کتنی دلچسپ اور حیرت انگیز بات ہے کہ لفظ ’کرونا‘ (کورونا) کی ایک تشریح ہمارے دادا سید احمد خان (جنھیں فوت ہوئے پورے 80 سال ہونے کو آئے ہیں) کے ایک معاصرسیاست دان راجہ بھونی سنگھ نے ہمارے والد صاحب کی پیدائش سے کوئی آٹھ سال پہلے فروری 1920 میں کی تھی اور دوسری تشریح وہ ہے جو ہماری ایک معاصر سیاست دان محترمہ زرتاج گل صاحبہ نے دوچار دن پہلے یعنی جون 2020 میں کی۔
دادا جی کے معاصر سیاست دان کی تشریح، اول تو مکانی بعد کی وجہ سے ہمارے داداحضور تک پہنچی ہی نہیں ہو گی کہ وہ ان دنوں اپنے آبائی گائوں کیکوٹ میں سیبوں، خوبانیوں اور آلوچوں کے درخت لگانے میں مصروف تھے اور راجہ صاحب ان سے سیکڑوں میل دور اپنی راجدھانی ’جھالاواڑ‘ میں بیٹھے ’آفتاب کے متعلق سائنٹفک تحقیقات‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھ رہے تھے جو انھی کی سرپرستی میں شائع ہونے والے ماہنامہ ’آفتاب‘ کے دو شماروں (فروری اور مارچ 1920) میں قسط وار شائع ہونے والا تھا۔
بالفرض محال ’آفتاب‘ کے یہ دونوں شمارے اگر کسی طرح معجزاتی طور پر ان تک پہنچ بھی گئے ہوتے اوروہ کسی پڑھے لکھے شخص کو بلا کر یہ مضمون پڑھوا بھی لیتے تواس کے مندرجات اُن کے سر سے گزر جاتے کہ بہرحال یہ ایک چٹے ان پڑھ شخص کی ذہنی سطح سے بالا تھے۔
اس مضمون کی ایک ذیلی سرخی ’کرونا Corona‘ کی ذیل میں دادا جی کے معاصر سیاست دان لکھتے ہیں:
’جس وقت پورا سورج گرہن ہوتا ہے تو سورج کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا لیکن ایک گلابی رنگت کی روشنی اس کے چاروں طرف نظر آتی ہے۔اس روشنی کے دائرے کا نام کرونا Coronaرکھا گیا ہے۔ (واضح رہے کہ اس کے انگریزی ہجے کالم نگار کا اضافہ نہیں ہیں) اس کی گہرائی دو لاکھ سے تین لاکھ میل تک مانی گئی ہے اور اس میں سے جو خاص خاص حصے زیادہ لمبے ہیں وہ 50 لاکھ میل لمبے ہیں۔ اس کی بابت یہ بھی دریافت ہوا ہے کہ اس کی 11 سال میں شکل تبدیل ہو جاتی ہے اور نیز یہ کہ اس حصے میں سورج کے مادے کے بہت چھوٹے ذرے موجود ہیں۔ یہ اتنا تاریک ہے کہ اس میں ہو کر دم دار ستارے نکل جاتے ہیں اور اُن کی چال میں اِس کی رکاوٹ کچھ فرق نہیں ڈالتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سورج کے دھبوں کے متعلق جو یہ دریافت ہوا ہے کہ وہ 11 سال میں بدلتے رہتے ہیں۔ جس طرح سورج کے دھبے بدلتے ہیں اسی طرح اسی عرصہ میں کرونا Corona کی شکل بھی بدلتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دھبوں کا کرونا Corona کے ساتھ تعلق ضرور ہے۔ علاوہ ازیں جب سورج کے قرض پر دھبے افراط کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس زمانے میں ہماری زمین پرمقناطیسی طوفان ہوتے ہیں۔‘ (ماہنامہ آفتاب فروری 1920 صفحہ 11، 12) واضح رہے کہ اس رسالے کا اجرا جنوری 1906 میں ہوا تھا اور تین سال جاری رہنے کے بعد فروری 1909 میں اپنے بانی مدیر ماسٹر سید محمد حسین رضوی کی ناگہانی موت کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔
تقریباً 11 سال بعد جنوری 1920 میں اس دور کے معروف شاعر آغا شاعر دہلوی نے اسے مہاراجہ بھونی سنگھ ہی کی سر پرستی میں دوبارہ جاری کیا۔ یہ اس دور کا ایک اہم رسالہ تھا، جس میں شاعر مشرق علامہ اقبال، لسان العصر اکبر الہ آبادی، مصورغم علامہ راشد الخیری اور مصور فطرت خواجہ حسن نظامی جیسے لوگوں کی تخلیقات بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔
یہ مضمون قلم بند کرتے ہوئے آنجہانی بھونی سنگھ کے وہم گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ٹھیک ایک صدی بعد اُن کا یہ مضمون اُنھی کے ایک گم نام معاصر جس کا نام اتفاق سے ان کے ایک سینیئر معاصر سر سید احمد خان کے نام پر رکھا گیا ہے، کےایک پوتے کے ہاتھ عین اس وقت لگ جائے گا، جب اس کی ایک معاصر سیاست دان سرکاری ٹی وی چینل پر ’سچ کے ساتھ‘ نامی ایک پروگرم میں اسی کرونا نام کے ایک وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کے سائنسی نام کو وڈ 19 کی تشریح ان الفاظ میں کر رہی ہو گی:
’کو وڈ 19 میں 19 کا مطلب ہے کہ اس کے 19 پوائنٹس ہیں جو کہ کسی بھی ملک پر کسی بھی طریقے سے اپلائی ہو سکتے ہیں۔‘
ہم اپنے دادا حضور کےبرعکس نہ صرف پڑھے لکھے ہونے کے دعوے دار ہیں بلکہ بزعمِ خود ایک معروف ناول نگار اور شاعر بھی ہیں لیکن قسم ہے قلم کی اور وہ جو کچھ لکھتا ہے سوشل میڈیا پر بار بار یہ کلپ دیکھنے کے باوجود اس کا ایک لفظ بھی ہمارے پلے نہیں پڑا اور ان کی یہ تشریح پوری کی پوری ہمارے سر سے گزر گئی کہ بہر حال یہ ایک پڑھے لکھے شخص کی ذہنی سطح سے بہت نچلے درجے کی چیز تھی۔
راجہ بھوانی سنگھ جھالاواڑ نامی ایک ریاست کے راجہ تھے اور اسی عہدے کی مناسب سے ان کا خطاب ’مہاراج رانا آف جھالاواڑ‘ تھا۔ ہمارے پاس اس چھوٹی سی ریاست کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات نہیں۔
ہمیں گوگل نے اطلاع دی ہے کہ اس کی موجودہ آبادی 66 ہزار اور چند سو نفوس پر مشتمل ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا رقبہ زیادہ سے زیادہ پاکستان کی کسی بڑی یونین کونسل کے رقبے کے برابر ہو گا۔
دوسری طرف دنیا کے ساتویں اور مسلم دنیا کے پہلےایٹمی ملک کی ایک ’مشہور و معروف‘ سیاست دان ہیں جو نہ صرف برسر اقتدار جماعت کی ایک اہم رہنما سمجھی جاتی ہیں بلکہ تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والی حکومت میں وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی کے عہدے پر بھی براجمان ہیں۔
ہمارا جی چاہ رہا ہے کہ ہم صبح دفتر جانے کے بجائے سیدھے اپنے آبائی گاؤں جائیں اور داد جی کی قبر کے کتبے پر حافظ شیرازی کا یہ مصرع احتجاجاً کندہ کروا آئیں۔
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجُا
(دیکھو تو سہی کہ ہماری راہ کا فرق کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے)