ دریائے کنڑ کا بہاؤ روکا جائے گا۔
جواب میں بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کا قدم یکطرفہ ہو گا اور اگر پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے جیسے کہ تعلقات مزید کشیدہ ہوں گے اور ممکنہ تصادم۔
دریائے کنڑ پر ڈیم کے حوالے سے افغانستان کا موقف ہے کہ اس سے پانی کے بہاؤ میں کمی واقع نہیں ہو گی اور پاکستان کو اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ افغانستان کا کہنا ہے کہ ملک کو اس ڈیم کی بہت ضرورت ہے اور کوئی بھی ملک ان کو ایسا کرنے سے نہ تو روک سکتا ہے اور نہ ہی روکنے کا حق ہے۔ افغانستان کا یہ حق ہے کہ وہ ملک میں بہنے والے کسی بھی دریا پر ڈیم بنائے۔
تاہم اسلام آباد کابل کو باور کرا چکا ہے کہ دریائے کنڑ، جس کو دریائے چترال بھی کہا جاتا ہے، جو 480 کلومیٹر طویل ہے چترال سے شروع ہوتا ہے۔ شمالی پاکستان سے یہ دریا سفر کرتا ہوا مشرقی افغانستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب کی جانب سفر کرتا ہوا افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں دریائے کابل سے جا ملتا ہے جو جلال آباد کے قریب سے خیبر پاس سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ اور جس ملک سے دریا کا آغاز ہو اس کے سمجھوتے یا رضا مندی کے بغیر پانی نہیں روکا جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کو افغانستان کی جانب سے ڈیم بنانے پر کافی عرصے سے تحفظات ہیں اور ان تحفظات کی سب سے بڑی وجہ اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے پاکستان میں دریائے کابل پر بیراج، زرعی کینال اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کیا ہوا ہے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان پانی کو بطور بارگیننگ چپ استعمال کرے اور پانی روک لے تو پاکستان میں پانی کی کمی ہو جائے گی۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دریائے کابل میں پانی کنڑ کے بغیر کچھ نہیں ہے کیونکہ دریائے کابل میں کُل پانی کا بہاؤ 21 ہزار ملین کیوبک میٹر ہے جبکہ اس میں سے 15 ہزار ملین کیوبک میٹر پانی تو کنڑ دریا کا ہے۔
پاکستان میں کچھ عرصے قبل یہ تجویز سامنے آئی کہ کنڑ کا رخ موڑ کر دریائے پنجکورا کی جانب موڑ دیا جائے۔ لیکن آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے افغانستان میں ہائیڈروالیکٹرک اور زرعی پراجیکٹس بری طرح متاثر ہوں گے، زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور ماحولیاتی زندگی بری طرح متاثر ہو گی جس کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانیاں ہوں گی۔ لیکن ساتھ ساتھ ایسا کرنے سے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوں گے اور دریا کا رخ موڑنا آپشن نہیں ہے۔
پاکستان اور افغانستان کو بیٹھ کر سندھ طاس معاہدے کی طرز پر پانی کے استعمال پر معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان جو عدم اعتماد کی فضا ہے اس کو ختم کیا جاسکے اور بجائے آبی تصادم کے، بات چیت سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے جو دونوں ممالک کے فائدے میں ہو۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔