سولہویں صدی کے اواخر میں ہزاروں گھڑ سوار ڈاکو سلطنت عثمانیہ کے مضافاتی علاقے اناطولیہ سے داخل ہو کر مختلف دیہات کو لوٹتے ہوئے تشدد اور افراتفری پھیلا کرعثمانی سلطان کی اقتدار پر گرفت کمزور کرنے لگے۔
اس واقعے کے چار سو سال بعد اور محض چند سو میل کے فاصلے پر سلطنت عثمانیہ کے سابقہ علاقے شام میں بڑے پیمانے پر ہونے والا ایک احتجاج شدت اختیار کرتے ہوئے 2011 میں پرتشدد خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔
بحیرہ روم کے خطے کی تاریخ کے یہ سیاہ واقعات مستقبل کے ممکنہ خطرات کے بنیادی خد و خال واضح کرتے ہیں، لوگوں کو تحریک دینے والے دونوں واقعات کا جنم مقامی سطح پر ہوا۔ دونوں کی جڑیں سیاست میں گڑی تھیں جس کے باعث ڈرامائی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دونوں واقعات کے پیچھے ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث غیر متوقع طور پر بدلتے موسم کا ہاتھ بہت زیادہ تھا۔
بطور ماحولیاتی مورخ میں نے مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں برپا ہونے والے تصادم اور ماحولیاتی دباؤ پر تحقیق کی اور اس کے بارے میں کثرت سے لکھا ہے۔ اگرچہ جان لیوا خشک سالی ، طوفانی آندھیاں، سطح سمندر کی بڑھتی سطح اور موسمیاتی تباہیوں کے سبب ہجرت ہمارے عہد کے لیے اجنبی اور انوکھی چیز ہو سکتی ہے لیکن ماضی میں پیش آنے والے اس طرح کے اور اس سے مختلف بحران اپنے اندر کچھ اہم سبق رکھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں کیسے انسانی معاشروں کو جڑ سے ہلا سکتی ہیں۔ آئیے تفصیل سے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایک وسیع سلطنت کے قلب میں قحط سالی
ہم بڑی حد تک ماحولیاتی تپش کے عہد میں سانس لے رہے ہیں جو ناقابل برداشت انسانی سرگرمیوں کا پیدا کردہ ہے۔ عمومی طور پر عہدِ حاضر کو ’انسان کا عہد‘ یا Anthropocene کہا جاتا ہے۔ اس دور کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا جنم انیسویں صدی کے ایک اور وسیع عالمی موسمیاتی تبدیلی کے دور سے ہوا جو ’مختصر برفانی عہد‘ (Little Ice Age) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مختصر برفانی عہد میں دنیا کے کئی خطوں میں اوسط درجۂ حرارت سے زیادہ ٹھنڈ اور موسم کی شدت دیکھنے کو ملی۔ انسانوں کی سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والی حالیہ ماحولیاتی تپش کے برعکس اس مختصر برفانی عہد کا باعث بڑی تعداد میں آتش فشاں پھٹنے جیسی فطری سرگرمیاں تھیں اور اس نے مختلف وقتوں میں مختلف خطوں کو مختلف درجے اور بالعموم مختلف انداز میں متاثر کیا۔
سولہویں صدی کے اواخر میں اس کے مضر اثرات کا ابتدائی مشاہدہ اناطولیہ میں دیکھا گیا۔ یہ علاقہ بڑی حد تک دیہی علاقہ ہے اور ایک زمانے میں یہ سلطنت عثمانیہ کا مرکزی حصہ رہا۔ موجودہ ترکی میں یہ سرحدی علاقہ ہے۔ روایتی طور پر اس کی بیشتر زمین اناج اگانے یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں چرانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ یہ خطہ دیہی آبادی اور عثمانی سلطنت کے ہنگامہ خیز دارالحکومت استنبول (قدیم نام قسطنطنیہ) کے شہریوں کی خوراک پوری کرنے کے لیے بنیادی نوعیت کا حامل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1600 کے آس پاس جب مختصر برفانی عہد جب شروع ہوا تو اوپر نیچے کی دو دہائیاں خاص طور پر مشکل تھیں۔ (اس کا اثر یورپ اور ایشیا کے دوسرے علاقوں پر بھی ہوا) لیکن درختوں کی پیداوار اور قدیم موسم پر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اناطولیہ کو چند برسوں تک تاریخ کے سرد اور خشک ترین موسم کی کہیں زیادہ شدت سامنا کرنا پڑا۔ ان برسوں میں قحط سالی، کہرے اور سیلابوں کی کثرت تھی۔ عین انہی وقتوں میں اس خطے کے باسیوں کو طاعون اور جارحانہ ریاستی پالیسیوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑا جن میں سلطنت کی جانب سے ہنگری کے خلاف مہنگی جنگ میں اناج اور گوشت کی ضروریات پوری کرنا بھی شامل تھا۔
مسلسل بری فصل، جنگ اور مصائب نے عثمانی سلطنت کی خوراک کی رسد کے نظام کی کمزوریاں عیاں کر دیں۔ خوراک مہیا کرنے کی ریاستی کوششوں کی راہ میں کڑا موسم رکاوٹ بن گیا جس سے مضافاتی علاقوں سے لے کر استنبول تک قحط پھیل گیا اور مزید کسر طاعون کی جان لیوا وبا نے پوری کر دی۔
اسی دوران سلطنتِ عثمانیہ کو ایک اور مشکل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لگ بھگ اسی دور میں سلطنت کے اندر سے شورش پھوٹ پڑی۔ 1596 تک بغاوتوں کے سلسلے نے جڑ پکڑ لی تھی جسے مجموعی طور پر ’جلالی بغاوت‘ کہتے ہیں۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی چھ صدیوں پر محیط حکمرانی میں ریاست کے لیے طویل ترین اندرونی چیلنج تھا۔
کسانوں، نیم خانہ بدوش گروہوں اور صوبائی قائدین نے نتائج سے بے پروا ہو کر تشدد، رہزنی اور عدم استحکام کے اس سلسلے کو ایسی تحریک میں بدل دیا جو سترہویں صدی تک جاری رہی۔ جب خشک سالی، بیماری اور خونریزی معمول بن گئی تو لوگ پرامن علاقوں کی تلاش میں دیہات اور زمینیں چھوڑ کر اناطولیہ سے نکلنے لگے۔ دوسری طرف بہت سے ایسے لوگ جن کے پاس نقل مکانی کے لیے درکار وسائل نہ تھے، انہیں قحط نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
سلطنت عثمانیہ کو کھوکھلا کرنے کے عمل کا آغاز
خارجی طور پر موسم کی شدت اور طاعون کی وبا اور اندرونی طور پر بغاوتوں کے اس سلسلے سے قبل سلطنت عثمانیہ جدید عہد کی مضبوط ترین ابتدائی حکومتوں میں سے ایک تھی۔ یورپ، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے وسیع علاقے اس سلطنت میں شامل تھے اور اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے مقدس ترین مقامات پر اس کا اختیار تھا۔ گذشتہ صدی سے عثمانی فوجی دستے وسط ایشیا تک پہنچ گئے تھے، ہنگری کا بہت سا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا اور 1529 میں ویانا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہیپسبرگ سلطنت تک آ پہنچے تھے۔
جلالی بغاوت کے دور رس سیاسی اثرات
سلطنت عثمانیہ 1611 تک دیہی اناطولیہ میں جلالی بغاوت پر قابو پا کر نسبتاً پرامن ماحول دوبارہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اسے اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ صوبوں پر بادشاہ کی گرفت ناقابلِ تلافی حد تک کمزور پڑ گئی اور شاہی اختیار پر اس اندرونی خود مختاری سے سلطنت عثمانیہ کے پھیلاؤ کا سلسلہ رک گیا۔
جلالی بغاوت نے سلطنت عثمانیہ کے سنہرے دور کے دروازے بند کر دیے اور شاندار سلطنت کو غیر مرکزی نظام، فوجی شکستوں اور انتظامی امور کی کمزوریوں سے دوچار کر دیا جو عثمانیوں کے لیے بقیہ تین صدیوں تک پریشانی کا باعث بنتی رہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کی شدت: ’مرے پر سو دُرے‘
ان واقعات کے چار سو سال بعد سماجی بے چینی کے ساتھ مل کر ماحولیاتی دباؤ نے شام کو طویل اور تباہ کن خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔
شامی خانہ جنگی سیاسی استحصال، عرب بہار کی تحریک اور جدید دور میں شام کو پیش آنے والی ایک بدترین خشک سالی کے پس منظر سے پھوٹی۔
شام کی خانہ جنگی میں ماحولیاتی کردار کس قدر اہم تھا اس کی درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کیونکہ جلالی بغاوت کی طرح اس کے اثرات سماجی و سیاسی حالات سے پیوست تھے۔ لیکن ان تمام حالات کا مہلک اکٹھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری امور کے ماہرین موسمیاتی تبدیلی کو ’خطرے کی شدت میں اضافے کا باعث‘ گردانتے ہیں۔
اب دوسری دہائی میں داخل ہو کر شام کی جنگ نے سوا کروڑ کے قریب شامی افراد کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔ ان میں سے تقریباً نصف اپنے ملک میں ہی بےگھر بن گئے ہیں جبکہ دیگر یورپ اور دوسرے آس پاس کے ممالک میں نقل مکانی کر گئے جس سے عالمی پناہ گزینی کا بحران مزید سنگین ہو گیا۔
عہد حاضر اور مستقبل کے لیے اسباق
ممکن ہے بحیرۂ روم کے خطے عالمی تپش کے منفی اثرات سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئے ہوں لیکن یہ دو واقعات کسی طرح بھی انہونے نہیں۔
جیسے ہی زمین کا درجہ حرارت بڑھے گا موسم انسانی سرگرمیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جائے گا جس کے نتیجے میں جنگ اور نقل مکانی کے خدشات بڑھیں گے۔ گذشتہ برسوں میں بنگلہ دیش جیسے غریب ممالک سیلابوں سے تباہی کا شکار ہوئے جبکہ خشک سالی نے قرنِ افریقہ یعنی Horn of Africa اور وسطی امریکہ میں زندگی کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ ان علاقوں سے کثیر تعداد میں لوگ ہجرت کر کے دوسرے ممالک چلے گئے ہیں۔
بحیرہ روم کی تاریخ حالیہ عالمی ماحولیاتی مسائل سے نبٹنے کے متعلق تین سبق سکھاتی ہے۔
اول: موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی زد اکثر و بیشتر غریب اور پسے ہوئے طبقات پر پڑتی ہے جو ایسی صورت حال سے نکلنے اور نئی زندگی شروع کرنے کی بہت کم گنجائش رکھتے ہیں۔
دوم: ماحولیاتی مسائل اس وقت شدید نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں جب سماجی حالات کے ساتھ منسلک ہو جائیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
سوم: موسمیاتی تبدیلی ایسی زور آور چیز ہے جو ہجرت اور نئی آبادکاری، تیز رفتار تشدد، حکومتوں کا عدم استحکام اور دنیا بھر میں انسانی معاشروں کے لیے ڈرامائی تبدیلیوں جیسے مسائل کا باعث بن سکے۔
موسمیاتی تبدیلی ڈرامائی، پریشان کن اور غیر متوقع انداز میں بالآخر سبھی کو متاثر کرے گی۔ مستقبل پر غور کرتے ہوئے ہم اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر دا کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی اور ان کی اجازت سے اس کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔