(حیدر آباد، دکن) کنگ کوٹھی پیلس وہ شاہی محل ہے جس میں مملکت آصفیہ کے آخری فرمانروا نواب میر عثمان علی خان معروف بہ نظام حیدر آباد کئی دہائیوں تک سکونت پذیر رہے۔ 20ویں صدی میں حیدر آباد کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شمار کیا جانے والا یہ محل آج ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے۔
میر عثمان علی خان آج ہی کے دن یعنی چھ اپریل 1886 کو حیدر آباد کے پرانے شہر کی پرانی حویلی میں پیدا ہوئے۔ 1914 میں کنگ کوٹھی پیلس منتقل ہوئے اور یہیں پر نہ صرف اپنا دور حکمرانی گزارا بلکہ زندگی کے آخری لمحات بھی۔
آج نظام حیدرآباد کا 135 واں یوم پیدائش ہے، لیکن اس اہم موقعے پر بھی کنگ کوٹھی پیلس کے باب الداخلہ سمیت تمام داخلی اور خارجی دروازے مقفل ہیں۔ اگر کچھ معمول کے مطابق ہے تو وہ اس پیلس کے آگے پیچھے سے گزرنے والی سڑکوں پر تیز بھاگتی موٹر گاڑیوں کا شور۔
کنگ کوٹھی پیلس سے محض دو منٹ کی دوری پر مسجد جودی واقع ہے۔ میر عثمان علی خان نے یہ مسجد 1936 میں اپنے بیٹے شہزادہ جواد جاہ کی یاد میں تعمیر کروائی تھی جن کا کم سنی میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔
نظام حیدرآباد کا جب 81 سال کی عمر میں 24 فروری 1967 کو انتقال ہوا تو انہیں اپنی خواہش اور وصیت کے مطابق اسی مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ اس احاطے میں ان کے کچھ دیگر افراد خانہ بالخصوص والدہ زہرہ بیگم بھی مدفون ہیں۔
میر عثمان علی خان کے یوم پیدائش کے موقعے پر مسجد جودی میں بھی کوئی خاص چہل پہل نہیں ہے سوائے اس کے نظام خاندان کے حیدرآباد میں مقیم اراکین و اقارب اور غیر سرکاری تنظیموں سے وابستہ افراد چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں آ کر ان کی قبر پر پھول چڑھا رہے ہیں، فاتحہ پڑھ رہے ہیں اور چلے جا رہے ہیں۔
1911 سے 1948 (بھارت کے حیدر آباد پر قبضے) یعنی 37 سال تک حیدر آباد دکن پر حکومت کرنے والے میر عثمان علی خان کوئی عام سے نواب یا شہنشاہ نہیں گزرے ہیں بلکہ وہ اپنے دور میں دنیا کے امیر ترین شخص، فلن تھیراپسٹ اور رعایا پرور حکمران تھے۔
میر عثمان علی خان جدید حیدرآباد کے اولین معمار مانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے دور میں تعمیر کردہ سرکاری یا عوامی استعمال کی عمارتوں کو آج بھی نمایاں اور کلیدی حیثیت حاصل ہے چاہے وہ ہائی کورٹ ہو، اسمبلی کمپلیکس ہو، عثمانیہ ہسپتال ہو، آصفیہ لائبریری ہو یا آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی۔
نظام حیدرآباد اپنے فلن تھراپک یا رفاہی کاموں کی وجہ سے نہ صرف اپنی مملکت یا بھارت اور پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مشہور تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1939 میں انہوں نے مسجد نبوی (مدینہ) میں روشنی کے لیے پاور پلانٹ نصب کرایا، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران مالی بدحالی کا شکار ہونے والے انگلستان کی مالی مدد کی اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو 10 کروڑ روپے بطور قرض مانگنے پر 20 کروڑ روپے دے دیے۔
ایک زمانے میں نظام حیدرآباد کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ 24 فروری 1967 میں انتقال کر گئے تو ان کے جلوس جنازہ میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ لیکن آج میر عثمان علی کو ان کے یوم پیدائش پر یاد کرنے کے لیے حیدرآباد دکن میں سرکاری سطح پر کوئی تقریب ہوتی ہے نہ روایتی پریڈ۔
حیدرآبادی مورخ سجاد شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جہاں موجودہ حکومتیں میر عثمان علی خان جیسی شخصیات کا نام و نشان مٹانے پر تلی ہوئی ہیں وہیں مقامی نوجوان بھی اپنے شہر کی تاریخ کے بارے میں جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔
’میر عثمان علی خان کے دور میں ان کا جنم دن بڑے پیمانے پر منایا جاتا تھا۔ پریڈ کی تقریب منعقد ہوتی تھی نیز سرکاری تعطیل ہوتی تھی۔ وہ سب اب ماضی کا قصہ ہے۔‘
مسجد نبوی میں روشنی کا انتظام
1939 میں میر عثمان علی خان نے سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی میں روشنی کے لیے پاور پلانٹ نصب کرایا۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے نظام نے حیدرآباد پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینیئر نواب احسان یار جنگ کو مدینہ منورہ میں تعینات کیا تھا۔
تاہم حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے مورخین کا کہنا ہے کہ نظام نے نہ صرف مدینہ منورہ بلکہ مکہ معظمہ میں بھی مقدس مقامات کی روشنی کے لیے پاور پلانٹ نصب کرائے تھے۔
حیدرآباد دکن کی تاریخ و ثقافتی ورثے میں دلچسپی رکھنے والے کویت میں مقیم معالج ڈاکٹر محمد نجیب شاہ زور نے حیدر آبادی ویب پورٹل ’سیاست ڈاٹ کام‘ میں ایک بلاگ لکھا ہے جس میں انہوں نے وہ سرکاری خطوط بھی شامل کیے ہیں جن کا تبادلہ 1936 سے 1938 تک حیدرآباد دکن اور سعودی عرب کی حکومتوں کے درمیان ہوا تھا۔
انہوں نے لکھا ہے: ’1936 میں سلور جوبلی کے موقع پر نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان نے مسجد نبوی میں اپنے خرچے سے ایک نیا الیکٹرک پلانٹ اور لائٹس نصب کرانے کی تجویز پیش کی۔ پرانا الیکٹرک پلانٹ جس کو عثمانی حکمرانوں نے نصب کرایا تھا بظاہر خراب ہو چکا تھا۔
’نظام نے پروجیکٹ کی نگرانی اور انجام دہی کے لیے حیدرآباد پبلک ورکز ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینئر نواب احسان یار جنگ کو مدینہ بھیجنے کی تجویز پیش کی۔‘
ڈاکٹر محمد نجیب شاہ زور نے لکھا ہے کہ سعودی حکومت کی منظوری کے بعد نظام نے 1939 میں نہ صرف مسجد نبوی میں پاور پلانٹ اور لائٹس نصب کرائیں بلکہ مکہ معظمہ میں ’جنت المعلیٰ‘ نامی قبرستان کی دیوار اور دروازوں کی مرمت بھی کرائی۔
حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے مصنف و محقق علیم خان فلکی کا ایک مضمون ’زوال حیدرآباد کی کہانی‘ کے عنوان سے ویب پورٹل ’تعمیر نیوز ڈاٹ کام‘ میں شائع ہوا ہے۔
اس میں وہ لکھتے ہیں: ’مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاست حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لئے مدینہ بلڈنگ کے نام سے شان دار عمارتیں جو کہ آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لئے وقف تھیں جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوا دی تھیں۔‘
حیدرآباد دکن کے ممتاز مورخ اور مصنف علامہ اعجاز فرخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ نظام کے دور میں سعودی عرب کی مالی مدد کی جاتی تھی۔
’یہ 20ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بات ہے۔ سعودی عرب کے معاشی حالات بہت خراب تھے۔ حیدرآباد نہ صرف سعودی عرب کی مالی مدد کرتا تھا بلکہ یہاں سے اناج بھی جاتا تھا۔‘
علامہ اعجاز فرخ نے بتایا کہ میر عثمان علی خان اور ان کے خاندان نے عازمین حج کے لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رباطیں تعمیر کرائی تھیں نیز حیدر آباد میں مدینہ بلڈنگ تعمیر کرائی جس کا کرایہ 1960 کی دہائی تک مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی ترقی اور رکھ رکھائو کے لیے سعودی عرب جاتا رہا۔
’سعودی حکومت نے 1970 کی دہائی میں چاہا کہ رباطوں کی تعمیر پر خرچ ہونے والے پیسے نظام کو واپس کیے جائیں لیکن مسئلہ یہ درپیش آیا کہ یہ پیسے کس کو دیں۔ اس کی وجہ سے یہ معاملہ التوا میں پڑ گیا۔‘
مورخ سجاد شاہد کے مطابق مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں توسیعی منصوبے پر عمل درآمد کے دوران نظام کی تعمیر کردہ رباطیں منہدم کی گئیں اور ان کے بدلے متبادل جگہوں پر نئی رباطیں تعمیر کی گئیں۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ حیدرآباد دکن ہی تھا جس نے 1946 میں جدہ کے لیے حج پروازیں متعارف کرائیں۔
1946 میں جب دکن ایئرویز کے دو ڈکوٹا ایئرکرافٹ حیدرآباد کے بیگم پیٹ ایئرپورٹ سے جدہ کے لیے روانہ ہوئے تو شہر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہ تاریخی لمحہ دیکھنے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے۔‘
پاکستان کو قرض دینے پر بھارت کا ہنگامہ
سابق ریاست حیدرآباد کے شہر اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے مصنف و مورخ ایم اے عزیز (انجینیئر) اپنی کتاب ’پولیس ایکشن‘ میں لکھتے ہیں کہ مملکت حیدرآباد کے فرمانروا میر عثمان علی خان نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے اگست 1947 کو اعلان کر دیا کہ ’جس طرح بھارت اور پاکستان آزاد و خودمختار مملکتیں ہیں اسی طرح حیدرآباد بھی ایک آزاد اور خودمختار مملکت ہے جو کسی بھی ڈومنین میں شرکت نہیں کرے گا۔‘
تاہم لائق علی (اس وقت کے صدر اعظم حیدرآباد) نے اپنی کتاب ’دا ٹریجڈی آف حیدرآباد‘ میں لکھا ہے کہ برطانوی حکومت کے وعدوں اور قانون آزادی ہند کو دلیل بنا کر نظام نے 11 جون 1947 کو ہی حیدرآباد کی کامل آزادی کا فرمان جاری کیا۔
’فرمان میں یہ خیال موجود تھا کہ حیدرآباد کی پاکستان میں شرکت ہندوؤں کے لیے اور بھارت میں شرکت مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہو گی۔ حیدرآباد اس لحاظ سے آزاد رہ کر دونوں ملکوں سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے گا۔‘
26 نومبر 1947 کو بھارت اور حیدرآباد کے درمیان ایک سال کے لیے مشروط سٹینڈ سٹل اگریمنٹ یا معاہدہ انتظام جاریہ طے پایا جو 29 نومبر کو نظام حیدرآباد کے دستخط کے ساتھ نافذ العمل ہو گیا۔
بھارتی اخبار ’دا ہندو‘ نے اس معاہدے کے متعلق لکھا تھا: ’یہ معاہدہ ایک سال کے لیے ہے جو 28 نومبر 1948 تک جاری رہے گا اور اس دوران میں ایک طویل المعیاد معاہدہ کے لیے آئندہ گفت و شنید ہوتی رہے گی۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ معاہدہ اس نوعیت کا نہیں ہے جو کہ انڈین یونین نے دیگر ریاستوں سے طے کیا ہے۔‘
مالی مشکلات سے دوچار نوزائیدہ مملکتِ پاکستان نے ریاست حیدر آباد سے 10 کروڑ روپے قرض مانگا تو نظام دکن نے 20 کروڑ روپے دے دیے۔
مورخین کا ماننا ہے کہ اگر بھارت کی فوج کشمیر میں مصروف نہ ہوتی تو انڈین یونین حیدر آباد کے ساتھ معاہدہ انتظام جاریہ کرنے اور ایک سال تک انتظار کرنے کی بجائے اس پر فوراً فوج کی چڑھائی کر دیتا۔
مورخ علامہ اعجاز فرخ کے مطابق میر عثمان علی خان اس وجہ سے آزاد رہنا چاہتے تھے کیونکہ حیدرآباد ایک خودمختار اور ترقی یافتہ ریاست تھی جس میں وہ سب سہولتیں موجود تھیں جو اس وقت کے لندن میں موجود تھیں۔
'جو ریاست اتنی خودمختار اور ترقی یافتہ ہو اس کی علیحدگی بھارت کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ سردار پٹیل کا جملہ تھا کہ ’اگر حیدرآباد کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ بھارت کے پیٹ میں کینسر ہے۔‘
میر عثمان علی خان نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان کو 10 کروڑ روپے بطور قرض مانگنے پر 20 کروڑ روپے دے دیے جس کو بھارت نے ’معاہدہ انتظام جاریہ‘ کی خلاف ورزی قرار دے کر ہنگامہ کھڑا کیا۔
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے مصنف و بیوروکریٹ سید حسین اپنی کتاب ’زوال حیدرآباد‘ میں رقمطراز ہیں: ’تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو 50 کروڑ روپے دینا طے پایا تاکہ نئی حکومت کو کاروبار چلانے میں دشواری نہ آئے۔ لیکن اس کی ادائیگی حکومت ہند نے روک دی تاکہ روز اول سے ہی پاکستان کو مالی بحران میں مبتلا رکھا جائے۔ عملہ کی تنخواہوں کا وقت قریب تھا اور پاکستان مالی پریشانیوں میں مبتلا تھا۔
’غلام محمد، جو اس وقت پاکستان کے وزیر خزانہ تھے حیدرآباد آئے اور درخواست کی کہ 10 کروڑ کے تمسکات بطور قرض دیے جائیں تاکہ تنخواہوں کی ادائیگی ہو سکے۔ نظام نے لائق علی سے مشورہ کیا تو لائق علی نے تمسکات دینے کی تائید کی۔ نظام نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے 10 کروڑ کے بجائے 20 کروڑ کے تمسکات پاکستان کے حوالے اس نقطہ نظر سے کیے کہ نئی اسلامی مملکت کو ممکن ہو مزید مالی ضرورت پڑے گی۔‘
مشتاق احمد خان اپنی آپ بیتی ’کاروان حیات‘ میں لکھتے ہیں: ’آزادی کی قدر و قیمت کا اندازہ نظام کے اس فعل سے بھی خوب ہوتا ہے کہ حیدرآباد کے شدید بحران کے دور میں بھی انہیں پاکستان کے قیام اور اس کی آزادی کی بقا سے کس حد تک دلچسپی تھی کہ انہوں نے اس کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد 20 کروڑ روپے کی ہنڈیاں پاکستان منتقل کر دیں اور پھر مزید یہ کہ وہ اپنی ریاست کی املاک ایک مرحلہ پر پاکستان منتقل کرنے کے لیے رضا مند ہو گئے تھے، لیکن انہیں اس کی مہلت نہ مل سکی۔‘
لائق علی نے ’دا ٹریجڈی آف حیدرآباد‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے 29 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی سے ملاقات کی جس دوران آخر الذکر نے پاکستان کو دیے گئے 20 کروڑ روپے کے قرض پر اعتراض کیا۔
’تفصیلی گفتگو کے بعد ہم دونوں مطمئن ہوئے۔ گاندھی جی نے کہا کہ کل پھر ملاقات ہوگی اور کوئی نہ کوئی بات طے پائے گی۔ میں بڑا مطمئن ہوا کہ معاملہ جب گاندھی جی اپنے ہاتھ میں لیے ہیں تو حل ہو جائے گا۔ کل یعنی 30 جنوری جس دن میں گاندھی جی سے گفتگو کرنے والا تھا گاندھی جی کو گولی مار دی گئی۔‘
تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہاتما گاندھی نے بھارت کی طرف سے پاکستان کے حصے کے روپے روک لینے پر ناراضگی ظاہر کی تھی اور اس بات پر ’برت‘ بھی رکھا تھا۔
لائق علی آگے لکھتے ہیں: ’فروری 1948 کے آخری ہفتے میں، میں اور سر والٹر مانکٹن (نظام کے دستوری و قانونی مشیر) دہلی گئے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن سے ملنے گئے اسی دوران وی پی مینن (سردار پٹیل کے سیکرٹری) مجھ سے ملنے آئے اور غیر ضروری باتیں کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ مقصد کی بات کیجئے تو کہنے لگے کہ پاکستان کو 20 کروڑ روپے کا قرضہ تمام معاملات میں مخل ہو رہا ہے۔‘
لائق علی نے لکھا ہے کہ دو مارچ 1948 کو حیدرآباد کا ایک وفد جو مجھ سمیت نواب معین نواز جنگ (نظام کے وزیر خزانہ و خارجہ) اور سر والٹر مانکٹن پر مشتمل تھا، مائونٹ بیٹن سے ملا تو وہ معین نواز جنگ پر پاکستان کو 20 کروڑ قرضے کی فراہمی کے سلسلے میں بڑے بگڑے اور کہا کہ اگر معاہدہ انتظام جاریہ کے قبل ہی معاملہ ہوا تھا تو معاہدے کے وقت صاف کر دینا تھا۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔
’میں نے ان سے کہا کہ اگر صرف اسی وجہ سے معاہدہ طے نہیں پا رہا ہے تو میں خود پاکستان جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ 20 کروڑ روپے کے تمسکات جو بطور قرض پاکستان کو دیے گئے تھے وہ معاہدہ انتظام جاریہ کی مدت تک بھنائے نہ جائیں۔
’میں نے فوراً پاکستان سے رابطہ پیدا کیا۔ تین مارچ 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا وقت لیا۔ قائد اعظم سے تین مارچ کو تفصیلی گفتگو کی اور انہوں نے باوجود سخت مالی مشکلات کے تمسکات کو مدت معاہدہ انتظام جاریہ کے ختم ہونے تک نہ بھنانے کا فیصلہ کیا۔ چار مارچ کو پاکستان سے واپسی کے ساتھ ہی میں حیدرآبادی وفد کے ہمراہ مائونٹ بیٹن سے ملا اور انہیں تمسکات نہ بھنانے کی خبر دی۔‘
ایم اے عزیز (انجینیئر) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب بھارت کے ساتھ طویل المعیاد، مستحکم اور مستقل معاہدہ طے پانے کی امیدیں اس (بھارت) کی حرکتوں کی وجہ سے دم توڑنے لگیں تو نظام نے اپنا ایک وفد نواب معین نواز جنگ کی قیادت میں اقوام متحدہ روانہ کیا جس کا اجلاس اس وقت پیرس میں ہو رہا تھا۔
’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حیدرآباد کا مقدمہ بحث کے لیے قبول کر لیا گیا تھا۔ بحث کی تاریخ ستمبر 1948 کے دوسرے ہفتے میں طے تھی۔ بھارت بہرصورت سلامتی کونسل کی بحث سے بچنا چاہتا تھا۔ اس لیے کسی سازش کے تحت مقررہ تاریخ کو التوا میں ڈالا گیا اور بحث آئندہ کسی اور تاریخ تک ٹال دی گئی۔
'ادھر 11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح کا کراچی میں انتقال ہو گیا۔ حیدرآباد پر فوج کشی کے لیے حکومت ہند کو اس سے بہتر اور کوئی موقعہ نظر نہیں آیا۔ 13 ستمبر 1948 کی علی الصبح بھارتی فوج نے جنگ کا بگل بجا دیا اور ریاست کی سرحد کو کوئی پچیس تیس جگہ سے عبور کرنا شروع کر دیا۔‘
علامہ اعجاز فرخ کے مطابق پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران نظام حیدرآباد نے انگلستان کی بھرپور مالی مدد کی جس پر انہیں 'ہز ایکزالٹڈ ہائی نس' کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔
علیم خان فلکی اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں: ’لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔‘
نظام حیدرآباد: دور حکمرانی اور کارنامے
- میر عثمان علی خان نے 1911 میں 25 سال کی عمر میں آصف جاہی مملکت کی کمان سنبھالی اور رعایا پروری، دور اندیشی اور فیاضی کے کارہائے نمایاں سے اپنا لوہا منوایا۔ نظام کے مخالفین بھی ان کی رعایاپروری، کردار اور رواداری کے قائل تھے۔
- 1937 میں ٹائم میگزین نے میر عثمان علی خان کو اپنے وقت کا امیر ترین شخص قرار دیا اور ان کی تصویر سرورق پر شائع کی۔ تاہم دنیا کے امیر ترین شخص ہونے کے باوجود نظام حیدرآباد اپنی زندگی سادگی کے ساتھ گزر بسر کرتے تھے۔
- میر عثمان علی خان کے دور حکمرانی کے وقت حیدرآباد کی آبادی ایک کروڑ 64 لاکھ تھی۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی محض 12 فیصد تھی۔
- نظام حیدرآباد کے قائم کردہ اداروں اور تخلیقی منصوبوں جیسے نظام سٹیٹ ریلویز، ریڈیو سٹیشن، انڈر گراونڈ ڈرینیج کا انتظام، ہزار بستر والا عثمانیہ ہسپتال، یونانی ہسپتال، ای این ٹی ہسپتال، ٹی بی ہسپتال، نظام آرتھوپیڈکس ہسپتال، پرنسس اسرا ہسپتال اور نیلوفر ہسپتال، پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے بڑے بڑے پروجیکٹز جیسے حمایت ساگر، عثمان ساگر، نظام ساگر، اس کے علاوہ آصفیہ لائبریری، ہائی کورٹ بلڈنگ، ٹاون ہال، سٹی کالج، حیدرآباد پبلک سکول، ویمنز کالج کوٹھی، حیدرآباد ہائوس دہلی، سٹیٹ بینک آف حیدرآباد، بیگم پیٹ ایئرپورٹ اور اسمبلی بلڈنگ کا استعمال آج بھی برقرار ہے۔
- حیدرآباد کی خودمختاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں موجود پرنسلی سٹیٹس یا دیسی ریاستوں میں صرف حیدرآباد ہی ایسی ریاست تھی جس کو اپنے سکے ڈھالنے کا اختیار تھا۔ دوسرے راجہ راجواڑے بھی اپنے سکے رکھتے تھے مگر اس پر حکومت ہند یا حکومت برطانیہ کی بھی مہر رہتی تھی۔ حیدرآبادی سکہ پر صرف نظام کی مہر تھی۔
- 1917 میں میر عثمان علی خان نے عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام ایک چیلنج تھا کیونکہ ایک طرف یورپی یونیورسٹیوں کے نصاب کا اطلاق یقینی بنانے کا ایجنڈا طے ہوا تھا اور دوسری جانب اردو میں تدریس کی انجام دہی شرط بن گئی تھی۔ علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنے کے لیے دارالترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جتنا پیسہ عثمانیہ یونیورسٹی کی تعمیر و تشکیل پر خرچ ہوا اس سے زیادہ پیسہ دارالترجمہ پر خرچ کیا گیا۔
- نظام کی اردو دوستی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نہ صرف اردو زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی بلکہ کرنسی پر جو تحریریں ہوتی تھیں وہ بھی اردو زبان میں ہی ہوتیں۔ اس وقت کے حیدرآباد میں تمام لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت اردو بولتے بھی تھے اور سمجھتے بھی۔ دوسری مقامی زبانوں جیسی مراٹھی، تلگو اور کنڑ کی ترقی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جاتی تھی۔
- پرنسلی ریاستوں میں حیدرآباد دکن واحد ایسی ریاست تھی جس کے پاس ’دکن ایئر لائنز‘ کے نام سے اپنی ایئر لائن تھی۔ اتنا ہی نہیں جہاں مدراس (چنئی) میں 1933 میں بجلی آئی تھی وہیں حیدرآباد میں چھ سال پہلے یعنی 1927 میں ہی بجلی آ چکی تھی۔
- نظام کے دور حکمرانی میں پست اقوام اور اچھوتوں کو بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم مفت دی جاتی تھی۔ مندروں اور دیگر عبادتگاہوں کی دیکھ بھال پر مامور اہلکاروں کو معقول تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ نظام امرتسر کے گردواروں، بنارس کے منادر اور خاص کر بنارس ہندو یونیورسٹی کو مالی امداد دیتے تھے۔
- ناندیڑ میں موجود سکھ مذہب کے دسویں گرو سری گرو گوبند سنگھ کے گردوارے کو نظام حیدرآباد نے ہزاروں ایکڑ زمین عطیہ کی تھی۔ سکھوں کے بچوں کی تعلیم کی طرف خاص دھیان دیا جاتا تھا اورمختلف مراعات بھی دیے جاتے تھے۔
- مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ ہندوئوں کے مذہبی جذبات کی خاطر نظام حکومت نے گائے کی قربانی کو ممنوع قرار دیا تھا۔
- میر عثمان علی خان نے سقوط حیدرآباد کے بعد پاکستان جانے کی بجائے کنگ کوٹھی میں ہی ضرورتمندوں کی خدمت جاری رکھی۔ ان کے محل اور 'خانہ زاروں' میں 300 ایسے غریب اور نادار بچے پرورش پا رہے تھے جن کی وہ خود کفالت کرتے تھے۔ ایک ٹرسٹ بنا کر بلا لحاظ مذہب وملت غریبوں کو ہر قسم کی مدد فراہم کرتے رہے اور سقوط سے پہلے جن ملازمین کی روزی روٹی کا دار و مدار شاہی محل کی نوکری پر ہی منحصر تھا ان کو آخری وقت تک اپنے ساتھ رکھا، تاکہ ان پر برا وقت نہ آئے۔
(نوٹ: نظام حیدرآباد: دور حکمرانی اور کارنامے سیکشن کی تیاری میں مورخ علامہ اعجاز فرخ سے ہوئی گفتگو اور چند کتابوں بشمول ’پولیس ایکشن،‘ ’زوال حیدرآباد،‘ ’سقوط حیدر آباد‘ کا سہارا لیا گیا ہے۔)