پاکستان کے گرم ترین شہر میں تازہ اور فلٹر شدہ پانی شدید موسمی اثرات سے بچاؤ کا ایک ذریعہ ہے، لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے بقول امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیرون ملک امداد کی معطلی اس اہم منصوبے کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
سندھ کے جنوبی شہر جیکب آباد میں سورج کی جھلسا دینے والی گرمی اکثر 50 ڈگری سیلسیس (122 ڈگری فارن ہائیٹ) سے تجاوز کر جاتی ہے، جس کے نتیجے میں پانی کی کمی، ہیٹ سٹروک اور دیگر سنگین صحت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
2012 میں امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ نے سندھ کی میونسپل سروسز کی بہتری کے لیے چھ کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا تھا، جس میں 22 کلومیٹر دور نہر سے پانی کی فراہمی اور فلٹریشن پلانٹ کی مرمت کا منصوبہ بھی شامل تھا۔
لیکن پاکستانی غیر منافع بخش تنظیم ہینڈز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی امدادی پابندی کے باعث اس منصوبے کے طویل مدتی استحکام کے لیے مختص 15 لاکھ ڈالر کی رقم روک لی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ’چند ماہ میں‘ بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
جیکب آباد، جہاں اگلے ہفتے موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 30 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر سکتا ہے، میں 25 سالہ طفیل احمد نے اے ایف پی کو بتایا: ‘اس سکیم نے ہماری زندگی بدل دی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر پانی کی فراہمی بند ہو گئی تو ہمارے لیے حالات انتہائی مشکل ہو جائیں گے۔ زندگی گزارنا ایک مسئلہ بن جائے گا کیونکہ پانی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔‘
پاکستانی محکمہ موسمیات کے مطابق، ستمبر سے جنوری کے وسط تک سندھ میں اوسطاً 52 فیصد کم بارش ریکارڈ کی گئی ہے اور آئندہ مہینوں میں ’معتدل خشک سالی‘ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق، عالمی حدت کے باعث ہیٹ ویوز مزید شدید، طویل اور متواتر ہو رہی ہیں۔
خدمات کی معطلی
ہینڈز کے مطابق یہ منصوبہ روزانہ 15 لاکھ گیلن (57 لاکھ لیٹر) پانی فراہم کرتا ہے اور تقریباً تین لاکھ 50 ہزار شہریوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، لیکن جیکب آباد میں غربت کے باعث متبادل ذرائع حاصل کرنا ممکن نہیں۔
ہینڈز کے مطابق، انہیں امداد کی معطلی کا علم میڈیا رپورٹس سے ہوا اور کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی۔
ہینڈز کے سی ای او شیخ تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا: ’چونکہ تمام فنڈنگ معطل ہو چکی ہے، ہمیں اپنے عملے اور خدمات واپس لینا پڑ رہی ہیں۔‘
47 ملازمین، جن میں پانی کی صفائی اور نظام کی دیکھ بھال کے ماہرین شامل تھے، کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
شیخ تنویر احمد نے خبر دار کیا: ’یہ منصوبہ چند مہینوں میں بند ہو جائے گا۔‘ اور مزید کہا کہ اگر کوئی اور فنڈنگ فراہم نہ کی گئی تو ’یہ مکمل ناکامی‘ ہوگی۔
یہ سکیم اب مقامی حکومت کے ہاتھ میں ہے، جو نہ تو تکنیکی مہارت رکھتی ہے اور نہ ہی ریونیو جمع کرنے کا نظام، جسے ہینڈز ترقی دے رہا تھا تاکہ پانی کی قیمتوں سے منصوبے کو جاری رکھا جا سکے۔
عالمی ایڈ کمیونیٹی ٹرمپ کی جانب سے امریکی حکومت کے شعبوں کو محدود یا ختم کرنے کی مہم پر سخت اضطراب کا شکار ہے، جس کی قیادت ان کے سب سے بڑے ڈونر اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کر رہے ہیں۔
زیادہ دباؤ خاص طور پر واشنگٹن کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ پر ہے، جس کا 42.8 ارب ڈالر کا بجٹ عالمی انسانی امداد کا 42 فیصد فراہم کرتا ہے۔
تاہم، پیو ریسرچ سینٹر (Pew Research Center) کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پچھلے 25 سالوں میں یہ امریکی حکومت کے کل اخراجات کا صرف0.7 سے 1.4 فیصد رہا ہے۔
ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کو ’انتہا پسندوں کی آماجگاہ‘ قرار دیا، جبکہ ایلون مسک نے اسے ’مجرمانہ تنظیم‘ کہہ کر ’ختم کرنے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیکب آباد میں 47 سالہ سماجی کارکن عبدالغنی نے اس منصوبے کو برقرار رکھنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا: ’اگر پانی کی فراہمی بند ہو گئی تو عوام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہاں غربت عام ہے اور ہم متبادل ذرائع کا بوجھ برداشت نہیں سکتے۔‘
شہریوں کے مطابق پانی کی سپلائی بعض اوقات متاثر ہوتی ہے، لیکن پھر بھی یہ ایک ناگزیر سہولت ہے۔
18 سالہ طالب علم نور احمد نے بتایا کہ: ’پہلے ہماری خواتین کو پانی لینے کے لیے گھنٹوں پیدل چلنا پڑتا تھا۔‘
ہینڈز کا کہنا ہے کہ نجی ٹینکرز کا ماہانہ خرچ 500 روپے ( 1.80 ڈالر) کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے اور ان کے پانی میں آرسینک جیسے مضر صحت اجزا بھی شامل ہوتے ہیں۔
55 سالہ صدرالدین لاشاری نے کہا: ’جو پانی ہم خریدتے تھے وہ مضر صحت تھا اور بیماریوں کی وجہ بنتا تھا، جس سے مزید اخراجات بڑھ جاتے تھے۔ یہ پانی صاف ہے، اور اس کی فراہمی کسی بھی صورت بند نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان، جہاں 24 کروڑ سے زائد افراد بستے ہیں، کو جرمن واچ (Germanwatch) کے ماحولیاتی خطرہ انڈیکس کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ملک قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ رواں سال جاری کی گئی۔
2022 میں پاکستان میں ریکارڈ توڑ مون سون بارشوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور 14.9 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
جیکب آباد کے پانی کے نظام کو 2010 کے تباہ کن سیلاب سے بھی شدید نقصان پہنچا تھا، جس میں 1,800 سے زائد افراد جان سے گئے اور 2.1 کروڑ متاثر ہوئے۔
پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، لیکن اس کے باوجود شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ زیادہ اخراج کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کی امداد میں اپنا کردار ادا کریں۔
لاشاری نے کہا: ’یہاں سال بھر شدید گرمی رہتی ہے، ہمیں بلا تعطل پانی کی ضرورت ہے۔‘