دریائے سواں، دریائے کورنگ اور نالہ لئی، جی ٹی روڈ پر جس جگہ آ کر ملتے ہیں اسے سواں پل کہا جاتا ہے۔ مارگلہ ہلز سے بہہ کر آنے والے کئی چھوٹے نالے جب ایک ہی نالے کی شکل اختیار کر کے راولپنڈی شہر کے بیچوں بیچ گزرتے ہیں تو نالہ لئی کہلاتے ہیں۔ جبکہ دریائے سواں اور کورنگ دونوں مری کی پہاڑیوں سے نکلتے ہیں۔
نالہ لئی اور یہ دونوں دریا جس جگہ آ کر ملتے ہیں وہاں پہاڑی کے اوپر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ واقع ہے۔ جی ٹی روڈ سے ہائی کورٹ روڈ کی طرف مڑتے ہی ایک پگڈنڈی دریا کی طرف مڑتی ہے۔ یہاں چند کچے گھر ہیں جن میں ایک ہی خاندان کے افراد رہائش پذیر ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ خاندان طویل عرصے تک ان غاروں میں رہتا رہا ہے جو انسان کے ابا و اجداد کا مسکن تھیں۔
ان گھروں کے بالکل عقب میں وہ قدیم غار واقع ہیں جہاں ماہرین آثار قدیمہ کو 22 لاکھ سال پہلے کے انسان نما جانور ہومو اریکٹس کے بنائے ہوئے پتھر کے اوزار ملے تھے۔
جن غاروں سے یہ دریافتیں ہوئی تھیں وہ کدھر ہیں؟ آج دریائے سواں میں آپ کو پھروالہ سے چکری تک کوئی ایسا غار نظر نہیں آتا۔
راولپنڈی کے ایک بزرگ راجہ لطیف جن کو آثار قدیمہ سے خصوصی دلچسپی ہے انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ یہ پانچ غار دریائے سواں کے پل سے پہلے موجود ہیں۔ انہوں نے جوانی میں یہ غار دیکھ رکھے تھے۔ ان کی بتائی ہوئی جگہ پر جب میں پہنچا تو وہاں چند کچے مکان تھے جہاں مویشی بندھے ہوئے تھے، جبکہ غاروں کا بظاہر کوئی نشان نظر نہیں آتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب گھر کے کتوں نے پیچھا کیا تو ایک بزرگ گھر سے نمو دار ہوئے۔ ان سے علیک سلیک ہوئی اور غاروں کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد طویل عرصے تک وہی ان غاروں کے باسی تھے۔ ان کا نام منور شاہ ہے۔ انہیں اپنی عمر تو معلوم نہیں لیکن اتنا بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے دو سال بعد وہ مظفر آباد سے یہاں اپنے پھوپھا کے پاس آئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر دس بارہ سال تھی۔ ان کے پھوپھا ایک ملنگ صفت انسان تھے، جو اپنی بیگم کے ساتھ ان غاروں میں رہتے تھے۔
منور شاہ نے بتایا کہ جب وہ تھوڑے بڑے ہوئے تو دریائے سواں سے بجری نکالنے اور ریت چھاننے کا کام شروع کر دیا۔ ’میری شادی بھی انہیں غاروں میں ہوئی اور پھر آٹھ بچے بھی یہیں پیدا ہوئے۔ تین غاروں میں جو سب سے بڑا غار تھا وہاں پانچ چارپائیاں آسانی سے آ جاتی تھیں۔ کچن اور گھر کا ضروری سامان رکھنے کی جگہ بھی موجود تھی۔ جبکہ دریا کا پانی اس قدر شفاف تھا کہ وہ یہی پانی پیتے بھی تھے۔ لوگ یہاں سیر کو آتے تھے اور دریا میں نہاتے تھے۔ گرمیوں میں دریا میں نہاتے ہوئے میری ایک جوان بیٹی بھی ڈوب کر مر گئی تھی۔ ‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں یہاں کوئی قدیم اوزار وغیرہ ملے تو انہوں نے کہا کہ مجھے پتھر کے اوزاروں کی پہچان تو نہیں لیکن یہاں انگریز آتے رہے کئی کئی روز وہ دریا میں کچھ تلاش کرتے رہتے۔ غاروں میں چونکہ آگ جلائی جاتی تھی اس لیے یہ اندر سے سیاہ تھے لیکن ان کی خوبی یہ تھی کہ یہ گرمی اور سردی دونوں سے بچاتے تھے۔
دریائے سندھ اور دریائے برہم پتر کے درمیان کا علاقہ جس کی لمبائی 2400 کلومیٹر ہے یہ ہمالیہ کا سب سے نچلا حصہ ہے جہاں سے پہاڑوں کا پانی میدانی علاقوں کی طرف سفر کا آغاز کرتا ہے۔ اس کی چوڑائی 10 سے 50 کلومیٹر اور سطح سمندر سے بلندی 1500 سے 6000 فٹ تک ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ اس پورے علاقے کو سوانین کلچر سے موسوم کرتے ہیں جو کہ دریائے سواں کی نسبت سے ہے۔ پتھر کے دور کا انسان جو اوزار استعمال کرتا تھا وہ دریائے سواں میں روات سے مورگاہ کے درمیان 1928 میں دریافت ہوئے تھے، جس کا سہرا ڈاکٹر ڈی این واڈیا اور ڈاکٹر ہلمٹ ڈی ٹیرا کے سر جاتا ہے۔
بعد ازاں یہاں 1935 میں مزید کھدائیاں کی گئیں اور پتھرکے بنے ہوئے ہوئے دستے، کلہاڑے اور چاقو ملے۔ اوزاروں کی یہ دریافت اتنی بڑی تعداد میں تھی کہ اسے سواں انڈسٹری کا نام دے دیا گیا۔ یہ اوزار پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ غار کب گرائے گئے؟ ان کی تاریخ تو منور شاہ کو معلوم نہیں لیکن وہ بتاتے ہیں کہ یہ جگہ ایک مقامی خاندان کی ملکیت ہے جنہوں نے انہیں یہاں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ’ بیس تیس سال پہلے ایک روز بڑے چوہدری صاحب جو اب فوت ہو چکے ہیں وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ تم یہاں نیچے اپنا مکان بنا لو ہم ان غاروں کو بارود لگا کر گرانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی بجری بنائی جا سکے۔ چنانچہ میری اجازت کے بعد غاروں کو بارود سے گرا دیا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ غار گرائے جانے کے بعد ان کی بجری کیوں نہیں بنائی گئی کیونکہ غاروں کی چھت تو ابھی تک وہیں زمین بوس پڑی ہے تو منور شاہ کا کہنا تھا کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ چوہدریوں نے غاروں کو کیوں گرایا تھا۔‘
بڑا غار جب گرایا گیا تھا تو منور شاہ کچھ عرصہ دو چھوٹے غاروں میں بھی رہے اور اس کے بعد انہوں نے مکان بنا لیا۔ چھوٹے غار بھی اب گرائے جا چکے ہیں اور جو باقی بچ گئے ہیں ان کے منہ بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر غنی الرحمٰن ٹیکسلا انسٹی ٹیوٹ آف ایشئین سولائزیشن قائداعظم یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ روات سے مورگاہ تک دریائے سواں کے علاقے سے عالمی ماہرین نے 22 لاکھ سال پہلے کے انسان کے زیر استعمال پتھر کے اوزار دریافت کیے جس کی وجہ سے سواں کے کنارے غاروں کے بارے میں یہ قیاس بھی کیا جاتا رہا ہے کہ یہ ہزاروں لاکھوں سال پہلے کے انسان کا مسکن ہو سکتے ہیں۔
ان غاروں کے بارے میں پاکستانی اور عالمی ماہرین دونوں نے لکھا کہ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جب کسی سائٹ کی اہمیت ڈکلیئر ہو جائے تو آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ اسے محفوظ بنائے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے جس کی وجہ سے قبل از تاریخ کی سائٹس اور گندھارا کا ورثہ ضائع ہو رہا ہے۔
سینٹر فار کلچر اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ کا کہنا ہے کہ عالمی ورثے کی اہمیت کے یہ غار 1990 تک موجود تھے اور کئی عالمی ماہرین نے نہ صرف یہاں کا دورہ کیا بلکہ ان کے حوالے سے تحقیقی مقالے اور کتابیں بھی لکھیں۔
ان میں سے ایک روگن جنکنسن بھی ہیں جو غاروں کی آرکیالوجی کے ماہر ہیں۔ انہوں نے یہاں دریائے سواں سے پرانے ہاتھی کی ایک قسم کا جبڑا دریافت کیا تھا۔ وہ جب پاکستان آئے تھے تو وہ ان غاروں کا دورہ بھی کرنا چاہتے تھے مگر انہیں جگہ کی حساسیت کی وجہ سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ جی ٹی روڈ کے ساتھ واقع اس جگہ کی حساسیت اہم ہے یا ان کی تاریخی اہمیت زیادہ اہم ہے۔ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ قبل از تاریخ کے ان آثار کو مٹا دیا گیا ہے اور حکومت سمیت میڈیا کے کسی ادارے نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان بچے کھچے غاروں کا تحفظ کرے۔
نیشنل میوزیم کراچی کے سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور لون نے بتایا کہ بدقسمتی سے قبل از تاریخ کے آثار پر کام پاکستان بننے کے بعد زیادہ نہیں ہوا اور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی زیادہ توجہ گندھارا پر ہی رہی ہے۔ آٹھارویں ترمیم کے بعد اب صوبے اپنے اپنے ورثے کے خود ضامن ہیں تاہم تاریخی اہمیت کے آثار کی حفاظت کے لیے انٹیکویٹیز ایکٹ 1975 ہی لاگو ہوتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سائٹ کو پہلے ورثہ ڈکلیئر کیا جائے۔ اب تک پورے پاکستان میں 405 سائیٹس کو قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ غار ورثہ ڈکلیئر نہیں کیے گئے کیونکہ پتھر دور کے ہتھیار غاروں سے نیچے سواں کی تہہ سے ملے تھے۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی تب بھی ان غاروں کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
یہ جگہ جس مقامی خاندان کی ملکیت ہے اسےاندازہ ہو گیا تھا کہ ان غاروں کو دیکھنے انگریز آ رہے ہیں شاید حکومت یہ جگہ ان سے لے لے اس لیے انہوں نے ان غاروں کو گرا کر ہزاروں لاکھوں سال کی تاریخ بھی زمین بوس کر دی۔ لیکن اس انفرادی عمل سے زیادہ افسوسناک ہماری حکومتی بے حسی بھی ہے کہ جب ان غاروں کو گرایا گیا تو محکمہ آثار قدیمہ سمیت حکومت کے کسی ذمہ دار ادارے نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پتھر کے دور سے آج تک کتنے لاکھ سال ہو چکے اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے لیکن ان غاروں کی تاریخی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔
یہ غار تو لاکھوں سال مختلف موسموں سے لڑتے لڑتے گزار آئے مگر لالچ کی وہ آندھی جو جدید انسان کا ہی خاصا ہے اس کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ کسی روز یہاں کئی منزلہ اونچا پلازہ کھڑا ہو گا جس کی بالکونیاں دریا کے رخ پر کھلیں گی اور ورثے کی جانب بند ہوں گی۔