بدھ کو کیپیٹل ہل جہاں کانگریس اور سینیٹ سمیت امریکی حکومت کے اہم دفاتر ہیں وہاں صدر ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں جب کیپٹل ہل کو نشانہ بنایا گیا بلکہ اس سے پہلے وہاں پر دس حملے ہو چکے ہیں جن میں سے ایک حملہ تو غیر ملکی فوجیوں کی جانب سے بھی کیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے کیپٹل ہل پر ماضی میں کیے جانے والے حملوں کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
24 اگست 1814
کیپیٹل ہل ابھی زیر تعمیر ہی تھا کہ امریکہ اور انگلینڈ کے درمیان 1812 میں جنگ چھڑ گئی۔ 1814 میں برطانوی فوجیں واشنگٹن ڈی سی میں داخل ہو گئیں اور وائٹ ہاؤس میں داخل ہو کر عمارت کو آگ لگا دی۔
خوش قسمتی سے اس وقت کے امریکی صدر جیمز میڈیسن اور ان کی اہلیہ ڈولی پہلے ہی میری لینڈ میں تھے۔ اسی حملے میں برطانوی فوجیوں نے کیپیٹل ہل کو بھی جلانے کی کوشش کی۔ امریکی سپریم کورٹ کو بھی آگ لگائی گئی۔
حملہ آور فوجوں نے پہلے عمارت میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی اور پھر اس کے جنوبی اور شمالی حصوں کو اگ لگا دی جس میں کانگریس کی لائبریری بھی شامل تھی۔
16 اگست 1841
امریکہ میں شدید مالی بحران کے نتیجے میں صدر جان ٹیلر نے کانگریس سے کہا کہ وہ امریکہ کے سرکاری بینک کے قیام کے لیے قانون سازی کریں جس کے خلاف نجی بینکوں کے ملازمین نے کیپٹل ہل کے سامنے جمع ہو کر پتھراؤ کیا، فائرنگ ہوئی اور صدر کے پتلے نظر آتش کیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ڈی سی کی الگ پولیس قائم کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1856 سینیٹر چارلز شومر پر وحشیانہ حملہ
کیپیٹل ہل پر ایک حملہ ایسا بھی ہے جس میں اس کا اپنا ایک رکن کانگریس ملوث تھا۔ 1856 میں جب امریکہ میں غلامی کے مستقبل پر بحث چھڑی ہوئی تھی جو خانہ جنگی پر منتج ہوئی۔ جنوبی کیرولائنا کے رکن کانگریس پریسٹن بروکس نے سینیٹر چارلز شومر پر اس وقت چھڑی سے حملہ کر دیا جب وہ غلامی کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ اس کے بعد بروکس نے استعفیٰ دے دیا مگر وہ دوبارہ منتخب ہو گئے۔
2 جولائی 1915
امریکی جب یوم آزادی کی تیاریوں میں مصروف تھے تو ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر ایرک مونٹر نے بارود سے بھری ہوئی تین لاٹھیاں ایک بکسے میں بند کیں اور کسی طرح کیپیٹل ہل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے خود کو سینیٹ کے چیمبر میں لاک کر لیا اور بم دھماکے کر ڈالے جس سے چیمبر کو نقصان ہوا۔
حملہ آور نے بعد میں کہا کہ انہیں پہلی جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے برطانیہ کی حمایت کرنے اور اسے اسلحہ دینے پر رنج تھا کیونکہ پہلے امریکہ نے خود کو جنگ میں غیر جانبدار رکھنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ چونکہ دھماکے کے وقت سینیٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر اس سے عمارت میں لگا فانوس تباہ ہو گیا اور کمرے کی چھت کو جزوی نقصان ہوا، کئی کمروں کے دروازے ٹوٹ گئے جن میں امریکہ کے نائب صدر کا کمرہ بھی شامل تھا۔
یکم مارچ 1954، پورٹو ریکن قوم پرستوں کا حملہ
جب امریکہ نے پورٹو ریکو کو مدغم کرنے کی کوشش کی تو اس کے جواب میں وہاں پر اور نیو یارک شہر میں حملے ہوئے۔ 1950 میں ان قوم پرستوں نے صدر ہیری ٹرومن پر حملے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔
1952 میں اگرچہ پورٹو ریکن شہریوں کی اکثریت نے دولت مشترکہ کا حصہ بننے کی حمایت میں ووٹ ڈالا مگر کچھ قوم پرست اس کے مخالف تھے اور انہوں نے یکم مارچ 1954 کو کیپیٹل ہل پر اس وقت حملہ کر دیا جب امریکہ کے ایوان نمائندگان میں میکسیکو کے مہاجروں کے حوالے سے ایک بل پر بحث ہو رہی تھی۔ اس حملے میں کانگریس کے پانچ اراکین گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔
حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں 50 سے 75 سال تک کی سزائیں دی گئیں۔ بعد میں چار امریکی شہریوں کو کیوبا میں اغوا کر لیا گیا جن کے بدلے میں امریکہ صدر جمی کارٹر نے انہیں رہا کر دیا۔
کانسل مرانڈا جو کہ ان قیدیوں میں بچ جانے والے آخری حملہ آور تھے، وہ مارچ 2020 میں فوت ہوئے اور آخری دم تک پورٹو ریکو کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
یکم مارچ 1971 کے حملے
ویت نام کی جنگ کی مخالفت میں امریکہ میں کئی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے ایک سینیٹ چیمبر کے ایک واش روم میں ہونے والا بم دھماکہ بھی تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے قبول کی جن کا کہنا تھا کہ وہ جنوبی مشرقی ایشیا بالخصوص لاؤس میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔
اس حملے کے بعد کیپیٹل ہل میں داخلے کے ضوابط سخت کر کے ویڈیو کیمرے اور ایکسرے مشینیں نصب کی گئیں۔
7 نومبر 1983 کے حملے
1971 کی طرح ایک بار پھر 7 نومبر 1983 کو بھی سینیٹ کے باہر بم نصب کیا گیا جس میں کوئی ہلاکت تو نہیں ہوئی لیکن ایک دیوار گر گئی اور اس پر لگی پانچ پینٹنگز کو نقصان ہوا اور سینیٹ کے قائد ایوان رابرٹ بائرڈ کے دفتر کے دروازے کو نقصان پہنچا۔
اس کی ذمہ داری مسلح مزاہمتی گروپ نے قبول کی جو لبنان اور گرینیڈا میں امریکہ کی فوجی مداخلت کے خلاف تھا۔ اس گروپ میں سات لوگ تھے جن کی شناخت مارکسسٹ اور کمیونسٹ کے طور پر ہوئی جنہیں 1985 میں واشنگٹن اور امریکہ کی فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
ان حملوں کے بعد عام سیاحوں کے لیے کیپیٹل ہل کو بند کر دیا گیا تاوقتیکہ وہاں اضافی سیکورٹی کا بندوبست نہیں ہو گیا۔
1998 میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ
مسلح افراد نے کیپٹل ہل کی سکیورٹی چیک پوسٹ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں دو سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔
11 ستمبر 2001
ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے دو جہاز ٹکرانے اور پینٹاگان پر حملے کے بعد جو چوتھا جہاز ہائی جیکروں کے قبضے میں تھا اس کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن کا کہنا تھا کہ پنسلوینیا میں گر کر تباہ ہونے والے اس جہاز کو کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے لایا جا رہا تھا۔
2016 میں خود کو پیغمبر ظاہر کرنے والے کا حملہ
مارچ 2016 میں ایک شخص نے کیپیٹل ہل کے وزیٹر سینٹر میں داخلے کے وقت پولیس آفسر پر ایک چھوٹی گن تان لی جس پر پولیس نے اسے گولی مار کر زخمی کر دیا۔ حملہ آور کی شناخت ریاست ٹینسی کے ایک 66 سالہ لیری رسل ڈاؤسن کے نام سے ہوئی۔
اس حملے کے عزائم واضح نہیں تھے تاہم حملہ آور کو اس سے پہلے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب اس نے کانگریس میں اعلان کیا کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے۔