- پاکستان کو اپنے محلِ وقوع کے لحاظ سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں خصوصی اہمیت حاصل ہے (مطالعۂ پاکستان: جماعت نہم)۔
- پاکستان مشرق و مغرب کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ ہے (مطالعۂ پاکستان: جماعت نہم)۔
- مملکتِ خداداد پاکستان جغرافیائی طور پر اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ دنیا کا کوئی ملک اس کی برابری نہیں کر سکتا اور قدرتی وسائل سے مالامال بھی ہے (مطالعۂ پاکستان: ڈگری کلاسز)۔
نصاب کی کتابوں میں پڑھایا اور ملی نغموں میں دہرایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کا انوکھا ملک ہے، جس کی ہمسری کرنے سے کوئی اور ملک عاجز ہے۔ یہاں ہر طرح کا ماحولیاتی نظام، آب و ہوا، جغرافیائی مظاہر اور طبعی خدوخال پائے جاتے ہیں، غرض اس ملک کے کارخانے میں کس چیز کی کمی ہے؟ پہاڑوں کو لے لیں تو سنبھالے نہیں سنبھلتے،جنگلات ہیں کہ وہ وافر، دریا گنتی نہیں آتے، ہرےبھرے میدان ناپے نہیں جاتے، معدنی وسائل ہیں کہ جوبن کی طرح پھٹے پڑتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
نصاب میں تو صرف یہ لکھا تھا کہ یہ دنیا کا نرالا ملک ہے جہاں چار موسم پائے جاتے ہیں۔ حالیہ وزیرِ اعظم نے سوچا کہ چار تو کم ہیں، اس لیے لگے ہاتھوں تین سے ضرب دے کر تعداد ایک درجن کر دی۔
اپنا ملک سب کو پیارا ہوتا ہے، اور ہمیں بھی اتنا ہی پیارا ہے جتنا کسی اور کو ہو سکتا ہے۔ یہی حب الوطنی کا تقاضا ہے، البتہ آنکھوں سے مطالعۂ پاکستان کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ پاکستان کے جغرافیے میں سب ہرا ہرا نہیں ہے۔ اگر ان مسائل کو سمجھا جائے تبھی ان سے نمٹنے اور ان کے حل تلاش کرنے کی راہ ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ ہے تو ملک کا معاملہ مگر اسے انفرادی نفسیات کی روشنی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر شخص میں خامیاں، کمزوریاں اور کجیاں ہوتی ہیں، جنہیں سمجھ کر ان پر قابو پانے کی کوشش کی جائے تو بہتر رہتا ہے، ورنہ ہر دن صبح اٹھ کر ’میں عظیم ہوں‘ کی تکرار کرنے سے خرابیاں دور نہیں ہو جاتیں۔
دریاؤں کا معاملہ
پاکستان کے جغرافیے کا سب سے بڑا مسئلہ دریاؤں کا ہے کہ ہمارے بڑے دریا، بشمول دریائے سندھ، بھارت سے یا بھارت کے زیرِ انتظام علاقوں سے ہو کر آتے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت ان پانیوں کی بانٹ تو ہوئی ہے لیکن پاکستان کو ایک عرصے سے شکایت ہے کہ بھارت اس معاہدے کے خلاف ورزی کرکے پاکستان کے حصے کا پانی چوری کر رہا ہے۔ پاکستان اس معاملے پر عالمی عدالتوں کی کنڈیاں بھی کھٹکا اٹھا چکا ہے مگر پرنالہ اب تک جوں کا توں ہے۔ اوپر سے شریمان نریندر مودی نے اس معاملے پر جارحانہ انداز اپنا رکھا ہے اور ایک سے زائد بار چھاتی تان کر دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان کا پانی روک کر اسے صحرا بنا دیں گے۔
تزویراتی گہرائی
یہ اصطلاح یا اس کی انگریزی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ آپ نے ٹی وی چینلوں پر ریٹائرڈ جرنیلوں کی زبانی بارہا سن رکھی ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے تقریباً سارے بڑے شہر بھارتی سرحد سے بہت قریب ہیں۔ لاہور کا آپ کو پتہ ہی ہے کہ سوج کر واہگہ تک پھیل گیا ہے، کراچی ویسے ہی ساحلی شہر ہے اور تو اور خود دارالحکومت اسلام آباد لائن آف کنٹرول سے صرف 60 کلومیٹر دور ہے۔ شاید اسی لیے پاکستانی دفاعی تجزیہ کار افغانستان میں ہمیشہ دلچسپی لیتے رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ کسی جنگ کی صورت میں افغانستان کی زمین کو استعمال کیا جا سکے۔ ایسا ہی جیسا بعض اطلاعات کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے 1971کی جنگ کے دوران اپنے کچھ طیارے بھارتی بمباری سے بچانے کے لیے ایران پہنچا دیے تھے۔
غیر متعین مشرقی سرحد
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کسی جغرافیائی مظہر پر نہیں رکھی گئی، کوئی دریا، پہاڑ، یا صحرا نہیں ہے جو ان دونوں ملکوں کو جدا کرتا ہو۔ بس سر ریڈکلف نے جہاں قلم لگا دیا، وہی خطِ تقسیم ٹھہرا۔ اس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو گئے جو آج تک پاکستان کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم ان میں سے تین کا ذکر کریں گے۔
کشمیر کا قضیہ
ایک بہت بڑا خطہ، جس کا رقبہ اور آبادی دنیا کے درجنوں ملکوں سے زیادہ ہے، اس پر ایٹم بموں سے لیس دو ملک بلاشرکتِ غیرے ملکیتی دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک اسے اپنی شہ رگ کہتا ہے تو دوسرا اٹوٹ انگ۔ 73 سال ہونے کو آئے، تین جنگیں اعلانیہ اور متعدد پراکسی سر پھٹول ہو چکے، لیکن یہ ناسور ہے کہ رِستا چلا جا رہا ہے۔ بہت سے مبصرین اسے دنیا کا سب سے خطرناک فلیش پوائنٹ قراردیتے ہیں جہاں دنیا کے کسی اور خطے سے زیادہ ایٹمی شعلے بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ جب تک اس کا تصفیہ نہیں ہوتا، تب تک یہ سمجھنا بجا ہے کہ ابھی ہندوستان پوری طرح تقسیم ہوا ہی نہیں۔
کشمیر ہی کے معاملے سے جڑا ہوا گلگت بلتستان کا مسئلہ ہے جو ٹوٹے ہوئے بازو کی طرح میلی پٹی سے بندھا گلے میں لٹکا ہوا ہے۔ جب تک کشمیر کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا، تب تک پاکستان اس وسیع و عریض اور بےحد اہم علاقے کو آئینی طور پر اپنا حصہ نہیں بنا سکتا۔
سر کریک کا معاملہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد کئی جگہ سے متعین نہیں ہے۔ ان میں سے ایک مقام سر کریک بھی ہے جو پاکستانی صوبے سندھ اور بھارتی صوبے گجرات کی سرحد پر واقع ہے۔ 1947 میں اس کی سرحد کا تعین ہوسکا، نہ 1968 میں۔ یہ علاقہ بڑی حد تک دلدل پر مشتمل ہے لیکن یہاں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں جس کی وجہ سے دونوں ملک اس پر سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔
1997 سے اب تک اس معاملے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے 12 بےسود دور ہو چکے ہیں۔ تنگ آ کر پاکستان بین الاقوامی ثالثی کی اینٹ مارنا چاہتا ہے لیکن بھارت جواب میں شملہ معاہدے کا پتھر اٹھا لاتا ہے، اس لیے معاملہ جمود کا شکار ہے۔
شمال کی طرف چلے جائیں تو یہی حال سیاچین گلیشیئر کا بھی ہے۔ وہاں بھی سرحد غیر متعین ہے جس کی وجہ سے 1984 کے بعد سے دونوں ملکوں کے فوجی 18 ہزار فٹ چوٹیوں پر ایک دوسرے کی طرف بندوقیں تانے ہوئے بیٹھے ہیں۔ البتہ اب تک وہاں بارود سے کم اور برف سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اس یخ بستہ ویرانے میں جنگ کے شعلے گرمائے رکھنے کا بھاری خرچ الگ ہے۔
غیر متعین مغربی سرحد
جو معاملہ مشرقی سرحد کا ہے، وہی حال مغربی سرحد کا بھی ہے، بلکہ سچ پوچھیں تو اس سے بھی بدتر۔ جو کام ریڈکلف نے 1947 میں کیا تھا، وہی 1893 میں سر مورٹیمر ڈیورنڈ کر چکے تھے، جنہوں نے نقشے پر 2640 کلومیٹر طویل ایک ایسا خط کھینچا جیسے کند چھری سے بز کشی کا بکرا ذبح کیا جاتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ڈیورنڈ لائن نے قبیلوں، خاندانوں حتیٰ کہ گھروں تک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔ اس سرحد پر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ کسی آدمی کا گھر ایک ملک میں ہے تو کھیت دوسرے میں۔
افغانستان اس سرحد کو نہیں مانتا۔ 1947میں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف جس واحد ملک نے ووٹ دیا تھا وہ افغانستان ہی تھا کیوں کہ اس کا دعویٰ پاکستان کی تمام پشتون پٹی پر ہے۔ اس معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک عدد جنگ بھی ہو چکی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ یہ کوئی پرانا دعویٰ ہے، حالیہ صدر اشرف غنی بھی ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔
محدود سمندر
ویسے تو پاکستان کے پاس اس وقت دو بڑی بندرگاہیں ہیں کراچی اور پورٹ قاسم، لیکن پورٹ قاسم کو کراچی ہی حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ان دونوں بندرگاہوں سے مشترکہ طور پر پاکستان کی 95 فیصد سمندری تجارت ہوتی ہے۔ خدانخواستہ پاکستان کی کسی ملک سے جنگ چھڑتی ہے تو وہ صرف کراچی کا محاصرہ کرکے پاکستان کی تجارت ٹھپ کر سکتا ہے۔
انگریزی محاورہ ہے کہ انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں، اس لیے جب تک گوادر کے چوزے مرغیاں نہیں بن جاتے، پاکستان کے سر پر سمندری ناکہ بندی کی چیل منڈلاتی رہے گی۔
ناکافی جنگلات
جنگلوں کا معاملہ دوسرے قدرتی وسائل سے بالکل مختلف ہے۔ آپ کے پاس لاکھ ٹن سونا زمین میں دبا پڑا ہے لیکن جب تک اسے کھود نہ نکالیں، اس وقت تک مٹی ہے۔ جنگلوں کا کیا ہے ان کا ایک پتہ بھی نہ چھوا جائے تب بھی سونا ہیں۔ وہ اس لیے جنگل ماحول کے پھیپھڑے ہیں۔ آپ ان کو نہ چھیڑیں تو آپ کو تازہ ہوا فراہم کرتے رہتے ہیں، فضا کی آلودگی کم کرتے ہیں، موسموں کو اعتدال میں رکھتے ہیں، زمین کو سیم، تھور اور کٹاؤ سے بچاتے ہیں، یہ رنگ رنگ کی جنگلی حیات کے لیے مفت ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا کام کرتے ہیں، سیاحت کو فروغ دیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
دوسری بات یہ کہ لازمی نہیں آپ انہیں اَن چھوا چھوڑ دیں۔ دوسرے قدرتی وسائل کے برعکس جنگل قابلِ تجدید ہوتے ہیں۔ اگر سلیقے اور طریقے سے درخت کاٹے جائیں تو جنگل زیادہ سرگرمی سے پنپنے لگتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ماہر مالی درخت کی شاخ تراشی کرکے اسے مزید ہرا بھرا اور گھنا بنا دیتے ہیں۔
جنگلوں کے معاملے میں پاکستان کی جھولی کس حد تک بھری ہوئی ہے؟ سی ای او ڈاٹ بز نامی ویب سائٹ نے 194 ملکوں کی فہرست جاری کی ہے جس کے اعداد و شمار کے مطابق وطنِ عزیز کے صرف 1.91 فیصد رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں ہمارا نمبر 173واں ہے۔
یہ نمبر جتنا بھی پریشان کن کیوں نہ ہو، ہمیں شک ہے کہ یہ درست نہیں اور مذکورہ جنگل بڑی حد تک فائلوں میں اگے ہوئے ہیں۔ اصل ہندسہ شاید ایک فیصد سے بھی کم ہو۔ موازنہ مقصود نہیں، ویسے ہی معلومات کی خاطر چند دوسرے ملکوں کے نمبر دیکھ لیجیے: بنگلہ دیش: 11 فیصد، ترکی: 15 فیصد، چین: 22 فیصد، بھارت: 24 فیصد، امریکہ: 34 فیصد، نیوزی لینڈ: 38 فیصد۔
دوسری تشویش ناک بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق پچھلے 30 برسوں میں ہمارے جنگلوں میں 76 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے، سوچ لیجیے اگلے 30 برسوں میں کیا ہو گا۔
معدنی وسائل کی قلت
ہم نے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ شاہ ایران نے صدر ایوب سے معاہدہ کیا تھا کہ بلوچستان سے تیل نہ نکالا جائے ورنہ سارا ایرانی تیل زیرِ زمین بہہ کر پاکستان آ جائے گا۔ ایوب خان نے برادر اسلامی ملک کا پاس رکھتے ہوئے اپنے کنویں اندھے کروا دیے اور ایرانیوں نے فارسی پڑھ پڑھ کر دنیا بھر میں تیل بیچنا شروع کر دیا۔ اس کہانی کی حقیقت تو معلوم نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان میں بھی تیل نکلتا ہے، لیکن اتنا ہی جیسا مذکورہ فارسی میں کہتے ہیں ’بقدرِ اشکِ بلبل۔‘
پاکستان کی تیل کی یومیہ پیداوار عالمی پیداوار کا 0.1 فیصد کے لگ بھگ ہے، یعنی اگر دنیا ہزار بیرل تیل نکالے تو ہم ایک بیرل نکالتے ہیں۔
قدرتی گیس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان اس سے اٹا پڑا ہے۔ لیکن پھر دیکھا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں واقع میرے گھر سے یہ معدنی دولت نو مبر سے مارچ تک ایک مشہور جانور کے سر کے سینگوں کی طرح غائب ہو جاتی ہے، تب پتہ چلا کہ شاید اصل میں بات کچھ اور ہے۔ ویب سائٹیں پھرولنے سے پتہ چلا کہ قدرتی گیس میں ہم نسبتاً بہتر ہیں مگر اتنے نہیں جتنا ہم سمجھتے تھے۔ پاکستان میں قدرتی گیس کے کل ذخائر 589 ارب مکعب میٹر ہیں، جو اس نعمت سے مالامال ملکوں کی فہرست میں ہمیں دنیا میں 31واں نمبر دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کے ذخائر 1290 ارب مکعب میٹر، ایران کے 33 ہزار ارب مکعب میٹر اور روس کے 47 ہزار ارب مکعب میٹر ہیں۔
انڈیکس منڈی نامی ایک ویب سائٹ ملکوں کو دستیاب قدرتی وسائل کی بنیاد پر ان کی رینکنگ کرتی ہے۔ اس رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 119واں ہے۔ اس سے واضح ہو جانا چاہیے کہ ہم قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا میں کسی خصوصی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔
آخر میں ایک بار پھر یہ وضاحت کہ اس تحریر کا مطلب پاکستان میں کیڑے نکالنے نہیں، بلکہ نصاب سازوں کی توجہ حاصل کرنا ہے کہ وہ بچوں کو وہی پڑھائیں جو زمینی حقائق سے قریب ہو۔
دوسری صراحت یہ کہ قدرتی وسائل کی فراوانی سے اتنا فرق نہیں پڑتا، جتنا موجود وسائل کو سلیقے سے استعمال کرنے سے۔ مثلاً انڈیکس منڈی کے مطابق پاکستان کا نمبر 119واں ہے، مگر دنیا کے انتہائی مشرقی کنارے پر واقع ایک ملک ہے جو وسائل کی فہرست میں دنیا کے 182ملکوں کی فہرست میں 168 ویں نمبر پر پایا جاتا ہے، یعنی ہم سے بھی 49 نمبر گیا گزرا۔ اس ملک کا نام ہے جاپان۔
ہمیں جاپانی زبان نہیں آتی، اس لیے کوئی جاپانی جاننے والا دوست ہی بتائے تو بتائے کہ ’مطالعۂ جاپان‘ میں بھی کچھ اس طرح کی باتیں لکھی ہیں کہ جاپان کے قدرتی وسائل دنیا کو آئینہ دکھاتے ہیں یا نہیں۔