سنہ 1926 میں مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے شاگرد ابو الجلال ندوی کو دار المصنفین کی ذمہ داریوں سے فارغ کر کے مدراس (چنئی) روانہ کر دیا جہاں وہ مدرسہ جمالیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔
مدراس میں ان کے ٹرپلیکین ہائی روڈ پر تاریخی والا جاہی مسجد کے قریب واقع شاہی (پرنٹنگ) پریس کے مالک سید عظمت اللہ سے دوستانہ مراسم پیدا ہوئے جو ایک سال بعد یعنی سنہ 1927 میں اردو اخبار ’مسلمان‘ کی اشاعت کا باعث بنے۔
سید عظمت اللہ اور ابو الجلال ندوی بالترتیب اخبار کے پبلشر اور مدیر بن گئے۔ جہاں اولالذکر ایک بہترین کاتب وہیں آخر الذکر ایک مایہ ناز قلم کار تھے۔ ان کے لیے ’مسلمان‘ کی اشاعت کا مقصد مسلمانوں کے جذبات، احساسات اور مطالبات کی ترجمانی کرنا تھی۔
اخبار ایک آنہ میں بکنے لگا۔ سید عظمت اللہ اور ابو الجلال ندوی کی سرپرستی میں کاتب اور قلم کار کام میں لگ گئے اور بہت کم عرصے میں اخبار شہرت کی بلندیوں تک جا پہنچا۔
جب سنہ 1928 میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال مدراس آئے تو انہوں نے یہاں اپنے قیام کے دوران کئی مرتبہ اخبار ’مسلمان‘ کے دفتر کا دورہ کیا۔ وہ اخبار کی ادارتی ٹیم کی صلاحیتوں اور سید عظمت اللہ کی اہلیہ کے ہاتھوں سے بنے پکوانوں کی لذت کے شیدائی ہو گئے۔
سنہ 1927 سے اب تک 94 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اخبار ’مسلمان‘ کا سفر جاری ہے۔ اخبار کی قیمت ایک آنہ سے بڑھ کر آج 75 پیسے ہے، کئی مدیر، تین مالک، درجنوں کاتب اور سینکٹروں نامہ نگار بدل گئے ہیں۔
جو نہیں بدلا ہے وہ اخبار کی فن کتابت ہے۔ ’مسلمان‘ غالباً دنیا کا واحد ایسا اخبار ہے جو کمپیوٹر کے اس موجودہ دور میں بھی ہاتھ سے لکھا جاتا ہے۔ یعنی اخبار کا پورا متن اس ادارے میں کام کرنے والے کاتب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں۔
فن کتابت جاری رکھنے کی وجوہات؟
انڈپینڈنٹ اردو نے اخبار کے مدیر اور مالک سید عارف اللہ سے کتابت کو جاری رکھنے کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔
’پہلی یہ کہ میں اپنے باپ دادا کی میراث کو جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ دوسری اخبار کے ساتھ تین کاتب وابستہ ہیں۔ ہم نے کمپیوٹر کا استعمال شروع کیا تو ان کا روزگار ختم ہو جائے گا۔
‘تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے قارئین کو کمپیوٹر سے لکھا ہوا پڑھنے میں دقت آتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ وہ ہاتھ سے لکھا ہوا پڑھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔‘
اخبار ’مسلمان‘ کے بانی سید عظمت اللہ کے پانچویں فرزند سید سلطان کی عمر 75 سال ہے اور وہ کئی برسوں تک اس اخبار کے ساتھ بحیثیت نامہ نگار وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ شاعری بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سید عارف اللہ کی بتائی ہوئی وجوہات کی تائید کی۔
’اخبار میں تین کاتب کام کرتے ہیں۔ ان میں دو خواتین اور ایک مرد ہے۔ ان کے پاس کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ہم نے کمپیوٹر کا استعمال شروع کر دیا تو ان کی نوکری جائے گی۔
’اس سے اہم بات یہ ہے کہ ہم کتابت کے فن کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سے بہت لوگ کہتے ہیں کہ آپ بھی کمپیوٹر کا استعمال شروع کریں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ کمپیوٹر مفت فراہم کرنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔‘
’مسلمان‘ چنئی سے شائع ہونے والا واحد اردو اخبار ہے اور سید عارف اللہ کے بقول آج بھی مسلمانوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
چنئی سے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوبی بھارت کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں اس شہر میں مسلمانوں اور اردو پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔
سید عارف اللہ، جنہوں نے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے، کہتے ہیں کہ اخبار ’مسلمان‘ کو جاری رکھنے سے ان کا نقصان ہی ہوتا ہے لیکن چوں کہ یہ اخبار ان کے دادا نے شروع کیا ہے لہٰذا وہ اس کی اشاعت روک نہیں سکتے۔
’اخبار کی قیمت صرف پچھتر پیسے ہے۔ اخبار کی قیمت بڑھائی تو خریداروں کی تعداد میں کمی آنے کا خدشہ ہے۔ اشتہارات کسی بھی اخبار کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی نہیں ملتے ہیں۔
’چوں کہ ہمارا ایک اردو اخبار ہے اس وجہ سے حکومت بھی اشتہار دینے میں بخل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اب جتنے بھی اشتہار ملتے ہیں اس کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔‘
سید سلطان کا کہنا ہے کہ ’وفاق میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سے اخبار کو تعاون ملنا تقریباً بند ہو چکا ہے۔‘
’مقامی لوگوں نے اردو میں اشتہارات شائع کروانا بند کیا ہے۔ بھارت کے دوسرے شہروں کی طرح مدراس میں بھی اردو پڑھنے اور پڑھانے کا چلن تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
’لکھنؤ جیسے شہر میں اردو کی جگہ ہندی نے لی ہے۔ بچے اردو پڑھتے ہیں نہ والدین انہیں پڑھانے کی سعی کرتے ہیں۔ چنئی کے زیادہ تر مسلمان تمل میں بات کرتے ہیں۔
’چوں کہ اردو ہمارے خون میں شامل ہے لہٰذا ہم نے کبھی اس اخبار کو بند کرنے یا اس کو انگریزی یا تمل میں نکالنے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘
ماضی میں ’مسلمان‘ آٹھ تا 12 صفحات پر مشتمل ہوتا تھا، لیکن اب صفحات کی تعداد گھٹ کر چار پر آ گئی ہے۔ پہلے صفحے پر قومی و بین الاقوامی خبریں، دوسرے اور تیسرے صفحے پر اداریہ، مضامین، مذہبی پیغامات، اردو شاعری، مقامی و ریاست کی خبروں اور آخری صفحے پر متفرقات خبریں شائع کی جاتی ہیں۔
اسی طرح نامہ نگاروں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ پہلے ’مسلمان‘ کے نامہ نگار دلی سمیت بھارت کے سبھی بڑے شہروں میں ہوا کرتے تھے، لیکن اب چند ہی نامہ نگار اس اخبار سے وابستہ ہیں جو جنوبی بھارت کے مختلف علاقوں سے رپورٹ کرتے ہیں۔
سید عارف اللہ کے مطابق ہر روز ’مسلمان‘ کی 22 ہزار کاپیاں چھپتی ہیں جس میں سے ایک بڑی کھیپ چنئی شہر اور تمل ناڈو کے اضلاع میں قارئین تک پہنچائی جاتی ہیں جبکہ کچھ کاپیاں بذریعہ ڈاک ملک کے مختلف حصوں میں روانہ کی جاتی ہیں۔
’ہم نے آج تک کسی مدیر، کاتب یا نامہ نگار کو ملازمت سے نہیں نکالا ہے۔ ہاں اگر کوئی اپنی مرضی سے چھوڑنا چاہے تو وہ ملازمت چھوڑ سکتا ہے۔‘
اخبار کی تاریخ کے اہم واقعات
سید سلطان نے بتایا کہ 1950 کی دہائی میں ‘گمراہ نوجوانوں‘ کا ایک گروپ اخبار ’مسلمان‘ کے دفتر میں داخل ہوا اور اخبار کے نام یعنی ‘مسلمان‘ پر اعتراض جتایا۔
’میرے والد سید عظمت اللہ نہایت ہی نرم طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے ان گمراہ نوجوانوں کو انتہائی متانت کے ساتھ بتایا کہ یہاں سے ایک کلو میٹر دوری پر ایک بڑا اخبار ‘ہندو‘ (معروف انگریزی اخبار دا ہندو) کے نام سے نکلتا ہے۔
’آپ لوگ وہاں جاؤ اور اُن سے کہو کہ ‘ہندو‘ نام سے اخبار نہ نکالیں۔ اگر وہ آپ کا مطالبہ مانتے ہیں تو میں بھی اخبار کا نام بدل دوں گا۔ وہ نوجوان اٹھ کر چلے گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔‘
سید سلطان نے ایک اور واقعے کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو مدراس کے دورے پر آئے۔
’یہاں ان کی ایک پریس کانفرنس تھی۔ اتفاق سے مسلمان کے رپورٹر راما کرشنا ایئر اور اخبار دا ہندو کے ایک فوٹو جرنلسٹ سید اسد ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔
’مسلمان کے رپورٹر نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘آئی ایم راما کرشنا ایئر فرام نیوز پیپر مسلمان‘ جبکہ ان کے بعد دا ہندو کے فوٹو جرنلسٹ نے کہا ‘آئی ایم سید اسد فرام دا ہندو‘۔ نہرو مسکرا کر کہنے لگے کہ ہمارے ملک کے سیکولر ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے۔‘
سید سلطان کہتے ہیں کہ تقسیم ہند سے قبل اخبار ’مسلمان‘ انگریزوں کے خلاف اور محمد علی جناح کی آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں لکھتا تھا۔
’یہ اخبار آل انڈیا مسلم لیگ کا ماؤتھ پیس تھا۔ ہمارے سب ایڈیٹر سید عبداللطیف فاروقی کو انگریزوں کے خلاف لکھنے پر جیل جانا پڑا تھا۔
’پاکستان بننے کے بعد ہم نے کانگریس کے حق میں لکھنا شروع کر دیا۔ اب ہم کسی کی طرف داری یا تائید نہیں کرتے۔‘
’مسلمان‘ کی تاریخ سید سلطان کی زبانی
جمال محمد راوتر مدراس کی ایک انتہائی مخیر اور علم پرور شخصیت تھیں۔ شہر مدراس کا مدرسہ جمالیہ اور تروچراپلی شہر کا جمال محمد کالج انہی کی وسیع القلبی کا نتیجہ ہیں۔
جمال محمد اور ہمارے والد سید عظمت اللہ میں گہری دوستی تھی۔ سنہ 1921 میں جمال محمد مدراس کے ایک تعلیمی ادارہ محمڈن ایجوکیشنل ایسوسی ایشن (جو آج مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کہلاتی ہے) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔
سید عظمت اللہ نے انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس خوشی میں آپ اس ایسوسی ایشن کی جانب سے سیرت النبی کا ایک شاندار جلسہ منعقد کریں۔ اس گفتگو کے دوران محمڈن ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کے سکریٹری حمید حسین سیٹھ بھی موجود تھے جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمال محمد نے اس مشورہ کی تائید کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ اس کے لیے مولانا سید سلیمان ندوی کو دعوت دی جائے۔ انہوں نے سید سلیمان ندوی کو خط لکھا۔
اُن دنوں سید سلیمان ندوی اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی کی لکھی ہوئی سیرت النبی کی طباعت میں مصروف تھے۔ انہوں نے خط کے جواب میں لکھا کہ جیسے ہی سیرت النبی کی طباعت کا سلسلہ ختم ہو جائے میں ضرور مدراس آؤں گا۔
سنہ 1925 ہی میں وہ مدراس تشریف لائے اورماہ اکتوبر و نومبر میں سیرت النبی کے خطبات پیش کیے جو خطبات مدراس کے نام سے سارے عالم اسلام میں مشہور ہوئے۔
مولانا سید سلیمان ندوی کی اس علمی قابلیت اور حب نبوی سے متاثر ہو کر جمال محمد نے انہیں اپنے مدرسہ جمالیہ میں پرنسپل کا عہدہ اختیار کرنے کی پیشکش کی۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ انہیں دارالندوہ میں بہت سی دوسری ذمہ داریاں ہیں جس کی وجہ سے وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کر سکتے۔
سید سلیمان ندوی نے اس سلسلے میں اپنے شاگرد ابو لجلال ندوی کا نام پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ قابل ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا جمال محمد کی تائید پر سلیمان ندوی نے ابو لجلال ندوی کو مدراس روانہ کیا۔
مدراس میں قیام کے دوران سید سلیمان ندوی کی شاہی (پرنٹنگ) پریس کے مالک یعنی میرے والد سید عظمت اللہ سے دوستی ہوئی تھی۔ اعظم گڑھ (اترپردیش) واپسی پر انہوں نے ابو الجلال ندوی کو شاہی پریس کا پتہ دے کر مدراس بھیجا اور وہ سینٹرل سٹیشن سے سیدھے شاہی پریس پہنچے۔
دوسرے ہی دن ابو الجلال ندوی مدرسہ جمالیہ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ لیکن شاہی پریس میں ہی اپنا اکثر وقت گزارا کرتے تھے۔
ابو الجلال کی علمی قابلیت، اسلامی جذبہ اور صحافتی خوبیوں سے متاثر ہو کر سید عظمت اللہ نے سنہ 1927 میں ان کی ادارت میں روزنامہ مسلمان جاری کیا جس کی پہلی اشاعت کا اجرا آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے صدر مختار احمد انصاری کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
چند سال مدیر رہنے کے بعد ابو الجلال ندوی ندوہ (اترپردیش) لوٹ گئے اور پھر وہاں سے سنہ 1957 میں کراچی ہجرت کر گئے۔ جب میں سنہ 1984 میں پہلی مرتبہ پاکستان گیا تو میں نے وہاں ابو الجلال ندوی سے ملاقات کی۔
ان کے بعد محمد نذیر احمد شاکر ’مسلمان‘ کے مدیر بنے۔ سنہ 1950 کی دہائی کے اوائل میں وہ بھی کراچی منتقل ہو گئے۔
اس کے بعد ایس ایم فاضل نے اخبار مسلمان کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ سنہ 1958 میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ مولانا محمد عبداللطیف فاروقی سابق ایم ایل اے اور ایم ایل سی نے عہدہ ادارت اختیار کی۔
سنہ 1964 میں سید عظمت اللہ کا انتقال ہوا تو ان کے فرزند دوم سید فضل اللہ اس کے پبلشر مقرر ہوئے۔ محمد عبداللطیف فاروقی سنہ 1980 تک اس اخبار کے مدیر رہے۔
مولانا محمد فاروقی کے انتقال کے بعد محمد علی حسین نے اس اخبار کی ادارت کا عہدہ سنبھالا۔ تقریباً 14 برس وہ مدیر رہے۔ ان کے انتقال کے بعد سید فضل اللہ اس اخبار کے پبلشر اور مدیر رہے۔
سنہ 2008 میں سید فضل اللہ کا وصال ہوا جس کے بعد سے سید عارف اللہ اس کے مدیر کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔