18 سالہ صفیہ شکاگو کے ایک خاموش نیم روشن کچن میں بیٹھی پہلی بار آنکھوں دیکھا قتل بیان کر رہی ہیں۔ انہوں نے مایوس کن لہجے میں کہا، ’میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ایک شخص میرے سامنے مر رہا ہے اور میں اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ اس کی آنکھوں میں صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ بچنے کی تمام امیدیں کھو چکا ہے۔‘
افغانستان میں یہ قتل پچھلی گرمیوں میں ہوا جو صفیہ کے دماغ میں اب تک تازہ ہے لیکن بچپن میں روزانہ کے تشدد اور اموات کا سامنے کرنے والے بچوں کی طرح وہ دہشت زدہ ہو کر مشکل سے یہ لرزہ خیز واقعہ بیان کر رہی ہیں۔
وہ شخص ان کے ساتھ ایک چھوٹی بس میں بامیان کی طرف جا رہا تھا۔ بامیان افغانستان کا انتہائی خوبصورت علاقہ ہے جہاں پہاڑوں میں بدھا کے دو مجسمے تھے جنہیں افغان جنگ میں طالبان نے تباہ کر دیا تھا۔
اپنے دوستوں سے ان مہکتی وادیوں اور اسلامی ساختوں سے مختلف بدھا کی عبادت گاہ کے متعلق دلچسپ باتیں سننے کے بعد صفیہ نے اپنی ماں سے اس کی سیر کا پوچھا۔ اپنے امریکی ویزا کی جلد منظوری کے اندیشے سے آگاہ کرتے ہوئے اس نے ماں کو قائل کر لیا۔ اس کی درخواست منظور ہونے کا مطلب تھا کہ وہ افغانستان چھوڑ کر وڈلینڈز اکیڈمی آف سیکرڈ ہارٹ شکاگو میں سکالرشپ پر تعلیم حاصل کر سکتی تھیں۔ صفیہ کے بقول تفریحی سفر سے اس کے اعصاب پرسکون ہو جائیں گے۔
جیسے ہی بس ایک موڑ کے پاس پہنچی صوفیہ کو طالبان کی ایک چیک پوسٹ نظر آئی اور بس روک لی گئی۔ بس مسافروں کی سرگوشی سے گونجنے لگی ایسا لگتا تھا وہ تلاشی کی وجوہات سے آگاہ تھے۔
طالبان ایک آدمی کو ڈھونڈ رہے ہیں جو افغان آرمی میں شامل رہا تھا اور انہیں اطلاع ملی ہے کہ آج وہ سفر کر رہا ہے اور اس کے لباس اور حلیے کی تفصیلات بھی بتا دی گئی ہیں۔
جیسے ہی صفیہ نے اپنی بس کے اندر سے دیکھا تو ایک دوسری کوچ سے طالبان ایک شخص کو گھسیٹتے ہوئے لا رہے تھے اور اسے چند دکانوں والے گردو غبار سے اٹے راستے کے ایک طرف کھڑا کر دیا۔ پھر اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔
صوفیہ کہتی ہیں، ’جو میں نے دیکھا اسے کبھی نہیں بُھلا پاؤں گی۔ میں موت سے زیادہ بندوق اٹھائے شخص سے خوفزدہ ہوں۔‘ افغان حکومت اور طالبان زمینی قبضے، سیاسی اختلافات اور نفاذ مذہب کے معاملے پر تقریباً دو دہائیوں سے پرتشدد کشمکش کا شکار ہیں۔
ملا برادر اخوند کے زیر قیادت سنی اسلامی سیاسی تحریک طالبان افغانستان میں اسلامی قانون کا نفاذ چاہتی ہے جو اس گروہ کے بقول غیر مسلموں سے امتیازی سلوک نہ برتے گا۔ اشرف غنی کے زیر انتظام موجودہ حکومت اسلامی جمہوری نظام چاہتی ہے جو پانچ یا اس بھی زیادہ مذہبی فرقوں اور ملک میں رہائش پذیر 14 نسلی گرہوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس تنازعے میں اہم پیش رفت ستمبر میں دوحہ کے مقام پر حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی بار امن مذاکرات کا آغاز تھا جس سے لوگوں کو خود کش دھماکوں اور قتل عام سے نجات کی امید نظر آئی۔
لیکن امن مذاکرات کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کی طرف سے کسی بھی قسم کے نتیجہ خیز مذاکرات سے پہلے فوری طور پر جنگ بندی کے اعلان کے باوجود افغانستان میں دھماکے جاری ہیں۔
24 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں شیعہ تعلیمی مرکز کے قریب بم نصب کیا گیا جس سے 18 اموات جبکہ 57 زخمی ہوئے جن میں بچے بھی شامل تھے جبکہ 2 نومبر کو کابل یونیورسٹی دھماکے میں 16 طالب علموں سمیت 22 افراد ہلاک اور اس کے علاوہ 22 افراد زخمی ہوئے۔ افغانستان کے 24 گھنٹے مسلسل سروس والے طلوع نیوز کے مطابق صرف اکتوبر میں مزید 27 حملے ہوئے جن میں 243 اموات اور 339 افراد زخمی ہوئے۔
اسلامی تنظیموں سے وابستہ مسلح اشخاص اور طالبان نے مختلف دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے البتہ امن مذاکرات کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں کسی بھی قسم کی وابستگی سے طالبان نے صاف انکار کیا ہے۔ اگرچہ طالبان اور اسلامی تنظیم داعیش کے اقدامات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا شاید بہت آسان نہیں۔
وینکوور میں ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن کے انٹرنیشنل سکیورٹی ڈائریکٹر سجن گوہل کے مطابق ثبوت کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکثر اپنی ذیلی نتظیمی گرہوں کی مدد سے یہ دونوں دھڑے دھماکوں کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔
قانون کی عمل داری یقینی بنانے والے عہدے داروں، مئی میں افغانستان سے باہر تعینات ہونے والے سکورٹی ایجنٹوں اور فوجی افسروں کے ساتھ اجلاس میں ڈاکٹر گوہل اور ان کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ طالبان نے پاکستان میں موجود اس اسلامی تنظیم اور اس کے اپنے حقانی نیٹ ورک کی باہمی شراکت سے کئی بدترین دہشت گردی کے حملوں کی ذمہ داری تسلیم کی ہے۔
ایسی شراکت داریوں کی سہی تعداد معلوم نہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ اس میں ہزاروں کی تعداد میں افغان مرے جن میں بچے اور نوجوان بھی شامل تھے۔ افغانستان کی کل آبادی کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ بچے اور نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ تقریباً 48 فیصد افغانوں کی عمر 15 سال سے کم اور آبادی کا 75 فیصد 29 سال سے کم ہونے کی بنا پر افغانستان دنیا کی نوجوان ترین آبادی کے لحاظ سے افریقہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
افغان حکومت کی طرف سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2015 اور 2018 کے درمیان پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں 12,500 سے زیادہ بچے مرے یا زخمی ہوئے جبکہ 274 بچے جنگ یا جنگ میں تعاون کے لیے بھرتی کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ افغانستان میں ایک تہائی بچے خاندان کے کسی رکن کے کھو جانے اور سکول میں دہشت گردی کے حملے میں موت یا زخمی ہونے کے مسلسل خطرے کے باعث نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔
بڑھتے ہوئے تشدد اور دوحہ میں طالبان اور حکومت کے درمیان تکلیف دہ حد تک سست رو امن مذاکرات سے مایوسی کا شکار نوجوان افغان باشندے قیامِ امن کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ 26 سالہ یحییٰ قانی کی جون میں قائم کردہ دی نیشنل یوتھ کنسیسنس فار پیس تیزی سے ترقی کرتی ہوئی تحریک ہے جو پورے افغانستان میں پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ تنظیم نوجوانوں کی دیگر 244 تنظیموں کو ملا کر ملک بھر کے 34 صوبوں میں 2,000 نوجوانوں کی تعداد کے ساتھ امن مذاکرات اور لڑائی کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے۔
یحییٰ نے قیام امن کا آغاز 2014 میں نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کے لیے کام کرنے والی ایک تحریک سے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کابل کی یونائیٹڈ نیشنز جنرل اسمبلی قائم کی اور پھر افغانستان کی اقوام متحدہ ایسوسی ایشن کے سربراہ بن گئے۔ اس کے بعد یحی نے نیشنل یوتھ کنسیسن فار پیس کی بنیاد رکھی جو ان کے بقول سہی معنوں میں مساوات پر قائم ہے کیونکہ اس کا کوئی سربراہ نہیں۔
اس کے علاوہ اس تنظیم کے تمام ارکان رضاکار ہیں جو اپنے جیب خرچ سے قیام امن کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ یحییٰ کے بقول افغانستان میں قیام امن کے لیے نوجوان مرکزی کردار کے حامل ہیں کیونکہ وہ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات کے براہ راست وارث ہیں۔ اس طرح ان کے بقول قیام امن کے لیے نوجوانوں کی آواز بنیادی نوعیت کی حامل ہے جسے سنا اور تحفظ دیا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں، ’نوجوانوں بالخصوص امن کے لیے کوشاں نوجوانوں اور ان کے رہنماؤں کے تحفظ لیے ہماری حکومت یا بین الاقوامی برادری کی طرف سے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ ہر سال تقریباً 10,000 افراد دھماکوں سے متاثر ہوتے ہیں جن میں طالبان نوجوانوں سمیت 8,000 جوان شامل ہیں جو طالبان اور سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہوتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔‘
یحییٰ اپنے ملک میں 18 سالہ نوجوانوں اور 35 سالہ افراد کے مابین رابطے کا فقدان محسوس کرتے ہیں جس کا 90 فیصد سبب ان کے بقول افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور حکومت کا پرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے اپنے نقطہ نظر پر اصرار ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’اگر نوجوان امن کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے قتل ہو رہے ہیں تو ہمارے لیے امن کے موضوع پر اپنی بات کہنے کا موقع کیوں نہیں؟‘
اس طرح حکومتی امن تجاویز سے غیر مطمئن ہو کر انہوں اپنا منشور ترتیب دیا جو اقوام متحدہ کے نوجوانوں کے عالمی دن 12 اگست کو کابل میں باقاعدہ منظر عام پر لایا گیا۔ منشور میں موجودہ امن مذاکرات کو جانبدارانہ کہتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا گیا اور افغانستان میں دیر پا امن کے لیے اپنی تجاویز پیش کی گئیں۔ منشور میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ حکومت قیام امن کے تمام مراحل میں نوجوانوں کی شرکت ان کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے عطا کرے۔
موجودہ حکومت سے مطالبات کے ساتھ ساتھ یہ منشور طالبان کو آئین افغانستان کے دوسرے باب میں درج بنیادی حقوق اور افغان شہریوں کو دی گئی آزادی کے احترام کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔ ان حقوق میں ایذارسانی اور امتیازی سلوک سے تحفظ، آزادی اظہار، صنفی برابری اور حکومتی انتخاب کا عوامی حق شامل ہے۔
پرامید اور تخلیقی ہونے کے باوجود قرارداد محتاط ہے جو افغانستان کی بگڑی ہوئی صورت حال اور آبادی سے واقف شخص کی لکھی ہوئی ہے۔ عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے یہ دستاویز عالمی ریاستوں سے امن مذاکرات کے دوران نگرانی اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد افغانستان کے باشندوں کو تحفظ اور تعاون جاری رکھنے کی درخواست کرتی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد قرارداد نیٹو، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے سفارت خانہ میں بھیجی۔
طالبان سے بات چیت شروع کرنے کے لیے 19 اگست کو وٹس ایپ کے ذریعے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کو قرارداد کی برقی نقل بھیجی۔ شاہین نے میسجز اور قرارداد کا جواب دیتے ہوئے بات کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ یہ میٹنگ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی جب ایک رکن نے شاہین سے آن لائن کانفرنس کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک ایمرجنسی کا عذر کرتے ہوئے مزید بات سے انکار کر دیا۔
افغانستان میں قیام امن کی کوشش غداری کہلاتی ہے اور یحییٰ کو اکثر اپنے خاندان کی طرف سے اسے ترک کرنے کی درخواست کی جاتی ہے۔ ’جو ہم کر رہے ہیں یہ بہت خطرناک ہے کیونکہ نوجوان لوگوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ ان کے بقول جب بھی مجھے گھر سے نکلنا ہو میرے والدین پوچھتے ہیں کہ کیا مجھے واقعی ہی امن کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر وہ مجھے سب کچھ گھر پہ چھوڑ کر جانے کی ہدایت دیتے ہیں۔ ایک موقعے پر میں یورپ گیا تو 25 رشتے داروں نے کال کر کے باہر رہنے کی درخواست کی اور کہا اب واپس افغانستان نہ آؤ لیکن میں نے کسی کی پروا نہیں کی۔‘
یحییٰ نوجوانوں کی اس بڑی تعداد کا حصہ ہے جنہیں باہر رہنے کے مواقع ملے لیکن انہوں نے افغانستان میں قیام کو ترجیح دی۔ وہ قیام امن کی کوششوں سے وابستگی اور ملک میں جسمانی موجودگی کو افغانستان اور اس کے مستقبل کے لیے فرض سمجھتے ہیں۔
2016 میں طالبان کی طرف سے تین بار قاتلانہ حملوں کی زد میں آنے اور پھر کابل کی امریکی یونیورسٹی سے بی اے کرنے والی، اب ’افغانستان کی ملالہ‘ کے نام سے معروف 31 سالہ بریشنا موسیٰ زئی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے افغانستان میں رہتے ہوئے قیام امن کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
بریشنا کہتی ہیں، ’میں دوست کے ساتھ مسجد میں شام کی نماز ادا کررہی تھی جب ہم نے پہلے فائرنگ اور پھر دھماکے کی آواز سنی۔‘ دائیں ٹانگ میں پولیو ہونے کی وجہ سے بریشنا بھاگ نہیں سکتی تھیں اس لیے انہوں نے دھماکے والے باغ اور مسجد کے بیرونی علاقے میں سے گزرنے کے بجائے کئی منزلوں پر مشتمل ایک قریبی عمارت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی وہ عمارت کے دہانے پر پہنچیں انہیں ٹوٹے ہوئے شیشے کے ٹکڑے نظر آئے۔
اچانک حملے نے انہیں نماز کے بعد جوتے پہننے کی فرصت ہی نہ دی تھی اس لیے ننگے پاؤں کانچ پر سے گزرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ نوکیلے ٹکڑوں پر دھیرے دھیرے آگے بڑھنا اذیت ناک تھا۔ عمارت میں داخل ہوتے ہی انہوں نے کئی لڑکیوں کو وہاں چھپا ہوا دیکھا۔ وہ سب ان کے ساتھ مسجد میں تھیں۔
ایک اونچی نیم شکستہ کھڑکی سے کمرے میں داخل ہونے کے لیے ایک لڑکی دوسری لڑکی کی مدد کر رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے لڑکی کو کمرے میں دھکیلنے کی کوشش کی تو کھڑکی کا فریم اپنی جگہ سے ہلا اور نیچے بیٹھی ہوئی لڑکی کے ناک اور رخسار کو چیرتے ہوئے نیچے جاگرا۔ زخم بہت گہرے تھے اور بریشنا اسے ٹشو دینے کے لیے بیگ اٹھانے لگیں۔ اچانک بریشنا نے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنی۔ جیسے ہی وہ مڑیں ایک شخص بندوق تھامے سکیورٹی گارڈ کی وردی پہنے کھڑا تھا۔ بریشنا نے سکھ کا سانس لیا اور سپاہی نے اس پر فائر کھول دیے۔ اس شام طالبان نے سکیورٹی گاڈز کی وردیاں پہنی تھیں تاکہ مقامی قانونی اداروں کی پکڑ سے بچ سکیں۔
پہلی گولی بریشنا کی بائیں ٹانگ میں لگی۔ انہیں فوراً خیال سوجھا، وہ نیچے گریں اور موت کی اداکاری کرنے لگیں۔ مسلح شخص نے دوبارہ گولی چلائی جو بائیں پاؤں میں لگی۔ کمرے میں موجود لڑکیاں مسلح شخص سے جس قدر ممکن تھا تیزی سے دور بھاگ گئیں اور بریشنا بے حس و حرکت فرش پر پڑی رہیں۔
چیخنے چلانے یا حرکت کرنے سے خوف زدہ وہ سوچ رہی تھیں کہ قتل یقینی بنانے کے لیے مسلح شخص کیا ان کے سر میں بھی گولی مارے گا لیکن وہ انہیں اکیلا چھوڑ کر غائب ہو گیا۔
جیسے ہی رات ہوئی وہ اپنے فون پر دیکھ سکتی تھیں کہ گھر کے افراد نے باری باری اس سے رابطے کے لیے کالیں کی تھیں۔ بریشنا نے مسجد میں اپنے موبائل کی گھنٹی بند کی تھی اور دوبارہ آواز کھولنا بھول گئی تھیں۔ اب بھاگنے کی تراکیب سوچتے ہوئے وہ اس معمولی غلطی کی شکر گزار تھیں۔ انہوں نے دروازے پر لوگوں کی سرگوشی کی آواز سنی۔
طالبان اور افغان پولیس نے ایک دوسرے پر فائز کھول دیے جو کمرے کے دونوں طرف سے شدید ہوتے جا رہے تھے اور دونوں طرف کی گولیاں اس کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔ گولیاں لہروں کی شکل میں اس کے اوپر سے گزر رہی تھیں اور اس لمحے بریشنا نے سوچا کہ ان کی موت یقینی ہے۔
تیسری گولی ان کی بائیں ٹانگ میں لگی اور گولیوں کی آواز کم ہوتے ہوتے اچانک خاموش ہو گئی۔ انہوں نے فون اٹھایا اور اپنے والدین کو میسج کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس پہنچ چکی ہے اور اسے لینے آ رہی ہے۔
جیسے ہی ایک سپاہی کے کندھے پر ایمبولینس تک پہنچنے کے لیے انہیں رکھا گیا ٹوٹی ہوئی ٹانگ کمر سے ٹکرائی وہ تکلیف سے کراہنے لگیں۔ سپاہی نے انہیں شور کرنے سے منع کیا کہ طالبان سن لیں گے اور وہ دونوں مارے جائیں گے۔
بریشنا کی یہ آزمائش اگلے چھے گھنٹے تک جاری رہی جس نے نہ صرف ان کے جسم بلکہ دماغی صحت سے بھی لگان وصول کیا اور حملے کے کئی ماہ بعد تک وہ خوف کی کیفیت میں رہی۔ ان کی خواہش تھی کہ کاش حملے کرتے وقت طالبان کی منصوبہ بندی سے وہ آگاہ ہوتیں۔ وہ کہتی ہیں، ’حملے کے بعد میرے والد نے مجھے بتایا کہ جب دہشت گرد کسی جگہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ کسی اونچی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اس کے بلندی پر چڑھ کر لڑائی کے لیے بہترین پوزیشن حاصل کریں۔ وہ کہتی ہیں کاش مجھے پہلے یہ پتہ ہوتا تو میں کبھی اس عمارت میں نہ جاتی بلکہ کسی کم منزلوں والی چھوٹی عمارت کا انتخاب کرتی۔‘
اپنے تجربے کے باوجود یحی اور صفیہ کی طرح بریشنا افغانستان کے پرامن مستقبل کے تحفظ کے لیے وہ خود کو مجبور سمجھتی ہیں۔
وہ این وائے سی پی کی رکن ہیں اور مذاکرات کرنے والے طاقتور لوگوں پر تنقید کرتی ہیں۔
بریشنا اور این وائے سی پی کے مطابق طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات طویل مدتی امن کے بجائے سیاسی اجارہ داری کے لیے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’انہوں نے مذہب کے نام پر جنگ شروع کی لیکن یہ ایک سیاسی جنگ ہے جس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر انہوں نے لڑائی جاری رکھی تو امن کبھی نہ آئے گا۔‘
این وائے پی سی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ طالبان اور اپنے درمیان طاقت کی رسہ کشی سے بالا تر ہو کر افغانستانی نوجوانوں کے ساتھ سنجیدہ بات چیت میں شاید حکومت کو دلچسپی ہی نہیں۔ وہ کہتی ہیں 'ہمارا مقصد اور مطمع نظر بااختیار حکومتی فرد کے ساتھ امن مذاکرات پر اتفاق رائے ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ حکومت اس مقصد کے لیے سنجیدہ ہے۔ حکومتی عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتوں سے لگتا ہے وہ آمادہ نہیں۔'
نوجوانوں کی شمولیت اور امن مذاکرات پر حکومتی موقف این وائے سی پی اور اس کے اراکین کی طرف سے کی گئی تنقید کے برعکس ہے۔ صدر غنی نے امن مذاکرات میں نوجوانوں کے کردار پر بات کی ہے۔ نوجوانوں کی امن مذاکرات میں شمولیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے مستقبل پر یہ دور رس اثرات مرتب کرے گے۔ اس پالیسی کے مطابق حکومت نے افغان نوجوانوں کی نمائندگی کے لیے دو نوجوان خالد نور اور باطر دوستم کو منتخب کیا جو اب دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کا حصہ ہیں۔ این وائے سی پی کا کہنا ہے کہ انہیں اس انتخاب پر اعتراض ہے کیونکہ خالد اور باطر نامور جنگی سرداروں کے بیٹے ہیں جو بااثر مقام رکھتے ہیں۔
خالد کے والد عطا محمد نور افغانستان کی مسلمان سیاسی تنظیم جماعت اسلامی کے سربراہ ہیں۔ باطر کے والد عبدالرشید دوستم 2014 سے 2020 کے درمیان نائب صدر رہے اور اب اپنے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ سے طاقت کے کھیل میں بڑا حصہ لینے کے لیے کیے گئے اقدامات میں غنی نے انہیں مراعات سے نوازتے ہوئے مارشل کے عہدے پر تعینات کر دیا ہے۔ یحی کو افغان نوجوانوں کی طرف سے امن مذاکرات میں خالد اور باطر کی نمائندگی پر شدید تحفظات ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’دوحہ مذاکرات میں نوجوانوں کی نمائندگی کرنے والے نوجوانوں کے نمائندہ نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور جنگی سرداروں کے بیٹے ہیں۔ وہ کبھی افغانستان رہے ہیں اور نہ انہیں یہاں کے زمینی حقائق کا پتہ ہے اور نہ وہ جانتے کہ ان میٹنگز میں کیا بات کریں کیونکہ وہ افغانستان کے نوجوانوں سے کبھی رابطے میں نہیں رہے۔‘
باقی کچھ لوگ مذاکرات سے بہت پرامید ہیں۔ صدر غنی کے لیے تین سال تک مختلف خدمات سرانجام دینے اور جون 2018 سے جون 2020 تک ایوان صدر میں شعبہ شکایات ARG کے جنرل ڈائریکٹر رہنے والے فرید حیقار کئی حکومتی عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔
فرید اب حکومت کی ملکیت انرجی کمپنی دا افغانستان برشنا شرکت میں کام کرتے ہیں جہاں وہ نگرانی اور ترقی کے زمہ دار ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'میرے خیال میں امن مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔ جب تک یہ سست رو پیش رفت امن کی طرف بڑھتی رہتی ہے ہمیں امید ہے۔'
شعبہ شکایات کے جنرل ڈاریکٹر کے وقت کو بیان کرتے ہوئے فرید کہتے ہیں کہ لوگوں نے کبھی ایوان صدر کے خلاف شکایات درج نہیں کروائیں۔ اس کے بجائے حکومتی عہدے داروں کی طرف سے انہیں شکایات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ عہدے دار روزانہ فون کرتے اور طالبان کے خلاف شکایات درج کراتے ہوئے کہتے کہ ان کے گاؤں کی بجلی بند کر دی جائے جسے بقول فرید وہ ہمیشہ مسترد کر دیتے تھے۔ سکولوں اور بچوں کے باقی مقامات پر اپوزیشن گروہوں کی طرف سے حالیہ رجحان پر بات کرتے ہوئے فرید کہتے ہیں کہ ’یہ انتخاب شاید شہرت کے لیے ہے۔ میرا خیال ہے، اس کا مقصد میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ دہشت گرد میڈیا کی توجہ چاہتے ہیں لیکن آج صدارتی الیکشن کے مقابلے میں دھماکہ توجہ نہیں کھینچ سکتا اس لیے وہ مزید بڑے سے بڑے حملے کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کابل یونیورسٹی میں پچھلا دھماکہ ہمارے میڈیا میں کوئی توجہ حاصل نہ کرسکا جس نے آسٹریلیا میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے کو ترجیح دی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایک آسٹریا کے باشندے کی زندگی 80 جوان افغانیوں کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں 2 نومبر کو دہشت گردی کا یہ واقعہ پیش آیا جس میں ایک نوجوان سمیت چار لوگ زندگی کی بازی ہار گئے اور 22 لوگ زخمی ہوئے۔ مسلح شخص کی شناخت 20 سالہ اسلام پسند کے طور پر کی گئی جو دہشت گردی کے الزامات پر جیل میں وقت گزار چکا تھا۔ اگرچہ افغانستان میں دہشت گردی کے حملے جاری ہیں لیکن فرید پرامید ہیں کہ امن مذاکرات سے لڑائی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں صدر کو بنیادی فکر اس بات کی ہے کہ ملک کے 37 ملین افغانیوں کی آواز کم سے کم اس قدر ضرور سنی جائے جتنی باقی سٹیک ہولڈرز کی سنی جاتی ہے۔‘
این وائے سی اس بات پر قائل نہیں ہوسکی کہ حکومت افغانستان کے نوجوانوں کو مذاکرات کی میز پر کوئی قانونی مقام دینا چاہتی ہے۔ بریشنا کہتی ہیں، ’حکومت محض دنیا کو بتانا چاہ رہی ہے کہ وہ نوجوانوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ محض دکھاوا ہے وہ دراصل ہماری بات سننے کے روادار بھی نہیں۔‘
صفیہ بریشنا کے خدشات دہراتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ مذاکرات بہت جلد ختم ہونے والے ہیں۔ ’امن مذاکرات وقت کا ضیاع ہیں کیونکہ حکومتی پہلے سے یہ جانتی ہے کہ طالبان اس وقت تک پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں جب تک جو وہ چاہتے ہیں انہیں دیا جائے اور وہ ہے کہ افغانستان ان کا ملک اور ان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔‘
قیام امن کے لیے کوشاں نوجوان افغانوں کے لیے تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا سفر ساتھ ساتھ ہے۔ اکثر اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود کہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں سکول اور یونیورسٹی تک پہنچتے بھی ہیں کہ نہیں ملک بھر میں خاندانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم پر بھاری رقم خرچ کریں۔
صفیہ کہتی ہیں، ’میں ایک ایسے خاندان سے ہوں جہاں مجھ سے پہلے تعلیم تک رسائی نہیں تھی لیکن میرے والدین مجھے سکول بھیجنے کے لیے پرعزم تھے تاکہ میں اپنا دفاع کر سکوں۔ پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت نے مجھے طاقت بخشی ہے۔‘
اکثر اہم کالجوں کے سکالرشپ سے اس طاقت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ بریشنا جن کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات کے لیے مشکلات کا شکار تھے سکالرشپ جیت کر کابل کی امریکی یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
شکاگو کے سکرڈ ہارٹ ولڈلینڈز اکیڈمی کے لیے سکالرشپ جیتے والی صفیہ اب فل برائیٹ پروگرام کے لیے فائنل ہوچکی ہے۔ شکاگو میں رہائش پذیر قانون دان، تنازعات کے حل میں بطور ثالث کام کرنے والے ٹام ولینٹی جو افغان طالب علموں کو دنیا بھر کے پیشہ ور ماہرین سے جوڑنے کے لیے گلوبل یوتھ ڈویلپنگ انیشیٹو کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں انہوں نے صفیہ کی سکالر شپ کے لیے اپلائی کرنے کے لیے راہنمائی فراہم کی۔ انہوں جے وائی ڈی آئی کے دو بانی اراکین گھرسنی عبدالامین اور صنا احمدی کے فل برائٹ کے لیے بھی کوشش کی جو دونوں خواتین مکمل کر چکی ہیں۔
جے وائی ڈی آئی کے تحت ٹام نوجوان سے دہشت گردی کے حملوں کے تجربات جاننے کے لیے آن لائن اجلاس منعقد کرتے ہیں جہاں طالب علم بلا خوف و خطر اپنے جذبات دوسرے نوجوانوں کے سامنے بیان کر سکتے ہیں جو جبر کی فضا میں زندگی گزارنے کی تکلیف اور اذیت سمجھ سکتے ہیں۔
ٹام کہتے ہیں کہ نوجوان افغان اپنی ٹین ایج میں پہنچنے تک دیکھی گئی تباہی کے خلاف اپنا مدافعتی نظام وضع کر لیتے ہیں اور غم غلط کرنے کے اپنے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’ان کے تمام تجربات تشدد کے نہایت قریبی مشاہدے پر مشتمل ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہی حقیقت ہے۔ افغانستان میں تشدد کے سبب اموات سے ہٹ کر جب کوئی شخص مرتا ہے تو لوگ قبر پر اس کی لاش دیکھنے جاتے ہیں اور اس کی تصاویر شئیر کی جاتی ہیں۔ تشدد کی وجہ سے یہ کلچر بن چکا ہے اور حملے کی زد میں آ کر مارے جانے والے دوستوں یا خاندان کے افراد کی آن لائن تصاویر لگانا نوجوانوں کے لیے ایک معمول کا کام ہے۔ یہ بات بالکل غیر متعلق ہے کہ تصاویر واضح ہیں یا نہیں نوجوانوں کو یہ تصاویر اموات کا ریکارڈ رکھنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔‘
اپنے دکھ سے امن مذاکرات کی آبیاری کرنے والے نوجوان افغانیوں کو کوئی چیز بھی پرامن وطن کے خواب سے دور نہیں کرسکتی۔ یحییٰ کہتے ہیں ’نوجوانی امید، اختراع اور قوت کا نام ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں یہاں کئی امن معاہدے ہوچکے ہیں لیکن وہ سب ناکام ہوئے کیونکہ انہوں نے عوام، عورتوں، بچوں اور اس وقت کے نوجوانوں کو شامل نہیں کیا۔‘
بریشنا اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ افغانستان میں دیر پا امن کے لیے نوجوانوں کی شمولیت انتہائی ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک بار تشدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔ وہ کہتی ہیں، ’اگر یہ گروہ امن چاہتے ہیں تو جنگ بندی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ ناگزیر حد تک ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی ثبوت نہیں کہ طالبان افغانستان میں قیام امن کے لیے مخلص ہیں۔‘
صفیہ کے خیال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے طالبان کو مرکزی دھارے میں لے کر آئیں۔ میں اس بات پر یقین نہیں کرتی کہ ’لڑائی طالبان کی خامی ہے کیونکہ ہر رکن طالبان کے خاندان سے زندگی کا آغاز کرتا ہے اور آپس میں ان کے درمیان کوئی تشدد نہیں ہوتا۔ پھر بچے دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین دوسرے خاندانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ وہ ایسی دنیا میں پروان چڑھتے ہیں جہاں انہیں بتایا جاتا ہے کہ تمہیں قتل کرنا چاہیے، دعا کے بجائے بندوق کا سہارا لینا چاہیے، عورتوں کی عزت کے بجائے انہیں اذیت دینی چاہیے۔ میرا نہیں خیال اسلام دوسروں کو تکلیف پہنچانے کی اجازت دیتا ہے۔‘
مزید تعلیم کے خواب سجائے اب صفیہ مطمئن ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں۔ میز سے معذرت خواہانہ لہجے میں اجازت لیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ آج نومبر کی نسبت سے ریاست الینوئے کی غیر معمولی گرم دوپہر میں ایک دوست کے ساتھ آئس کریم کھانے جانا ہے۔
© The Independent