سال 2020 اختتام پذیر ہے۔ یہ سال معاشی اعتبار سے پاکستان کے لیے کیسا رہا، آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں۔
اگر ڈالر کی بات کی جائے تو جنوری 2020 میں ڈالر کی قیمت 154 روپے تھی اور دسمبر 2020 کے اختتام پر اس کی قیمت تقریباً 161 روپے ہے۔ بظاہر یہ اضافہ سات روپے ہے لیکن اس سال قیمت تقریباً 169 روپے بھی رہی ہے جو کہ پاکستانی تاریخ میں ڈالر کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ روپے کمی کے پیچھے سٹیٹ بینک کی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ
یہ اتار چڑھاؤ معیشت میں کمزوری کی طرف اشارہ ہے، لیکن حکومتی دعویٰ ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کھلنے سے ملک میں ڈالر کی فراوانی ہو رہی ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روزانہ کی بنیاد پر اکاؤنٹس کھلوا رہے ہیں اور طویل مدتی سیونگ سرٹیفکیٹس میں ڈالر انویسٹ کر رہے ہیں۔
گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 20 لاکھ ڈالر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں جمع ہو رہے ہیں اور 23 نومبر 2020 تک تقریباً 16 ارب روپے حاصل ہو چکے ہیں، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا پاکستانی معیشت پر کیا مثبت اثر پڑا ہے؟
ڈالر کی قیمت اب بھی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ڈالر اکاؤنٹ پر سات فیصد شرح سود کیوں آفر کی گئی ہے۔ پوری دنیا میں ڈالر اکاؤنٹ پر شرح 0.5 فیصد سے ایک فیصد ہے۔ حکومت اس شرح پر سود کی ادائیگی ڈالروں میں کیسے کرے گی اور جو ڈالر موصول ہو رہے ہیں ان کی سرمایہ کاری کہاں کی جائے گی؟
کیا حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہے یا یہ رقم بھی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں پر خرچ کر دی جائے گی اور جب روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ ہولڈرز کو ادائیگیوں کا وقت آئے گا تو اس کا بوجھ بھی پاکستانی عام پر ڈال دیا جائے گا۔ حکومتی پالیسی میں اس حوالے سے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے۔
ایف اے ٹی ایف
حکومت نے اس سال ایف اے ٹی ایف کا قانون ایوان سے منظور کروایا ہے، جس کا مقصد منی لانڈرنگ کی روک تھام بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون بنانا اور اس کو اصل روح کے ساتھ لاگو کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً ہر شعبے کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف قوانین کی منظوری سے کتنے ڈالرز منی لانڈرنگ سے بچا لیے گئے اور ڈالرز ذخائر میں کوئی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں کیوں نہیں آ رہا، حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ غیر رجسٹرڈ منی چینجروں نے کام بند کر دیا ہے اور ڈالرز بینکوں اور رجسٹرڈ منی چینجرز کو بیچے جا رہے ہیں لیکن اس دعوے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں ہے۔ حکومتی دعوے پر کس بنیاد پر یقین کیا جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
سرکار نے حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی منی چینجروں کے طور پر کام کرنے والے کتنے لوگوں کو گرفتار کیا، ایف اے ٹی ایف کے تحت کتنے مقدمات بنائے گئے اور کیا سزائیں دلوائی گئیں ان اعدادوشمار میں بھی ابہام موجود ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اپوزیشن اس میں ترامیم چاہتی تھی جسے نظر انداز کر دیا گیا۔ ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد کم اور اپوزیشن کی زیادہ تھی لیکن حکومت نے پھر بھی قانون منظور کروا لیا۔ اپوزیشن نے ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
مہنگائی اور پاکستانی معیشت
سال 2020 مہنگائی کے حوالے سے مشکل رہا ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے عوام کی قوت خرید کم کر دی ہے۔ جس شخص کے پاس دس لاکھ روپے تھے ان کی قیمت ایک سال میں پانچ لاکھ کے برابر رہ گئی ہے۔ جتنے پیسوں میں پہلے 16 سو سی سی گاڑی آتی تھی اس میں اب 13 سو سی سی گاڑی بھی نہیں آ رہی۔ جس شخص نے دس مرلہ گھر بنانے کے لیے سوا کروڑ روپے جوڑ رکھے تھے اب اس میں پانچ مرلے کا گھر بھی نہیں آتا۔
دوسری طرف مافیاز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کبھی آٹا نہیں ہے، کبھی چینی سو روپے کلو بک رہی ہے، کبھی ٹماٹر تین سو روپے کلو مل رہے ہیں اور کبھی ادرک کی قیمت چار سو روپے کلو تک پہنچی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ سزا اور جزا کا نظام شاید انہیں اپنے شکنجے میں لینے سے قاصر ہے۔ رپورٹس کے مطابق جولائی 2020 میں پاکستان میں مہنگائی دنیا میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ نئے مالی سال کے پہلے ماہ جولائی 2020 میں مہنگائی کی شرح 9.3 فیصد رہی ہے۔ ان حالات میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے بجٹ بنانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
ٹیکس آمدن
کسی بھی معیشت کی ترقی کا دارومدار ٹیکس آمدن پر ہوتا ہے۔ عوام کی خوشحالی بھی اسی میں مضمر ہے۔ آمدن ہو گی تو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جا سکے گا۔ مالی سال 2020-2019 میں حکومت کا ٹیکس ہدف 5.503 ٹریلین روپے تھا جبکہ صرف 3.908 ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا ہوا۔ سال 2021-2020 کا ٹیکس حدف 4.963 ٹریلین روپے طے کیا گیا ہے۔ حکومت یہ حدف حاصل کر پاتی ہے یا نہیں اس کا علم جون 2021 میں ہو سکے گا لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ٹیکس حدف حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ ستمبر، اکتوبر اور نومبر کے اعدادوشمار کے مطابق سرکار نے حدف سے کم ٹیکس وصول کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ جن کمپنیوں اور افراد کا مالی سال 30 جون 2020 کو اختتام ہو رہا ہے ان کی سالانہ ریٹرن جمع کروانے کی آخری تاریخ 8 دسمبر 2020 مقرر کی گئی۔ اس تاریخ تک صرف 18 لاکھ ٹیکس ریٹرنز جمع ہوئی ہیں جبکہ پچھلے سال حکومت نے 28 فروری 2020 تک توسیع دے دی تھی جس کی وجہ سے ریکارڈ 29 لاکھ ریٹرنز جمع ہوئی تھیں۔ لیکن ایف بی آر کا کہنا ہے کہ پچھلے سال آٹھ دسمبر کو 17 لاکھ 30 ہزار ریٹرنز جمع ہوئے تھے جبکہ اس سال آٹھ دسمبر تک تقریباً 18 لاکھ ریٹرنز جمع ہوئے ہیں، جو کہ چار فیصد زیادہ ہیں۔
اس کے علاوہ پچھلے سال 13.8 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا ہے، جبکہ اس سال 22 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہوا ہے جو کہ تقریباً 63 فیصد زیادہ ہے۔ ایف بی آر جو موازنہ پیش کر رہا ہے وہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معمول ہے کہ آخری تاریخ کو ٹیکس ریٹرنز زیادہ جمع ہوتے ہیں۔ پچھلے سال آٹھ دسمبر کی تاریخ نارمل تاریخ تھی جبکہ اس سال یہ ریٹرن جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً 11 لاکھ ریٹرنز کم فائل ہوئے ہیں۔
اگر ایکسٹینشن لینے والوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو تقریباً آٹھ لاکھ کم ریٹرنز فائل ہوئی ہیں جو کسی بھی طور بہتر کارکردگی کی طرف اشارہ نہیں کر رہیں۔
برآمدات
دنیا ایک گلوبل ویلج ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس ہر طرف کے ذخائر موجود ہیں لیکن وہ اسے کسی دوسرے ملک کو بیچ نہیں سکتا تو ان ذخائر کا ہونا بے معنی ہے۔ آج کی دنیا برآمدات کی دنیا ہے۔ دوسرے ملک کے لوگوں کی جیب سے پیسہ نکال کر اپنے ملک میں لانا ہی اصل کامیابی ہے، جو کہ صرف برآمدات بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو نومبر 2019 میں کل برآمدات تقریباً دو ارب ڈالر تھیں جبکہ اس سال نومبر 2020 میں صرف 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مہینوں میں برآمدات 1.3 ارب ڈالر سے بھی کم رہی ہیں۔ جس کی وجہ کرونا کی وبا بتائی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے پاکستانی معیشت کرونا سے بہت کم متاثر ہوئی ہے بلکہ دنیا کے کینسل آرڈرز بھی پاکستان کو ملے ہیں۔ برآمدات بڑھانے کے دعووں کو بنیاد بنا کر حکومت میں آنے والی پارٹی تحریک انصاف کی یہ کارکردگی بہتر دکھائی نہیں دے رہی۔
ٹیکسٹائل اور پاکستانی معیشت
حکومت نے اس سال ٹیکسٹائل سیکٹر کو آؤٹ آف دا وے سپورٹ کیا ہے۔ ٹیکس ری فنڈز، بجلی کے ریٹس اور سبسڈی دے کر ان کے مطالبات پورے کیے گئے ہیں۔ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی اخراجات کا ریٹ ہندوستان اور چین کے برابر ہے، یعنی کہ مقابلے کی قیمت دی جا رہی ہے۔ اتنی مراعات کے باوجود بھی ٹیکسٹائل سیکٹر کی کارکردگی متاثر کن نہیں ہے۔ جو سہولتیں دی گئی ہیں ان کے مقابلے میں برآمدات نہیں بڑھی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کپاس کی پیداوار بھی اس سال کم ہوئی ہے کیونکہ کسان نے اس سال کپاس کی کاشت کم کی ہے۔
وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پاکستانی کسان کو فی ایکڑ پیداوار دنیا کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد کم مل رہی ہے۔ یعنی کہ کپاس کی کاشت کی صورت میں پیسے جیب سے ادا کرنا پڑتے ہیں اور کمائی نہیں ہوتی۔ اس لیے رجحان دوسری فصلوں کی طرف ہو گیا ہے۔ مجبوراً صنعتکاروں کو کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔
یہ کیسی پالیسی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی برآمدات کی انڈسڑی کو برآمدات بڑھانے کے لیے خام مال درآمد کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ تین سال پہلے پاکستان اس میں خود مختار تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ پاکستان میں کپاس کے بیج پر ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کام نہ ہونا ہے۔
چاول کی برآمدات
سال 2020 میں چاولوں کی برآمدات بھی مشکلات کا شکار رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ٹیکسٹائل کے بعد یہ پاکستان کی دوسری بڑی برآمدات ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ پاکستان باسمتی چاول دنیا میں اپنی پہچان کھوتا جا رہا ہے اور بھارتی باسمتی چاول اس کی جگہ لے رہا ہے۔
جو پاکستانی تاجر خلیجی ملکوں میں پاکستانی باسمتی بیچا کرتے تھے اب وہ بھارتی باسمتی بیچنے پر مجبور ہیں کیونکہ پاکستانی باسمتی چاول برآمد نہیں ہو رہا۔ پاکستانی کسان کی فی ایکڑ پیداوار تقریباً 70 من ہے جبکہ بھارت میں یہی پیداوار تقریباً 120 من ہے۔
رائس مل ایسوسی ایشن کے سینئیر وائس چئیرمین فیصل جہانگیر نے بتایا کہ اس کی وجہ چاولوں کی ریسرچ پر حکومتی عدم توجہی ہے۔ کالا شاہ کاکو رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان بننے سے پہلے کا قائم ہے لیکن آج تک کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے۔ جب تک حکومت بیرون ملک سے ماہرین بلا کر چاولوں پر ریسرچ نہیں کروائے گی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔ بلکہ آنے والے سال میں چاول کی برآمدات دو ارب ڈالر سے کم ہو کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک گر سکتی ہیں۔
پاک افغان ٹریڈ
سال 2020 میں بھی پاک افغان تجارت اپنی اصل روح میں بحال نہیں ہو سکی۔ ابھی بھی پاکستانی ٹرکوں کو آذربائیجان، ازبکستان اور تاجکستان کی سرحد تک جانے کے اجازت نہیں ہے۔ پاکستانی ٹرکوں کو بارڈر پر ہی آف لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ پھر افغانی ڈرائیور اپنے ٹرکوں پر سامان لاد کر سرحدوں تک پہنچاتے ہیں۔
آٹو موبیل پارٹس اور سگریٹ اس سال بھی منفی لسٹ میں شامل ہیں۔ اکثر مال پاک افغان سرحد پر ہی بیچ دیا جاتا ہے اور فائلوں کا پیٹ کاغذوں اور مہروں سے بھر دیا جاتا ہے۔ اس سے ٹیکس آمدن اور ڈالرز پاکستان کو موصول نہیں ہوتے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل مناسب فورم پر ڈسکس نہ ہونے کی وجہ سے سالوں پر محیط ہو چکے ہیں۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس سال وزیراعظم عمران خان، انویسٹمنٹ کے وفاقی وزیر رزاق داؤد نے بھی افغانستان کا دورہ کیا ہے اور افغان وفد بھی پاکستان تشریف لایا، لیکن عملی میدان میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔ یاد رہے کہ افغانستان پاکستانی زرعی اجناس کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور پاکستانی کسان کی خوشحالی کا دارومدار کافی حد تک پاک افغان ٹریڈ پر ہے۔
قرضوں کی صورت حال
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت قرضوں کی مرہون منت ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ 2018 سے 2020 تک پاکستان کے قرضوں میں 17.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال جب کہیں سے قرض نہ ملا تو آئی ایم ایف کی طرف رجوع کیا گیا۔ پھر سعودی عرب، متحدہ ارب امارات، چین، ملائشیا، ورلڈ بینک، امریکہ سمیت کئی ملکوں اور اداروں نے بھی قرض دیا۔ اس سے عارضی ریلیف ضرور ملا لیکن اس سال ان قرضوں کی ادائیگی کا وقت آ چکا ہے۔
سعودی عرب کے چھ ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر کا ادھار تیل تھا جس کا معاہدہ سعودی عرب نے اس سال ختم کیا اور تین میں سے دو ارب ڈالر بھی واپس مانگ لیے ہیں جو پاکستان نے چین سے ادھار لے کر سعودی عرب کو واپس کر دیے ہیں۔ جب چین کو ادائیگی کی باری آئے گی تو پاکستان کیا کرے گا کوئی حکمت عملی واضح نہیں۔
اسی مالی سال کے اختتام تک پاکستان نے تقریباً 11.89 ارب ڈالر کے قرض واپس کیے ہیں، جو کہ 19-2018 کی نسبت 23 فیصد زیادہ ہیں۔ لیکں حقیت یہ ہے کہ ان کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لیے گئے ہیں۔ جی 20 ممالک نے پاکستان کو تقریباً 800 ملین ڈالر کے قرضوں میں ایک سال کی توسیع کا ریلیف دیا ہے۔ اس میں پاکستان کا کوئی کمال دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جی 20 ممالک نے اپنے تئیں یہ ریلیف دینے کا ارادہ کیا ہے۔ انہوں نے افریقہ کے کئی غریب ممالک سے دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کو یہ ریلیف دیا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس
حکومت نے سال 2020 میں یہ کہہ کر کامیابی کا اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ ہماری بڑی کامیابی ہے۔ ان دعووں کی حقیقت یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس برآمدات بڑھنے سے نہیں بلکہ درآمدات کم کرنے سے ہوئی ہے۔ یعنی کہ اگر ایک شخص تین ٹائم کے کھانے کی بجائے دو ٹائم کھانا کھائے اور مہینے کے آخر میں یہ دعویٰ کرے کہ میں نے پانچ کلو آٹا بچا لیا ہے، یہ میری کامیابی ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ یہ کامیابی ہے یا مفلسی کی علامت۔
یاد رکھیے خوشحالی پیسہ کمانے سے آتی ہے بچانے سے نہیں۔ سوال یہ ہے کہ درآمدات کم ہوتی جا رہی ہیں اور برآمدات بڑھ نہیں رہیں تو ضرورت کی چیزیں کہاں سے حاصل کی جائیں گی۔ برآمدات نہ بڑھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہاکستان میں ایسی فیکٹریاں نہیں لگ رہیں جو پاکستان میں ایکسپورٹ کی صنعت کو بڑھاوا دینے میں مدد گار ثابت ہو سکیں۔
آئی ایم ایف
آج کل پاکستانی معیشیت کا ذکر آئی ایم ایف کے بغیر نامکمل ہے۔ پاکستان نے اکانومی ریسکیو کرنے کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی ڈیل کی تھی، لیکن اس کے ساتھ معاشی اصلاحات کا بھی وعدہ کیا تھا جس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جون 2020 تک ٹیکس ٹارگٹ حاصل نہیں ہو سکے اور جون 2021 تک کے اہداف بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ پچھلے سال جولائی سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے تعلق سرد مہری کا شکار ہیں۔
بتایا جا رہا تھا کہ 2020 میں یہ تعلقات بحال ہو جائیں گے لیکن سال کے اختتام تک بھی معاملات طے نہیں ہو سکے۔ گو کہ چند دن مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شبلی فراز نے مشترکہ پریس کانفرنس میں سب اچھے کی صدا دی تھی لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی مثبت خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
کمپیٹیشن کمپین آف پاکستان
پاکستان میں اشیا کی قیمتوں کو بلاوجہ بڑھنے سے روکنے کے لیے کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نامی ادارہ قائم ہے۔ 2009 میں سیمنٹ انڈسٹری نے اس کے خلاف سٹے لیا۔ اس کے بعد آٹو موبیل، آئل، فارماسوٹیکل، شوگر، کنسٹرکشن اور رئیل سٹیٹ سمیت کئی شعبوں نے بھی سٹے حاصل کر لیا۔ جس کے باعث یہ ادارہ تقریباً 11 سال تک غیر فعال رہا۔
سال 2020 میں اس پر سے سٹے ختم ہو گیا ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس کے فعال ہوتے ہی حکومتی ادارے فعال کردار ادا کریں گے، اشیا کی قیمتیں نیچے آئیں گی اور عوام کو ریلیف حاصل ہو سکے گا، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔