پاکستان میں ان دنوں ٹیکسٹائل صنعت اور پاور لومز معمول سے زیادہ چلنا شروع ہوگئی ہیں جس کی بڑی وجہ کرونا لاک ڈاؤن کے باعث کپڑا اور دھاگہ بنانے والے ممالک کی پیداوار کم ہونا ہے۔
حکومت کی جانب سے بھی اس صنعت کو رعایات دی گئی ہیں جس کے نتیجے میں یہ شعبہ نہ صرف ملکی ضروریات پوری کرنے بلکہ برآمد بھی زیادہ کرنے کے قابل ہوا ہے۔
بیرون ملک سے معمول سے زیادہ آرڈرز کے باعث ایک طرف ٹیکسٹائل ملز نے اپنی پیداوار میں اضافہ کیا ہے تو دوسری جانب فیصل آباد ریجن میں کئی سال سے بند پاور لومز بھی دوبارہ چلنا شروع ہوگئی ہیں۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری مالکان کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے میں یہ ترقی برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، جس سے نہ صرف صنعتی پیدوار بڑھے گی بلکہ ملکی ذرائع مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا اور بےروزگاری بھی کم ہوگی۔
انہوں نے تجویز دی کہ ٹیکسٹائل پالیسی فوری منظور کر کے سنجیدگی سے لاگو کر دی جائے تو اس شعبے میں مزید بہتری آسکتی ہے۔
صنعت کی امداد اور مسائل
پاکستان میں کئی سال پہلے تک ضرورت سے بھی زیادہ کپاس کی پیداوار ہوتی تھی لیکن اس طرف توجہ نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ چند سال میں یہ پیداوار 50 فیصد تک کم ہوئی ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما)کے چیئرمین عادل بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ تین چار ماہ سے پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پیداوار میں سات سے آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں طویل لاک ڈاؤن کے باعث غیر ملکی کمپنیوں اور مقامی فیکٹریوں میں ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے آرڈرز پاکستان کو مل گئے۔
ان کا کہنا تھا صنعت میں بہتری کی ایک اور وجہ موجودہ حکومت ہے جس نے اس کی ترقی کے لیے کئی بہتر اقدامات کیے ہیں جیسے خام مال، مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی، اور ٹیکسوں میں کم،ی بجلی اور گیس کے امدادی ٹیرف دیے جانا۔ اس کے علاوہ برآمدات میں امدادی سہولیات فراہم کی گئی جس سے یہ شعبہ ترقی کی طرف چل پڑا ہے۔
مگر انہوں نے کہا کہ ایسا کہنا کہ حالات ایسے ہی برقرار رہیں گے ابھی قبل ازوقت ہوگا کیونکہ ٹیکسٹائل کی ترقی کے لیے صنعت کاروں نے متفقہ پالیسی بنوائی ہے جو ابھی تک منظور نہیں ہوئی۔ ’حکومت کو چاہیے کہ یہ پالیسی منظور کر کے اس پر فوری عمل درآمد کرایاجائے۔‘
عادل کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے کو اس وقت تک بنیادی سپورٹ حاصل نہیں ہوگی جب تک پہلے کی طرح مقامی سطح پر کپاس کی معیاری پیداوار میں اضافہ نہیں ہوتا، کیونکہ یہاں عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں کپاس کے بیج تیار نہیں کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاٹن ایریاز میں شوگر ملز لگانے کی اجازت دے دی گئی جس سے کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں گنے کی کاشت شروع ہوگئی اور کپاس کی کاشت مسلسل کم ہوتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زرعی ملک پاکستان کو اپنی ضروریات کے لیے بھی کاٹن امریکہ، برازیل، مصر اور دیگر ممالک سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔
عادل نے کہا: ’جب کاٹن دور دراز کے ملکوں سے آئے گی تو اس کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اور عالمی مارکیٹ میں کاٹن زیادہ پیدا کرنے والے ملکوں کے مقابلے میں ہماری پیداواری لاگت زیادہ ہونے سے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور ہم اپنی مصنوعات دوسرے ممالک کے مقابلے مہنگی فروخت نہیں کر پاتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیئرمین ایپٹما کے مطابق جو ٹیکسٹائل پالیسی تیار ہوئی ہے اس میں انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی کم قیمت پر فراہمی، قرضوں اور شرائط میں نرمی، اور درآمدی اور برآمدی اشیا پر خصوصی سہولیات کی مدت پانچ سال یا اس سے زیادہ تک مستقلی کی تجویز دی گئی ہے تاہم یہ پالیسی ابھی تک منظور نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل کارکردگی پر چل رہی ہے اسے بڑھانے کے لیے سرمایاکاری کی ضرورت ہے۔ ’انویسٹرز آرہے ہیں لیکن جب تک مستقل پالیسی واضع نہیں ہوگی تو بڑے سرمایہ کار رسک نہیں لیتے۔‘
ان کے مطابق اگر اب حکومت کو ایمرجنسی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئیندہ چار پانچ سال میں ٹیکسٹائل برآمدات دس فیصد سالانہ بڑھ سکتیں۔
پاور لومز کی پیداوار میں کیسے اضافہ ہوا؟
پاور لومز ریجن فیصل آباد میں بھی پیداوار بڑھ گئی ہے اور جو بند تھی وہ بھی چل پڑی ہیں۔ پاور لومز ایسوسی ایشن کے چیئرمین وحید خالق رامے نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ریجن میں تین لاکھ سے زائد پاور لومز تھیں جن میں بجلی بحران اور برآمدات کم ہونے سے 70ہزار سے زائد پاور لومز بند ہوئیں اور کباڑ میں فروخت کرنا پڑیں۔ لیکن گذشتہ چند ماہ میں آرڈرز زیادہ ملے جس سے نہ صرف پیدوار میں اضافہ ہوا بلکہ نئی پاور لومز لگانا پڑیں جو دوبارہ تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران مقامی اور عالمی مارکیٹ میں کپڑے کی ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی نہیں ہوئی اور اب معمول سے زیادہ ضرورت کے باعث پاکستان کو اتنے آرڈر ملے کہ فرصت نہیں ہے۔
وحید خالق کے مطابق موجودہ حکومت نے ایکسپورٹ میں بہتری کی اور صنعت کے دو سو ارب کے جو قابل واپسی فنڈز تھے وہ واپس کرنا شروع کیے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران بھی بہتر حکمت عملی تھی جس سے کافی سپورٹ ملی جس سے چین اور بنگلہ دیش سے بھی آرڈر مل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ میں دو ارب تیس کروڑ ڈالر کی برآمداد ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کے ٹیرف میں رعایت دی گئی اور اضافی ٹیکس ختم کیے گئے اس کے علاوہ گذشتہ سال کی نسبت اس ماہ سے طےشدہ حد سے زیادہ بجلی خرچ ہونے پر پچاس فیصد فی یونٹ کم کیا جس سے صنعت کو کافی مدد ملی۔
’پہلے مزدور بے روزگار ہوگئے تھے مگر اب ہم تلاش کر رہے ہیں۔ اسی طرح نئی پاور لومز کے آرڈرز دیے جارہے ہیں۔‘
وحید خالق نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ معیاری کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی سے خطرہ موجود ہے کیونکہ چند سال پہلے تک ایک کروڑ چالیس لاکھ بیل پیداوار تھی پھر کم ہوتے ہوتے 90 اور اس سال محض 70لاکھ بیل تک پیداوار آگئی ہے۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ کاٹن اور دھاگے کی دوسرے ممالک سے درآمد بڑھے گی اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، اور ذر مبادلہ میں بھی کمی ہوگی لہذا حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کپاس کی پیداوار کم از کم ڈیڑھ کروڑ بیل تک یقینی بنانا ہوگی۔