یہ گاڑی 70 سال پہلے نواب آف بہاول پور اپنے شہر کی سڑکوں پر چلاتے تھے۔ آج کل نواب بہاولپور کے پوتے سلیمان عباسی اسی کار کو پشاور سے کراچی تک لے جانے کے لیے نکلے ہیں۔
سلیمان عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ گاڑی میرے دادا نے اپنی انگریز بیوی کے لیے تحفے کے طور پر خریدی تھی۔ جب بہاولپور آئی تو اس وقت ہماری فیملی میں عورتوں میں گاڑی چلانے کا رواج نہیں تھا۔ گاڑی زیادہ تر میرے دادا خود ہی چلاتے تھے۔ اپنےگھر سے دیوان تک جانا اور واپس آنا ہوا کرتا تھا۔‘
یہ گاڑی جون 1948 میں سلیمان عباسی کے دادا نے ولایت کے ایک شوروم سے خریدی تھی۔ ’اس زمانے میں کسٹم وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ لینے کے بعد جہاز میں کراچی پورٹ لائے اور وہاں سے ڈرائیو کر کے بہاولپور لے آئے۔‘ اس گاڑی کی باقی ساری زندگی بہاولپور میں گزری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہاول پور کی شاہی جیگوار نایاب گاڑیوں کےایک قافلے میں شریک ہے جو پشاور سے نکلا ہے اور منزل کراچی ہے۔ سلیمان عباسی نے بتایا کہ ’اس گاڑی کی قمیت اگر ہم انٹرنیٹ پر دیکھیں تو اس وقت تین ساڑھے تین سو پاونڈ تھی۔ اس میں کوئی کمپیوٹر نہیں۔ بڑی سادہ سی گاڑی ہے۔ روڈ کے کنارے پر خراب ہو جائے تو مرمت ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی اتنی بڑی پیچیدہ چیز نہیں ہے۔
سپیئر پارٹس کا مسئلہ ضرور ہوتا ہے۔ میں نے برطانیہ میں تین چارسپلائرز کو ڈھونڈ رکھا ہے جو اس کے پارٹس بناتے ہیں۔ شوقین لوگ اس گاڑی کی مختلف قیمت لگاتے ہیں۔ یہ اس وقت 20 ہزار پاؤنڈ تک ہو گی۔‘
یہ جیگوار گاڑی دسویں سالانہ ونٹیج کلاسیک کار ریلی میں شریک ہے جو اتوار کو پشاور سے شروع ہوئی اور اسلام آباد پہنچی۔
اپنے پہلے پڑاؤ کے دوران اسلام آباد میں درجنوں گاڑیاں شاہ فیصل مسجد کے سامنے جمع ہوئیں جہاں سے ان کی اگلی منزل لاہور ہوگی۔
لوگوں کی بڑی تعداد ان نایاب اور پرانی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے صبح 9 بجے ہی جمع ہونا شروع ہوگئی تھی۔
ان گاڑیوں کے مالکان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف مہنگا بلکہ وقت طلب شوق ہے۔ آج کل کی نوجوان نسل نئی گاڑیوں کی دلدادہ ہے، ان کے نزدیک یہ کباڑ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔