اسرائیلی مورخ بینی مورس کوئی بھی کام ادھورا نہیں کرتے۔ ترک حکمرانوں کی جانب سے مسیحیوں کی نسل کشی کے حوالے سے تحریر کی گئی ان کی نئی کتاب، جو انہوں نے اپنے ساتھی درور زیوی کے ساتھ مل کر لکھی ہے، کے آخر میں شامل حاشیہ 640 صفحات پر مشتمل تحریر کا پانچواں حصہ ہے۔
انہوں نے اس ہفتے فون پر گفتگو کرتے ہوئے میرے سامنے اعتراف کیا کہ ’یہ پورے نو برس پر محیط ہے، ایک طویل عرصہ۔‘
انہوں نے سلطنت عثمانیہ میں تقریباً 25 لاکھ مسیحیوں کی نسل کشی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے ملوث ہونے کے حوالے سے گفتگو کی کہ کس طرح مذہب لوگوں کو تشدد پر اُکساتا ہے۔ انہوں نے ترکوں، داعش، صلیبی مجاہدین، حتیٰ کہ عربوں کو بھی اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔
یہ کتاب بعنوان ’30 سالہ نسل کشی: ترکی کی جانب سے مسیحی اقلیتوں کی تباہی 1894-1924،‘ رجب طیب اردوغان سمیت تمام ترکوں کو مشتعل کردے گی۔ دوسری جانب آرمینیا کے لوگ اور دیگر مسیحی اُن کے اس دعوے پر جھگڑا کریں گے کہ کیا مصنفین کو ابھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی نسل کشی 30 سال تک جاری رہی۔ دیگر لوگ 1915 میں آرمینی باشندوں کے قتل عام اور دیگر واقعات پر گفتگو کریں گے جبکہ عرب اُن کے اِن نظریات کو چیلنج کریں گے کہ مسیحیوں کے ہولوکاسٹ کے پیچھے ترک قوم پرستی سے زیادہ اسلامی نظریات کا ہاتھ تھا۔
تقریباً 35 برس تک آرمینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے لکھنے کے بعد مجھے اس بات پر شبہ ہے کہ ترک سلطنت عثمانیہ میں جہاد کی اصل کال پہلی جنگ عظیم کے بعد دی گئی۔ مفتیوں کو یہ بتایا گیا کہ وہ مسیحیوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں، لیکن یہ مسیحی، جرمن، آسٹروہنگری، بلغاریہ یا دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے نہیں تھے۔ مساجد کے فرش پر عبادت کے لیے بیٹھے بہت سے مسلمانوں نے بھی اس حکم امتناع پر حیرانی کا اظہار کیا ہو گا۔
خیر، جائزہ لینے کا ایک طریقہ عثمانی فوج کی تربیت کرنے والے جرمن افسران، جرمن سفارت کار اور تاجر تھے، جنہوں نے آرمینیوں کی نسل کشی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے وطن جا کر اس بارے میں لکھا۔ لیکن مورس اور زیوی کے کام میں مسلمانوں کی جانب سے مذہبی انتہا پسندی کو اجاگر کیا گیا ہے۔
آرمینی ابراہام ہارٹونیئن 1895 میں سیویریک میں ہونے والے ایک واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں، ’پہلا حملہ ہمارے پادری ماردیروس بوزیاکالیان پر کیا گیا اور کلہاڑی کے ایک وار سے وہ زمین پر گر گئے، ان کا خون ہر طرف پھیل گیا، دیواروں اور چھت پر بھی۔ پھر میں ان قصائیوں کے سامنے آ گیا۔ ان میں سے ایک نے اپنا خنجر لہرایا، میرے سر پر تین وار ہوئے، میرا خون ایک فوارے کی مانند پھوٹ پڑا۔ حملہ آوروں کو یقین تھا کہ میں مرچکا ہوں، پھر انہوں نے کمرے میں موجود دیگر لوگوں کو قتل کیا، جبکہ خوبصورت عورتوں کو ریپ کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔‘
اب یہ جولائی 1915 کی بات ہے اورعینی شاہد مبلّغ جے کے مارسڈین، مرزیفون میں پیش آنے والا واقعہ بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘وہ چار گروہ تھے، جن کے ہاتھ پیچھے کی جانب بندھے ہوئے تھے، پھر ان کی منتقلی شروع ہوئی، ہر گروہ میں شاید 100 لوگ تھے، انہیں میدانوں میں تقریباً 12 میل دور لے جایا گیا اور پہلے سے کھودی گئی ایک خندق کے سامنے ان کے کپڑے اتروا کر انہیں گھٹنوں کے بل بٹھا دیا گیا اور پھر چاقوؤں اور کلہاڑیوں کے ساتھ تیار بیٹھے گاؤں کے لوگوں نے انہیں جلدی سے ٹھکانے لگا دیا، ایک ہفتے تک یہ عمل دہرایا گیا، تاوقتیکہ 1230 اہم آرمینی باشندے ٹھکانے نہیں لگ گئے۔‘
جنوری 1920 کو وائی ایم سی اے کے سیکریٹری سی ایف ایچ کریتھرن، ماراش میں تھے۔ ایک آرمینیی پادری کی بیوی کو وہاں لایا گیا، وہ خون میں لت پت تھی، اسے تین گولیاں لگی تھیں اور اس کے جسم پر خنجر یا چاقو کے تین وار کیے گئے تھے جبکہ اس کے 18 ماہ کے بچے کو اس سے چھین کر چاقو سے قتل کر دیا گیا تھا اور ایک بڑی بیٹی کو کلہاڑی کے وار سے قتل کیا گیا تھا۔ مزید ستم یہ کہ وہ خاتون حاملہ تھیں، لیکن ہسپتال پہنچنے تک ان کا حمل ضائع ہو گیا اور اگلے روز وہ چل بسیں۔
میں نے 30 سالوں میں ایسی خونی کہانیوں میں سے بہت کم ہی دہرائی ہیں۔ میں یہاں قارئین کو کٹی ہوئی انگلیوں، ریپ کا شکار ہونے والی ہزاروں لڑکیوں، ذبح کیے گئے پادریوں اور جلائی گئی لاشوں کا تصور کرنے کے لیے تنہا چھوڑتا ہوں۔
ایک امریکی مبلغ لکھتے ہیں کہ ’آرمینیوں کے آخری ادوار میں ترک خون، ریپ، لوٹ مار اور طاقت کے نشے میں چور تھے۔‘ بینی مورس کے خیال میں یہ ’جدید قوم پرستی‘ اور ’اسلامی سیاست‘ کے زوال کے باعث ہوا۔
میں نے ان کے ساتھ اس سب پر بحث کی کہ کیا لوگوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ظلم و ستم میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ ان میں سے انسانیت ہی ختم ہو جائے؟ انہوں نے مزید کہا، ’مذہب لوگوں کو شدید تشدد پر اُکساتا ہے۔ مورس اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ رومی ظالم تھے لیکن وہ بت پرست تھے۔ مذہب کے اعتبار سے رومی ناپختہ تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے مذہب نے لوگوں کو زیادہ اکسایا، یہودیوں نے اس سے گریز کیا، لیکن فلسطینی اس سے اتفاق نہیں کریں گے۔‘
یقینی طور پر قاتلوں کے لیے ایک خوفناک جغرافیائی گنجائش موجود ہے۔ موصل، رقہ، مانبج اور دیر زور کے علاقوں میں ایسے ہزاروں واقعات وقوع پذیر ہوئے۔
لوگ یہ کیوں پوچھتے رہتے ہیں کہ مسیحی 1924 کے بعد چلے گئے تھے؟ لیکن حقیقت میں فرانس اور برطانیہ کی جانب سے اُن پر واپس آ کر کلیشیا، میسوپوٹیمیا اور شام میں سکونت اختیار کرنے پر زور دیا گیا، جس کے بعد فرانسیسی اور برطانوی تو چلے گئے لیکن مسیحی وہاں نسل کشی کے لیے رہ گئے۔
صرف ترک ہی قاتل ہی نہیں تھے بلکہ مسیحیوں کے قتل عام میں کرد بھی شریک تھے، جیسے کہ یوکرینیوں نے نازی جرمنی کے لیے یہودیوں کو قتل کیا۔
اس کتاب میں مصطفیٰ کمال اتاترک کو خوب رگڑا گیا ہے۔ ایک جگہ 1922 میں کہے گئے اس کے الفاظ شامل ہیں، جب انہوں نے کہا تھا، ’ہمارا مقصد مسیحیوں سے نجات حاصل کرنا ہے‘، یہ جملہ اس نے بہت سی جگہوں پر کہا۔
مورس کے مطابق وہ حکم دیتے اور اس کی حکومت میں شامل لوگ عمل کرنے کے ذمہ دار ہوتے، لیکن ایک طرف اگر یہ 30 سالہ نسل کشی مسلمانوں کے جنون کی وجہ سے ہوئی تو وہیں اس کتاب میں کچھ ’اچھے ترکوں‘ کا بھی ذکر ہے۔
پہلے پہل حکومتی افسران نے ایک ایماندار اور غیر جانبدار جج اسد بے کو گرفتار کیا، جس نے مسیحیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی، ایک ترک ڈاکٹر نے ترک سپاہیوں کو ہسپتال سے نکال کر ان کی جگہ آرمینی پناہ گزینوں کو داخل کیا۔ مبلغ ٹیکی اٹکنسن کو امید ہے کہ وہ اس ڈاکٹر سے کبھی جنت میں ملیں گے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں۔
یہ سچ ہے کہ یونانی مسیحیوں کے پاس آرمینیوں کے مقابلے میں کم مورخ ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یونانیوں کو اتنے ہی مسلمانوں کے بدلے یونان میں منتقل کیا گیا تھا- سرکاری معاہدوں میں اس قتل عام کو بہت چھوٹا بتایا جاتا ہے، لیکن مورس اور زیوی نے اس طرف بہت کم توجہ دی جس میں نازیوں نے اتاترک کے لوگوں کو مبتلا رکھا۔
اتاترک بذات خود اسلام کے اتنا قریب نہیں تھے۔ وہ سگریٹ نوشی بھی کرتے تھے اور عورتوں میں بھی گھرے رہتے تھے۔ مسلمان ہونے سے پہلے وہ قوم پرست تھے۔ نازی انہیں سراہتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو جرمنی کے مشہور اخبار ’واکیشر بیوباچر‘ کا پہلا صفحہ سیاہ کردیا گیا تھا۔
اس کتاب میں مصنفین نے یہودی ہولوکاسٹ اور آرمینی قتل عام کا مختصر موازنہ کیا ہے۔ آرمینیا کے لوگ شاید بچ جاتے اگر وہ اسلام قبول کر لیتے یا ان کی عورتیں مسلمان مردوں سے شادیاں کر لیتیں، لیکن یہودی مذہب تبدیل کر کے اپنی جان بخشی نہیں کروا سکتے تھے۔ ترکوں کی جانب سے کیا گیا قتل عام زیادہ خوفناک تھا۔
جرمنی کے شہریوں نے یہودیوں کے ہولوکاسٹ میں بہت کم کردار ادا کیا جبکہ ترکوں کا اس میں بہت زیادہ کردار تھا۔ اگر 30 برسوں میں قتل کیے گئے مسیحیوں کی تعداد 25 لاکھ ہے تو مورس کے مطابق ان کہانیوں کو بالکل صحت کے ساتھ نہیں بیان کیا جا سکتا اور میرا خیال ہے کہ وہ درست کہہ رہے ہیں۔
نازیوں نے 1939 سے 1945 کے دوران کم از کم 60 لاکھ یہودی قتل کیے لیکن ترکوں کے پاس اتنے زیادہ مسیحیوں کو اتنی جلدی قتل کرنے کے آلات نہیں تھے کیونکہ اُس وقت یہ سب کچھ میسر نہیں تھا۔ لیکن اس بنیاد پر اگر دیکھا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ مستقبل میں کتنی جلدی کتنے انسانوں کو قتل کیا جائے گا اور وہ بھی نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے؟