نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) پاکستان میں کرونا وائرس سے نمٹنے کا ہیڈ کوارٹر ہے، جہاں وفاق اور تمام صوبے روز اس وبا سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی کرتے ہیں۔
اس فورم پر طے پاتا ہے کہ ٹیسٹنگ کو کس طرح بڑھانا ہے، لاک ڈاؤن کا کون سا ماڈل نافذ کرنا ہے، تہواروں کے لیے کیا تیاری کرنا ہے اور دیگر پالیسی سے جڑے سوالات کا حل اسی سینٹر میں ڈھونڈا جاتا ہے۔
اس سینٹر کے سربراہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر جب کہ لیفٹننٹ جنرل حمود الزمان خان اس کے نیشنل کوآرڈینیٹر ہیں۔ جمعرات کو انڈپینڈںٹ اردو نے اس کے ایک اجلاس میں شرکت کی تو اسد عمر اور جنرل حمود الزمان کے علاوہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ، وزیر خوارک فخر امام، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے کووڈ19 ڈاکٹر فیصل سلطان اور چیئرمین این ڈی ایم اے کو بھی اجلاس میں شریک پایا۔ اجلاس کا آغاز ٹھیک صبح 10 بجے ہوا۔
آپریشن روم کا احوال
این سی او سی کا آپریشن روم ٹھیک ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آنے والے ترقی یافتہ ممالک کے آپریشن رومز کی طرح ہے۔ کمرے میں ہر طرف سکرینیں لگی ہوئی ہیں جن پر تازہ ترین ڈیٹا نظر آتا ہے مگر اجلاس کے شرکا بہت کم ہی ان سکرینوں کا استعمال کرتے ہیں۔
کمرے میں کل 18 چھوٹی سکرینیں اور ایک بڑی سکرین ہے، جس کے ذریعے تمام صوبوں کے نمائندے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوتے ہیں۔ چھوٹی سکرینوں پر دنیا بھر اور اندرون ملک کے اعداد و شمار نظر آتے ہیں جب کہ چھ سکرینوں پر ٹی وی چینلز ہیں، چار مقامی (دنیا، اے آر وائی، سما اور پی ٹی وی) اور دو بین الاقوامی (بی بی سی اور سی این این)۔
میٹنگ کی صدارت اسد عمر نے کی، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ لیفٹننٹ جنرل حمود الزمان خان کی نشست ٹھیک اسد عمر کے ساتھ ہے۔
عموماً سرکاری میٹنگز میں صدارت کی کرسی ایک ہوتی ہے مگر گذشتہ دور حکومت میں ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں کی طرح یہاں بھی مشترکہ صدارت نظر آتی ہے۔ اسد عمر اور جنرل حمود الزمان خان مل کر صدرات کرتے ہیں۔
این سی او سی آپریشن روم میں ہونے والے اجلاس میں تمام حاضرین نے ماسک پہن رکھے تھے اور یہ ماسک صرف تب اترے جب چائے پیش کی گئی۔ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا۔
کیا سندھ اور مرکز کے درمیان تناؤ این سی او سی میں بھی ہے؟
اجلاس کے دوران اسد عمر چٹکلے بھی سناتے نظر آئے اور بیشتر وقت اجلاس سازگار ماحول میں ہوا۔ ایک دو چٹکلے ایسے بھی تھے جن پر ایسے لگا جیسے شرکا زبردستی ہنس رہے ہوں۔
آپریشن روم میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب سندھ کے چیف سیکریٹری اور چیئرمین این ڈی ایم اے جنرل افضل کے درمیان ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی پر اختلاف بھی ہوا مگر اسد عمر نے اختلاف کو تناؤ میں بڑھنے سے پہلے ہی روک دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف سیکریٹری سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا کے وزیر صحت تیمور جھگڑا اور گلگت بلتستان کے نمائندہ چیئرمین این ڈی ایم کی تعریف بھی کرتے نظر آئے۔ اسی طرح این سی او سی کے ڈی جی آپریشنز میجر جنرل آصف محمود گورایا نے بھی ایک موقعے پر سندھ حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کانٹیکٹ ٹریسنگ (کرونا وائرس کے مریضوں سے رابطے میں رہنے والے افراد کی نشاندہی) میں سندھ کی کارکردگی باقی تمام صوبوں سے بہتر ہے۔
صوبوں کے ساتھ بحث حالیہ دنوں میں ٹیسٹنگ کی تعداد میں کمی پر محیط رہی۔ چیف سیکریٹری سندھ نے بیرون ملک جانے والے افراد کے مثبت کیسز پر کہا کہ ان مسافروں کے لیے کرونا ٹیسٹ کروانا لازمی قرار دینا چاہیے جس سے ٹیسٹنگ کے اعداد بھی بڑھیں گے اور بین الاقوامی سطح پر شرمندگی بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔
اس پر اسد عمرنے فوری کہا کہ 'ہمیں بیرون ملک سفر کرنے والے مسافروں کے کرونا کیسز پر ’defensive‘ نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ دنیا بھر میں کرونا کیسز کی تعداد پاکستان کے برابر ہے۔'
این سی او سی میں ڈرائیونگ سیٹ پر کون تھا؟
پاکستان تحریک انصاف حکومت کے ناقدین اکثر تنقید کرتے ہیں کہ حکومت نے اپنے ذمے کام فوج کو سونپ رکھے ہیں اور این سی او سی میں فوجیوں کی بڑی تعداد پر بھی اسی لیے تنقید کی جاتی ہے۔
این سی او سی اسلام آباد میں 2005 زلزلے کے بعد بننے والے ادارے ’ایرا‘ کے دفتر میں ہے اور وہاں کا تمام تر کنٹرول فوجی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اجلاس میں بھی فوجیوں کی تعداد سول افراد سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک وقت میں اجلاس میں 30 افراد موجود تھے، جن میں سے 19 افراد کا تعلق پاکستان فوج سے تھا۔
اگرچہ جنرل حمود الزمان خان اسد عمر کی ساتھ والی نشست پر موجود تھے مگر وہ تین گھنٹے کے اجلاس میں صرف ایک دفعہ ہی بولے۔ باقی تمام اجلاس میں سوالات اسد عمر نے کیے اور وہ ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نظر آئے۔ اس کے علاوہ صوبائی وفود میں بھی پاکستان فوج کا ایک ایک اہلکار موجود تھا۔
اسد عمر سے جب اجلاس کے بعد ہم نے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میڈیا اور چند دانش وروں کا ایک حصہ جن کو فوجی وردی نظر آتی ہے تو اس کے بعد ان کی سوچ مفلوج ہو جاتی ہے۔‘ اسد عمر نے مزید کہا کہ وبا کے دوران ’کوئی کم نظر اور کم عقل سیاسی قیادت ہو گئی جو اپنے سب سے منظم ادارے کو بھرپور طریقے سے استعمال نہ کرے۔‘
پاکستان فوج کرونا کے حوالے سے کیا کر رہی ہے؟
این سی او سی میں جہاں بڑی تعداد میں پاکستان فوج کے اہلکار موجود ہیں, وہیں حکام کے مطابق یہ اہلکار صوبوں کو بھی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی اگرچہ سویلین ادارہ ہے مگر اس کے سربراہ پاکستان فوج کے لیفٹننٹ جنرل ہیں اور ان کے ذمے کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے تمام سازوسامان (حفاظتی کٹس، وینٹی لیٹر وغیرہ) کا اختیار ہے۔
اسی طرح اس سامان کی صوبوں میں ترسیل کے لیے بھی پاکستان فوج کی کورز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسد عمر سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’پاکستان فوج کرونا سے نمٹنے کے لیے سہولت کاری اور رابطہ کاری میں بہتری لانے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ جیسا کہ ہسپتالوں سے ڈیٹا حاصل کرنے میں مشکل ہو رہی تھی اور اس کے لیے 700 فوجیوں کو استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہ ہسپتالوں سے ڈیٹا حاصل کریں۔‘
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ تین گھنٹے کے اجلاس میں جہاں کرونا سے نمٹنے کے لیے افرادی قوت کی بات ہوتی رہی وہیں وزیراعظم کی کرونا ریلیف ٹائگر فورس کا ایک بار بھی ذکر نہ آیا۔ این سی او سی کے ایک عہدیدار کا بعد ازاں کہنا تھا کہ ٹائگر فورس کے حوالے سے گذشتہ اجلاسوں میں بات ہوتی رہی ہے۔
وبا کے حوالے سے این سی او سی پر امید
اجلاس میں موجود شرکا اور صوبوں کی فراہم کردہ معلومات سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ حکام کرونا وبا کے خاتمے کے لیے پرامید ہیں۔ اسی حوالے سے اسد عمر نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ عید الاضحیٰ تک اگر وبا کو اچھے طریقے سے روک لیا گیا تو پھر صرف محرم میں عاشورہ ایک ایسا وقت ہو گا جس میں وبا پھیلنے کا خطرہ ہے اور اگر اس وقت میں بھی احتیاط سے کام لیا گیا تو پاکستان میں معمول کے مطابق زندگی لوٹ سکتی ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کا اسی حوالے سے کہنا تھا کہ اگر موجودہ اعداد و شمار کو دیکھا جائے اور اگر رجحان میں تیزی نہیں آتی تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کرونا وائرس اپنی انتہا کو پہنچنے کے بعد نیچے آ رہا ہے۔اجلاس تقریباً تین گھنٹے بغیر کسی وقفے کے چلا، جس میں تمام صوبوں (بشمول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان) نے اپنے صوبوں کی صورت حال سے این سی او سی کو آگاہ کیا۔ جیسے ہی صوبوں کی جانب سے بریفنگ ختم ہوئی وزیر داخلہ اعجاز شاہ، فخر امام اور ڈاکٹر ظفر مرزا اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔ ایجنڈا کے مطابق اجلاس صرف ڈیڑھ گھنٹے کا تھا۔